پیر محی الدین لال بادشاہ مکھڈوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: پیر سید محی الدین ۔لقب:لال بادشاہ،راہنما تحریک پاکستان۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:پیر سید محی الدین لال بادشاہ بن پیر غلام عباس شاہ بن پیر غلام جعفر شاہ۔علیہم الرحمہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1326ھ مطابق 1908ء کو"مکھڈ شریف" ضلع اٹک میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ کی ابتدائی تعلیم خانقاہ کےمدرسے میں ہوئی۔اسی مدرسے میں علومِ دینیہ کی تکمیل فرمائی۔حضرت لال بادشاہ انتہائی ذہین،معاملہ فہم،زیرک اور صاحبِ علم وفضل انسان تھے۔علم دوستی میں مشہور تھے۔خانقاہ کےمدرسہ غوثیہ کوترقی ووسعت آپ کی کوششوں کی بدولت ہوئی۔
بیعت وخلافت: اپنے والد گرامی سید غلام عباس شاہ صاحب علیہ الرحمہ کےدست پر بیعت ہوئے،اور ان کےوصال کےبعد ان کےمسن نشین ہوئے۔
سیرت وخصائص: پیر طریقت،صاحبِ تقویٰ وفضیلت،شیخ المشائخ،راہنماء تحریک پاکستان،حضرت پیر سید محی الدین لال بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ۔پیر صاحب علیہ الرحمہ نہایت شریف النفس، عبادت گزار اور صاحب ِکشف و کرامت بزرگ تھے۔ حق گوئی وسچائی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔باطل سے ٹکرانا،اوراسے نیست ونابود کرنایہ آپ کا محبوب عمل تھا۔بڑے سےبڑے جاگیرادار،وڈیرے،اوربدمعاش قسم کےلوگ، پیر صاحب کو مرعوب نہ کرسکے،ساری زندگی انہیں للکارتےرہے،اورظلم کےخلاف ایک مظبوط آواز بن کر مظلوموں کاسہارا بنےرہے۔انہیں سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ 1936ء سے 1947ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔1955ء تا 1958ء ڈسٹرکٹ بورڈ اٹک کے ممبر بھی رہے۔ بڑے اچھے مقرر اور زیرک سیاستدان تھے۔فروری 1946ء کے الیکشن میں پیر صاحب نے یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر اٹک سے صوبائی سیٹ پر مسلم لیگ کے امید وار ایم محمد یوسف کا مقابلہ کیا اور 8342 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جب کہ لیگی امید وار نے 4203 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح پیر صاحب یونینسٹ پارٹی ک پلیٹ فارم سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔
پیر صاحب نے یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن تو جیت لیا مگر انہیں احساس ہونے گلا کہ مسلم لیگ کی مخالفت کر کے انہوں نے کوئی مستحسن قدم نہیں اٹھایاہے۔ یہ خلش انہیں اندر رہی اندر کھائے جارہی تھی۔ چنانچہ انہوں نے 17،مارچ 1946ء کو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک اخباری بیان روز نامہ "انقلاب" لاہور ربابت 20، مارچ 1946ء کے ذریعے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا:" میں نہایت مسرت و امتہاج کے ساتھ آپ کی وساطت سے اپنی ناچیز خدمات ملت اسلامیہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ میں ان تمام ذاتی یا سیاسی اختلافات کو جنہوں نے ماضی میں مجھے ایسا کرنے سے باز رکھابر طرف کرتا ہوں۔ مفادِ ملت کیلے میری حقیقی پیش کش کو قادرِ مطلق قبول فرمائے۔اپنی انفرادی حیثیت سے قوم کےلئے میں جو کچھ کر سکتا تھا اس میں کوشاں رہا ہوں۔ ایسا کرنے میں غرض مندانہ مفادوں سے مجھے ٹکرانا بھی پڑا اور اس سے مجھے نقصان بھی اٹھانا پڑا۔موجودہ ساعت جو ملت کےلئے بڑی آزمائش کی ساعت ہے۔ پورے و ثوق کیساتھ میری رائے یہ ہے کہ اس وقت ہر فرد ملت کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوجائےیہ فرض ہر دوسرے فرض پر مقدم ہے۔اس لیے میں اپنے ذاتی اختلافات کو قطعاً بھلا کر اور مٹا کر ملت کےایک ادنی خادم کی حیثیت سے اسمبلی کے اندر اور باہر بھی آپ کی اور مسلم لیگ کی تائید و حمایت کا اقرار صالح کرتا ہوں"۔آپ کا یہی بیان اختصار کے ساتھ روز نامہ " نوائے وقت"لاہور بابت 19/ مارچ 1946ء میں یوں چھپا:" میں ایک خادم کی حیثیت سے اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی خدمات مسلمانا ن ملت کو پیش کرتا ہوں"۔
پیر صاحب کے اس اقدام کو بہت سراہا گیا اور ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔اب پیر صاحب نے اپنی تمام تر مساعی مسلم لیگ کیلیے وقف کردیں۔ مسلم لیگ ان کے دل کی دھڑکن بن گئی۔یکم اگست 1946 ء کو پیر صاحب کی زیر صدارت مکھڈ شریف میں مسلم لیگ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ تمام مجاہد مسلم لیگ کے اقدام کی حمایت کریں گے۔جنوری 1947ء میں جب خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم پنجاب کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلی تو پیر صاحب نے اس تحریک کو کامیاب، بنانے کےلئے تن من دھن کی بازی لگادی۔ گرفتار ہو کر جیل گئے مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ بھر بھی جنبش نہ ہوئی۔ ان کے مریدوں عقید ت مندوں اور ساتھیوں نےا ن کی عدم موجودگی میں تحریک کو جاری و ساری رکھا۔ آپ کو گرفتار کر کے سیالکوٹ جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔آپ نے جیل میں نماز باجماعت کی ادائیگی کی طرح ڈالی۔ نیز فارغ اوقات میں باداموں پر آیت کریمہ کا ورد بھی ہوتا۔آپ کے مرید اور عقیدت مند ملاقات کے لیے آتے تو خشک میوے، تازہ پھل اور مٹھائی ساتھ لاتے جو آپ سب رضا کاروں میں تقسیم کرادیا کرتے تھے۔
پاکستا ن بننے کےبعد پیر صاحب نے سیاست کی بجائے اپنی تمام تر توجہ خانقاہ ہی نظام کی طرف مبذول کرلی۔ خلق خدا کی روحانی تربیت فرمانے لگے لیکن پھر بھی مسلم لیگ سے اپنا ناطہ نہ توڑا۔ ساتھیوں کے پر زور اصرار پر 1955ء میں ڈسٹر کٹ بورڈ اٹک کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔
پیر صاحب اوردیگر علماء ومشائخ اہل سنت نے صرف اور صرف اسلام کےلئے ساری جدوجہد فرمائی تھی،کہ اس خطے میں مسلمان آزادی کےساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی زندگی بسر فرمائیں،ورنہ ان کاکوئی الگ خطہ حاصل کرنا مقصود نہیں تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نےبارہا باور کرایا تھا کہ ہمارامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے اصولوں کےمطابق زندگی گزاریں،اورجب اسلامیہ کالج پشاور کےجلسے میں سوال کیا گیاکہ اس ملک کاقانون کیا ہوگا؟تو قائد اعظم نے برجستہ جواب دیا کہ ہماراقانون قرآن وسنت ہوگا۔لاکھوں لوگوں نےجانیں قربان کیں،لاکھوں عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں،لاکھوں لوگ بےگھر ہوئے،عورتیں بیوہ،بچے یتیم ،اورخاندان بکھر گئے۔اپنی املاک سب چھوڑ چھاڑ کرپاکستان کی طرف ہجرت کی تو کیاان کایہ مقصد تھا کہ یہاں ہمارے او پربےدین،بےضمیر،بےغیرت،کرپٹ،راشی سیاستدان،وڈیرے،جاگیردار،اور انگریز کےبےدام غلام حکمرانی کریں؟،ان لوگوں کو شرم آنی چاہئے جولوگ پاکستان کوایک "سیکولر"ریاست بنانے پرتلے ہوئے ہیں،اور آج نوجوان نسل کو گمراہ کررہےہیں۔لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں، ان کی پرخلوص جدوجہد،اور صعوبتیں برداشت کرناصرف اور صرف نظام مصطفیٰ ﷺ کے لئے تھا۔اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ اس وقت ہر پیر وجوان کی زباں پر ایک ہی نعرہ تھا۔"پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ"۔(تونسوی غفرلہ)۔14/اگست 1990ء کوایک پروقار تقریب میں "مجاہدین وکارکنانِ تحریک پاکستان" کی خدمات کا اعتراف میں "گولڈ میڈل"تقسیم کےگئے۔چنانچہ حضرت سید غلام محی الدین لال بادشاہ علیہ الرحمہ کوبھی تحریک پاکستان میں خدمات کااعتراف کرتےہوئے حکومت پاکستان لاہور میں"گولڈ میڈل " کا اعزاز دیا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 9/شعبان المعظم 1383ھ،مطابق 26/دسمبر 1963ءبروز جمعرات کو ہوا۔مکھڈ شریف کی خانقاہ میں آرام فرماہیں۔
ماخذومراجع: تحریک پاکستان اور مشائخِ عظام۔