حسن جان مجددی فاروقی، خواجہ علامہ حافظ
محمد
ولادت: ۶؍شوّال المکرم ۱۲۷۸ھ
مطابق ۶؍اپریل۱۸۶۲ھ
والدِ ماجد: سراج الاولیاء حضرت خواجہ عبدالرحمٰن مجددی فاروقی(م ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء)
دادا حضور: حضرت شیخ عبد
القیوم سر ہندی قدس سرہ (۱۲۷۲ھ/۱۸۵۵ء)
سلسلۂ نسب:
حضرت خواجہ علامہ حافظ محمد حسن جان مجددی فاروقی کا سلسلۂ
نسب دس (۱۰) درمیانی
واسطوں سے حضرت امامِ ربانی مجددِ الفِ ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی قدس سرہ سے اور اس سے اوپر بتیس (۳۲) واسطوں
سے حضرت سیّدنا امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔
(شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ، ص ۱۹، مطبوعۂ خواجہ محمد
حسن جان اکیڈمی، حیدر آباد، سندھ)
افغانستان سے ہجرت:
حضرت موصوف کی عمرِ مبارک جب سترہ برس کو پہنچی تو اس وقت افغانستان
میں ایک اندوہ ناک انقلاب رونما ہوا۔ ۱۲۹۵ھ /۱۸۷۱ء میں
انگریز کابل اور قندھار پر قابض ہوگئے اور ہر طرف افراتفری پھیل گئی اس
اثناء میں آپ کے والدِ ماجد افغانستان سے ہجرت فرماکر ’’ٹکھڑ‘‘کو مستقل اقامت گاہ
کے لیے پسند فرمایا (حیدر آباد سندھ
سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ ساداتِ کرام کی بستی ہے۔
یہاں کے حاکم و رئیس بھی سادات کرام تھے، جن کے اصرار پر) اپنے والدِ بزرگوار کی
رحلت ۱۳۱۵ھ /۱۸۹۷ء
کے بعد آپ نے ٹکھڑ میں مزید ایک سال قیام فرمایا ۔ اس کے بعد آپ نے قصبہ
ٹنڈو سائیں داد میں مستقل سکونت اختیار کر لی، ٹکھڑ سے یہاں منتقلی کی بڑی وجہ
مریدین اور زائرین حضرات کی سہولت تھی۔ کیوں کہ ٹنڈو سائیں داد اپنے محل و قوع کے
اعتبار سے ریلوے اسٹیشن ٹنڈو محمد خان سے ایک میل کے فاصلے پر تھا اور دور و نزدیک
سے آنے والے حضرات ریل کے ذریعے ہی یہاں پہنچتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد یہ
مقام مطلع الانوار بن گیا۔
(مقدمہ شرح حکم فارسی کا اردو ترجمہ، ص ۲۵)
تعلیم و تربیت:
حضرت خواجہ صاحب کی ظاہری اور باطنی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ
کے والدِ ماجد کے سایۂعاطفت میں ہوئی جو اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور ولی اللہ
تھے، اُنھیں کی نظرِ کیمیا اثر کی بدولت آپ علوم و معارف کے کمال مدارج تک پہنچے۔
(شرح حکم فارسی کا اردو، ترجمہ، ص ۲۲)
حضرت مولانا خواجہ محمد حسن جان نے قرآنِ مجید پڑھنے کے بعد
قندھا ر میں مولانا باز محمد سے فارسی کی کتابیں پڑھیں۔جب ۱۲۹۷ء میں
والدِ ماجد کے ہمراہ سندھ تشریف لائے تو مٹیاری کے مشہور عالمِ دین علامہ الحاج لعل محمد سےدو سال تک کسبِ فیض
کرتے رہے۔ پھر وہاں سے عرب میں جاکر اس وقت کے ممتاز عالم حضرت مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی کے
پاس مدرسۂ ’’صولتیہ‘‘ میں پانچ سال کے عرصے میں اپنے علم کی تکمیل کی ،اسی مدرسے
میں مولانا حضرت نور سے سراجی پڑھی،۱۳۰۱ھ میں مُفتیِ مکہ حضرت مفتی
شیخ سیّد احمد بن زینی دحلان مکی سے
علمِ حدیث حاصل کیا اور روایتِ صحاحِ ستّہ کی اجازت بھی ان سے حاصل کی۔والد ماجد
سے دیگر کتب کے علاوہ بخاری شریف سبقاً پڑھی اور سندِ فراغت حاصل کی اور اس کے بعد
آپ کو قرآنِ پاک حفظ کرنے کاشوق ہوا۔ تھوڑے عرصے میں بائیس پارے مکہ شریف میں یاد
کیے اور باقی آٹھ پارے ’’ٹکھڑ‘‘ میں آنے کے بعد حفظ کیے ۔
حج وزیارت: پانچ مرتبہ حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔
چوتھا سفرِ
زیارت:
۱۳۳۲ھ میں
حرمین شریفین،کربلا،نجفِ اشرف، شام اور بیت المقدس کی زیارات کی نیت سے تقریباً
بیس افراد کے ہمراہ بغداد شریف حاضر ہوئے۔یہ آپ کا چوتھا سفر زیارت تھا۔اسی دوران
جنگ عظیم چھڑ گئی اور آپ بہ ہزار مشقت حرمین شریفین پہنچے اور مختلف مقامات کی
سیر کرتے ہوئے واپس تشریف لائے۔
تعمیرِ مساجد و مدارس:
حضرت خواجہ محمد حسن نے متعدد مساجد اور گیارہ مدارس تعمیر کرانے کا
شرف حاصل کیا۔آپ کی عمرِ مبارک ۸۷ سال تھی، اس عرصے میں پانچ حج کیے، کئی مسجدیں بنوائیں، گیارہ مدرسے
تعمیر کروائے۔ آپ مریدین کو بھی بیش از
بیش حصہ لینے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
صبر و رضا کے
پیکر:
اتباعِ شریعت،سادگی اور اخلاقِ حمیدہ میں بے مثل تھے، صبر و تسلیم کا
یہ عالم تھا کہ ۱۳۵۴ھ میں آپ اہل وعیال سمیت کوئٹہ میں تشریف فرما تھے کہ ۲۷؍ صفر المظفر کو ہول ناک زلزلے نے قیامتِ صغریٰ
قائم کردی،پورا علاقہ تہ و بالا ہوگیا،لاتعداد افراد شہید ہوئے۔ حضرت مولانا کے
اہل و عیال اور ہمراہیوں میں سے گیارہ افراد جامِ شہادت نوش کر گئے، لیکن آپ نے
حیرت انگیز ہمت و استقامت کا مظاہرہ کیا اور چند معاونین کے ہمراہ ایک ایک فرد کو
ملبے کے نیچے سے نکالا اور کفن و دفن کا انتظام کیا۔
بے باک مجاہد:
حضرت مولانا علم و فضل کے ساتھ ساتھ بے باک مجاہد اور مردِ میدان بھی
تھے چنانچہ جب ۱۲۹۶ھ میں انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو آپ بھی والدِ ماجد کے
ہمراہ شریکِ کارزار ہوئے۔
صاحبِ بصیرت قومی راہ نما:
آپ بیدار مغز اور صاحبِ بصیرت قومی راہ نما تھے۔ ترکی کے سلطان عبد الحمید خان کو
خلیفۃ المسلمین تصور کرتے تھے اور جب انگریز وں نے سلطان کو معزول کیا تو آپ بڑے
رنجیدہ ہوئے،جنگِ بلقان اور اطالیہ کے
طرابلس پر حملے کے موقع پر معتقدین اور سندھ کے مسلمانوں سے خطیر رقم اکٹھی کر کے
ہلالِ احمر کے ذریعے مجاہدین کے لیے بھجوائی۔تحریکِ خلافت
میں گم کردہ راہ لیڈروں کی کجروی پر بہت افسوس کیا کرتے تھے۔ آپ نے کھل کر بعض
مسائل میں شرعی نقطۂ نظر سے اختلاف کیا اور طعن و تشنیع کی پرواہ کیے بغیر اپنے
موقف کو واضح طور پر پیش کیا۔آپ گاندھی قیادت کو سخت نا پسندیدگی کی نگاہ سے
دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو انگریزوں سے
لاتعلقی کرتے ہیں اور دوسری طرف مشرکینِ ہنود سے اتحاد اور داد کے حامی ہیں جو انگریزوں سے بھی زیادہ دشمنِ اسلام ہیں۔اسی طرح جب لیڈروں
نے ہندؤوں کے فریب میں آکر سادہ لوح مسلمانوں کو انگریز کے مقبوضہ علاقوں سے ہجرت
کر کے افغانستان چلے جانے کا مشورہ دیا اور لوگ جوق در جوق ترکِ وطن کرنے
لگے تو اس موقع پر بھی آپ نے قوم کی صحیح رہ نمائی کی اور ترکِ وطن سے ممانعت کی۔
اور فرمایا:
’’وہاں اتنی گنجائش کہاں ہے کہ سب لوگ سما سکیں؛ خواہ مخواہ خود بھی پریشان
ہوں گے اور مسلمانوں کے بادشاہ کو بھی تکلیف دیں گے۔ اس سے مسلمانون کے دشمنوں کو
خوشی ہوگی۔‘‘
اسی دوران سندھ میں فتنۂ نجدیت نے سر اٹھایا،اس کی سر کوبی کے لیے
بھی آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ غرض کہ اعتقادی،عملی،اخلاقی اور سیاسی امور
میں قوم کی بر وقت راہ نمائی کی اور ایک روشن دماغ،صائب الرائے قائد کے فرائض
انجام دیے۔ آپ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے۔ہر اُس تحریک
میں بڑھ کر حصّہ لیتے جو اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے لیے شروع کی جاتی۔
تحریکِ خلافت کے دور کا ایک واقعہ آپ کے فرزندِ ارجمند مولانا پیر ہاشم جان نے
اس طرح بیان کیا:
’’جب تحریکِ خلافت شروع ہوئی تو اُس وقت مولانا محمدعلی جو ہر کی ہدایت پر سندھ میں اہلِ ثروت لوگوں سے چندہ جمع کرنے
کے لیے حاجی عبد اللہ ہارون کی
قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،اس کمیٹی کے افراد حاجی صاحب خود،حکیم فتح محمد
اور مولانا صادق وغیرہ میرے والد ماجد محمد حسن جان سرہندی کی خدمت میں پہنچے اور
اپنا مقصد بیان کیا۔والدِ محترم نے فرمایاکہ خلافتِ اسلامیہ کے اِحیاء اور انگریز
حکومت سے مسلمان ممالک کی آزادی کے لیے ضرورت مالی جہاد کی ہے،مالی جہاد جسمانی
جہاد سے بہت فروتر ہے۔
اس کے بعد فرمایا کہ میں گھر جاکر دیکھتا ہوں،گھر میں جو رقم ہوگی وہ
لاکر پیش کردوں گا،اس وقت کا غذ کے نوٹ نہیں تھے، اشرفیوں کی صورت میں روپیہ جمع
رہتا تھا چنانچہ والدِ محترم بھری ہوئی تھیلیاں اٹھواکر لائے،کمیٹی کے ممبروں کے
حوالے کردیں اور فرمایا: میرے گھر میں دس ہزار روپیہ سے کچھ زائدتھے وہ سب آپ کے
حوالے کر رہا ہوں،انہوں نے ایک آنہ بھی گھر میں نہیں چھوڑا تھا، پورے برِّصغیر
میں یہ مالی قربانی کی اس طرح کی پہلی مثال تھی جو والدِ محترم نے پیش کی۔‘‘
مولانا محمد حسن جان نے تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں مسلم لیگ کی بھر پور امداد
کی،مریدین کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالنے کا حکم دیا اور با اثر لوگوں کو خطوط
لکھ کر مسلم لیگ کی حمایت کا حکم دیا۔ذیل میں آپ کے ایک فارسی مکتوب کا ترجمہ پیش
کیا جا رہا ہے:
’’مخلصین مکرمین و ڈیر ہ محمد قاسم،وڈیرہ عبد اللہ وقاضی جان محمد سلمہم ربہم بعد از دعائے خیر تم مخلصین
کو بہ طور نصیحت لکھا جاتا ہے کہ الیکشن کے سلسلے میں اسلام کے مددگار بنو اور
کافر ہندؤوں کی رفاقت سے الگ ہو جاؤ کیوں کہ یہ ہندؤوں کا مسلمانون سے مقابلہ
ہے۔سیّد اکبر علی شاہ کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دے دیا گیا ہے اس لیے تم پر لازم ہے کہ
ان کی مخالفت سے دست بردار ہو جاؤ اور جس قدر ممکن ہو امداد کرو۔ والسلام! ۶؍ماہ صفر ۲۵ھ فقیر محمد حسن جان عفی عنہ‘‘
سندھ میں یہ مقولہ مشہور تھا:
’’پیر سر ہندی سندھ کا بے تاج بادشاہ ہے۔‘‘
چناں چہ آپ کی امداد واعانت سے مسلم لیگ نے سندھ میں زبر دست
کامیابی حاصل کی۔
مسجد منزل گاہ،سکھر کو ہندؤوں کے قبضے سے واگزار کرانے کی تحریک چلی
تو آپ نے دو صاحبزادوں،مولانا عبد اللہ جان اور مولانا عبد الستار جان کی قیادت میں ہزاروں مریدین کو سکھر بھیج دیا جنہوں نے مسجد کی واپسی
تک تحریک میں پر جوش حصہ لیا۔
سندھ میں لواری بہت بڑی گدی ہے،وہاں کے مشائخ دینی اور قومی خدمات کی
بنا پر زبر دست شہرت کے حامل رہے ہیں۔قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل بعض لوگوں نے
مشہور کردیا کہ جناب احمد زمان سجادہ نشین لواری
شریف نے عرس کے موقع پر حج کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور مریدین کو یہ تاثر
دیا ہے کہ مکہ،مدینہ جانے کی بجائے یہیں حج کرلیا کریں، مکہ کا سارا نور لواری
شریف میں منتقل ہوگیاہے،حضرت خواجہ محمد حسن جان کو یہ اطلاع پہنچی تو اُن کے
ایماء پر ہزاروں مریدین کفن بردوش میدان میں نکل آئے۔ جب انگریز حکومت نے دیکھا
کہ مسلمان اس مسئلے پر خون بہانے کے لیے تیار ہیں تو سرکاری طور پر پابندی کا
اعلان کردیا۔
حضرت خواجہنے پوری زندگی ملک و ملّت خصوصاً مسلکِ حق اہلِ سنّت و جماعت کی خدمت میں صرف
کردی اور اسی کام کا بیڑا آپ کے رحلت فرمانے کے بعد آپ کے حقیقی جانشین فرزند ان
حضرت خواجہ عبداللہ المعروف شاہ آغا جان و حضرت خواجہ عبدالستارجان و حضرت آغا خواجہ علامہ حافظ محمد
ہاشم جان نے اٹھایا ، لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا
ہے کہ اب اس وقت آپ کی اولاد میں سے کچھ دیوبندیوں اور وہابیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
انہیں اپنے اَجداد کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔
تصانیف:
حضرت مولانا کو دینی اور علمی کتب کے مطالعے سے بے حد شغف تھا،اپنے
اکثر اوقات تصنیف و تالیف میں صرف فرماتے تھے۔آپ کا ذاتی کتب خانہ مطبوعہ اور غیر ِمطبوعہ نادرو نایاب کتب کا
بہترین ذخیرہ ہے۔آپ نے اس دور کی اعتقادی آویزش کو ختم کرنے کے لیے نہایت اہم
کتابیں لکھیں۔آپ نے دیگر موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور فضیلتِ علمی کے قابلِ قدر
جواہر پارے یادگار چھوڑے۔
آپ کی تصانیف یہ ہیں:
1. انیس المریدین (فارسی) (اپنے والد ِ ماجد حضرت خواجہ عبد الرحمٰن فاروقی کی
سوانحِ حیات پر لکھی۔ اس میں مشائخ عظام کا اجمالی
تذکرہ اور سلوکِ طریقۂ نقشبندیہ کے ابحاثِ شریفہ درج ہیں۔(مطبوعہ مطبع مجددی امر
تسر ۱۳۲۸ھ) ۔
2. شفاء الامراض (عربی) جملہ امراض کے لیے کتبِ طبیہ کی ترتیب پر
تعویذات اور وظائف پر مشتمل ہے۔
3. انساب الانجاب : خاندانِ مجددیہ کا تذکرہ (مطبوعہ مطبع مشہور
عالم،لاہور)
4. طریق النجاۃ مع رسالہ التنوری فی اثبات التقدیر
(عربی) ردِّ نیچریت۔
5. العقائد الصحیحۃ فی بیان مذہب اہل السنۃ والجماعۃ (علمائے بریلی اور دیوبند کے اختلافی مسائل پر تبصرہ اور مسلک اہل
سنّت و جماعت کی تائید) (مطبوعہ مطبع الفقیہ امر تسر)
6. رسالہ تہلیلیہ(کلمۂ طیّبہ کی شرح (مطبوعہ مطبع الفقیہ امر تسر)
7. تذکرۃ الصلحاء فی بیان الاتقیاء (ان اولیا و صالحین کا تذکرہ جن سے عرب شریف، سندھ،خراسان
اور ہند میں آپ کی ملاقات ہوئی)(مطبوعہ مطبع نظامی کانپور ۱۳۴۸ھ)
8. شرح حکم شیخ عطاء اللہ سکندری (علم توحید اور بندے کے اپنے رب کے
ساتھ تعلقات کی مکمل تشریح) (مطبوعۂ ۱۳۵۷ھ)
9. پنج گنج
اس میں پانچ رسالے ہیں:
۱۔ سفرِ حجاز کی تفصیلات
۲۔ شرح چہل کاف
۳۔ مناسکِ حج
۴۔ مجموعۂ احادیث(جو آپ کو مکۂ مکرمہ میں شیخ سیّد محمد ابو نصر دمشقی
سے حاصل ہوئیں مع خطباتِ نبویّہ)
۵۔ دینی
دنیاوی نصائح۔
10.
سفر
نامۂ عربستان
11.
الاشارۃ
الی البشارۃ(التحیات میں اشارہ نہ کرنے کی تائید و تحقیق)
12.
رسالۃ فی
صحۃ الجمعۃ فی القرٰی (دیہاتوں اور قصبوں میں جواز
جمعہ کے متعلق فتوے )
13.
لغات
القرآن (قرآن پاک کے مشکل الفاظ کی
تفسیر )
14.
رسالہ
درقواعدِ تجوید و قراءت
15.
الاصول
الاربعۃ فی الوہابیۃ(فارسی)۔
اس کتاب میں بریلوی مسلک کی تائید فرمائی ہےاور دیوبندی وہابی
فرقے پر تنقیداور تردید کی ہے اور اس کتاب میں چار بنیادی اصولوں کا بیان حنفی
مذہب کے مطابق کیا گیا ہے۔ (۱) غیر اللہ کی تعظیم (۲)
وسیلہ لینا (۳) نداء غائب (۴) چاروں مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا، یہ کتاب آپ کی حیاتِ
مبارک میں ہی ہند، سندھ، افغانستان کے علاوہ عرب و عجم کے دوسرے ممالک میں بہت
مقبول ہوئی۔ اس کا ایک ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں
ترکی سے بھی شائع ہوا۔ اس کا سندھی ترجمہ زیرِ طبع ہے اور طریق النجات (فارسی) بہت
مشہورہوئی ہے۔ حضرت خواجہ محمد حسن جان کو لوگ مختلف القاب سے یاد کرتے تھے۔ آپ کو
حضرت وقت، قطب الاوقات اور ثانی مجددِ الفِ ثانی بھی کہتے تھے۔
(تذکرہ شعراء ٹکھڑ سندھی، ص ۴۸ ؛ مقدمۃ العقائد الصحیح،
خواجہ محمد حسن جان، اکیڈمی، حیدر آباد، سندھ)
شعر
و سخن:
حضرت مولانا شعروشاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے،عربی اور فارسی میں
اظہارِ خیال کرتے تھے۔اگر چہ اس طرف میلانِ طبع بہت کم تھا اور کوئی شعری ذخیرہ
بھی یادگار نہیں چھوڑا لیکن آپ کے کلام کی سلاست،روانی اور پختگی،بلندیِ فکر کی
غماز ہے،مدینۂ طیّبہ کی تعریف میں لکھتے ہیں:
ز اوصاف مدینہ ہرچہ گویم، قطرہ
از دریا است
عفاف آنجا کفاف آنجا صلوٰۃ آنجا زکوٰۃ آنجا
خداوندا عطا کن بندۂ خود را بفضل خود
قیام آنجا مقام آنجا حیات آنجا ممات آنجا
اگر خواہی کہ بینی جنت الماوے دریں عالم
نشیں در روضۂ اطہر بخواہ از حق نجات آنجا
وصالِ پُر ملال: ۲؍ رجب المرجب ۱۳۶۵ھ
مطابق ۲؍جون ۱۹۴۶ء۔
مزارِ مبارک:
حضرت خواجہ محمد حسن جان کوہِ گنجہ (مضافات ِحیدر آباد) کے دامن
میں اپنے والدِ ماجد کے پہلو میں مدفون ہیں۔
آپ کے فرزندِ اجمند مولانا عبداللہ حضرت شاہ آغا صاحب نے ۱۹۷۳ء میں وصال فرمایا۔آپ بھی اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔آپ کا مزارِ
مبارک اپنے والدِ ماجد حضرت خواجہ محمد حسن جان کے پہلو میں ہے اور ایک ہی گنبد
میں یہ تین فضلائے وقت آرام فرما ہیں یعنی حضرت خواجہ عبد الرحمٰن ،حضرت خواجہ
محمد حسن جان اور حضرت شاہ آغا ۔
مآخذ:
·
اردو
ترجمہ مقدمہ شرح حکم فارسی، خواجہ محمد حسن جان اکیڈمی، حیدر آباد، سندھ۔
·
تذکرہ
اولیائے سندھ۔
·
تذکرۂ
اکابرِاہلِ سنّت۔
