مصلح عظیم،مرد میدان،امیر جند اللہ
حضرت پیر حافظ محمد شاہ غازی بھیروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مصلح عظیم،مرد میدان،امیر جند اللہ حضرت پیر حافظ محمد شاہ غازی ابن حضرت امیر السالکین پیر امیر شاہ (قدس سرہما) تقریباً ۱۳۰۸ھ؍۱۸۹۰ء میں بھیرہ ضلع سرگودھا میں رونق افزائے وار دنیا ہوئے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت شیخ الاسلام بہاء الحق و الدین ابو محمد زکریا سہروردی ملتانی قدس سرہ (جن کی دینی خدمات تاریخ اسلامی کا رشن ترین باب ہیں) سے ہوتا ہوا اصحاب صفہ میں سے صحابیٔ رسول حضرت ہبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔قریباً تین سو سال پہلے حضرت شیخ الاسلام کے خاندان کے ممتاز فرد حضرت دیوان پیر فتح شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ بھیرہ میں تشریف لائے اور شدو ہدایت اور تبلیغ اسلام کا وہ چراغ روشن کیا جو آپ کی اوالاد امجاد کی بدولت ہمیشہ در خشندہ وتابند رہا حتیٰ کہ یہ مرکزیت اور دینی قیادت حضرت پیر محمد اہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حصہ میں آئی۔
حضرت پیر محمد شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ سن شعور کو پہنچے تو مکتب میں بٹھائے گئے جہاں آپ نے حافظ محمد موسیٰ اور حافظ جہان سے قرآن کریم حفظ کیا بعد ازاں اگر چہ درس نظامی کی تکمیل نہیں کی لیکن بہت سے اساتذہ سے بہت حد تک ضروری مسائل کیی واقفیت حاصل کرلی۔قرآن پاک کے ساتھ آپ کو عشق کی حد تک لگائو تھا۔ رمضان شریف میں تراویح کے علاوہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں نوافل میں قرآن مجید کا ختم ااپ کا معمول تھا۔قدرت نے آپ کو لحن داوٗدی عطا فرمایا تھا،جب آپ تراویح میںقرآن پاک پڑھتے تو بعض ہندو مسجد کے باہر بیٹھ کر ذوق و شوق سے سنا کرتے تھے۔
والد گرامی نے بری توجہ سے آپ کی تربیت فرمائی اور مناسب وقت پر حضرت خواجہ ضیا ء الدین سیالوی قدس سرہ العزیز سے بیعت کرادیا حضرت خواجہ نے مختلف ریاضتیں کرانے کے بعد آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور خلق خدا کی رہنمائی کا کام آپ کے سپرد کیا جسے آپ نے اس خوبی سے نبھایا کہ باید و شاید،عبادت وریاضت میں حویت کا یہ عالم تھاکہ تمام عمر صوم داوٗدی (ایک دن روزہ اور ایک دن افطار) رکھتے رہ نماز تہجد اور دیگر نوافل اس پابندی سے ادا کرتے کہ حالت علالت میں بھی شاید ہی کبھی قضا ہوئے ہوں گے۔ نماز با جماعت ادا کرنے کے خیال سے سفر میں کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ ضرور رکھتے۔پندرہ شعبا سے آخر رمضان تک اعتکاف میں رہتے،وصال سے چنش سال قبل تک آپ کا معمول تھا کہ نماز عصر کے بعد دریائے جہلم کے کنارے تشریف لے جاتے ور رات کو نو،دس بجے تک اور ادو وظائف میں مشغول رہ کر واپس تشریف لاتے۔
علوم دینیہ کی ترویج سے آپ کو فطری لگائو تھا جس کی بنا پر آپ نے والد گرامی کی موجودگی میں مدرسہ تدریس القرآن قائم کیا جو اب تک جاری ہے،ایک پرائمری سکول کھولا تاکہ قوم کے نونہال لکھنے پڑھنے کے قابل بن سکیں۔ ۱۹۲۵ء میںتعلیم المسلمین کے نام سے ایک ینی درس گاہ قائم کی جس میں اپنے دور کے مقتدر فضلاء کو تدریس کے لئے مقرر کیا۔اس دار العلوم نے خاطر خواہ ترقی کی اور قابل قدر دینی و علمی خدمات انجام دیں۔۱۹۵۶ء میں آپ کے فرزند اجمند حضرت پیر محمد کرم شاہ مدطلہ العالی مدین ماہنامہ ضیائے حرم نے دار العلوم غوثیہ (بھیرہ ) کے نام سے ایک خوشگوار انقلاب پیدا کیا اور دار العلوم کے نصاب میں قدیم و جدید علومکو یکجا کردیا،اپنی نوع کا یہ منفرد دار العلوم بڑی کامیابی سے جانب منزل گامزن ہے۔
قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کی زبوںحالی اور بے عملی آپ کو ہمیشہ بے چین رکھتی اور خاص طور پر جب مسلمانوں کو ہدنو نبیوں کے سودی قرضوں میںجکڑا ہوا دیکھتے تو بیقرار ہوجاتے اس لئے آپ سال میں ڈیڑھ دو ماہ کا تبلیغی دورہ کرتے اور احکام الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے،سودی قرضوں سے نجات پانے کے لئے بچوںکو زیور علم سے آراستہ کرنے اور تجارت میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینے کی بھر پور تبلیغ فرماتے۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں بڑی گر مجوشی سے مسلم لیگ کی تائد و حمایت کی،اپنے حلقۂ اثر میں بکثرت طوفانی دور ے کئے اور مسلم لیگی امیدوار کو کامیاب کرانے کے لئے فضا ہموار کی،اگر کسی مرید نے کسی مجبوری کے تحت مسلم لیگ کو ووٹ دینے میں پس و پیش کی تو اس سے تعلق قطع کرلیا جب قائد اعظم کے ایماء پر نا فرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو آپ بھی اس میں شریک ہوئے اور قید بند کی صعوبتوں کی خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
قیام پاکستان کے بعد جب آزادیٔ کشمیر کی جنگ شروع ہوئی تو حضرت پیر محمد شاہ قدس سرہ نے اپنے پچاس مریدوں کے ساتھ (جو سابق فوجی تھے) میدان کا رازا ر میں عملی طورپر مردانہ وار حصہ لیا۔سچیت گڑھ(بھارت) کے مقابل موضع بولے ونیس (ضلع سیال کوٹ) میں ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔آپ کے پاس روسی ساخت کی ایک بہترین رائفل تھی،آپ کے حکم پر ایک مرید نے اسی رائفل سے دشمن کے جہاز پر تین فائز کئے نتیجۃً وہ بھارت کے علاقہ میں جاکر گر گیا۔ایک دن مغرب کے وقت بھارتی ہوائی جہاز نے آکر گولیوں کی بارش کردی۔آپ اپنے تمام ساتھیوں سمیت اطمینان سے نماز ادا کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کسی کو خراش تک نہ آئی۔
کچھ دنوں بعد آپ کو باجرہ گڑھی(آزاد کشمیر) کے محاذ پر مقرر کردیا گیا جہاں آپ نے کرنل کیانی(راجہ حامد مختار سابق ایڈمنسٹر یٹر محکمہ اوقاف پنجاب کے برادر محترم)کی قیادت میں مجاہدانہ کار وائیاں جاری رکھیں دسمبر اور جنوری کی برفانی راتوں میں پیرانہ سالی کی پرواکئے بغیر مجاہدین کے ہمراہندی نالوں ار نشیب و فراز کو طے کرتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچ جاتے اور دادشجاعت دیتے،بعض احباب جب آپ کو آرام کرے کا مشورہ دیتے تو آپ فرماتے: ’’میں یہاں آرام کرنے کی خاطر نہیں آیا، مجھے تو شوق شہادت کشاں کشاں یہاں تک لے آیا ہے،دعا کیجئے کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہو جاتے ۔‘‘
اس جگہ آپ نے قریباً تین ماہ گزارے،ہر شخص آپ کے جوش ایمانی اور جذبۂ جہاد سے متاثر تھا،ذیل میں وہ سر ٹیفکیٹ درج کیا جاتا ہے جو کرنل کیانی ن ے اعتراف خدمت کے طور پر ااپ کو لکھ کر دیا تھا:
I feel great honour in introuducing pir Muhammad Shah Sahib Sajjada Nashin and Amir Jund-ullah Bhera Shrif
He together With his worked in my sector for about three months
in his old age he him self led his men in the battefield
A true patriot and a great inspiration all i wish we had more sodiers like him
(I.J. KIANI)
A.K.F.
Sialkot
ترجمہ: ’’میں پیر محد شاہ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے بری خوشی محسوس کر رہا ہوں، آپ نے اپنے پچاس مجاہدین کے ساتھ تقریباً تینماہ تک میرے سیکڑ میں کامکیا،پیرانہ سالی کے باوجود میدانکا راز میں بہ تفس نفیس اپنے مجاہدین کی قیادت کی،آپ سچے محب وطن اور سب کے لئے عطیم مشعل راہ ہیں،میری تمنا ہے کہ آپ جیسے مزید سپاہی ہماری میراث بنیں۔‘‘
ٓٓٓٓٗٓٓآئی جے کیانی
آزاد کشمیر فوز
آپ کی اولاد میں سے دو صاحبزادے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں:۔
۱۔ حضرت مولانا پیر محمد کرم شاہ مدظلہ فاضل جامعہ ازہر (فرزند اکبر)
۲۔ جناب صاحبزادہ غلام حیدر شاہ انچارج سول ہسپتال سکھیگی(گوجرانوالہ) چونکہ آپ کو اس امر کا قوی احساس تھا کہ گہر تعلیمی شعو ہی مسلمانوں کو پستی سے نکال کر باعزت مقام پر پہنچا سکتا ہے اس لئے اپنی اولاد کو زیور علم سے آراستہ کرنے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا،خاص طور پر رفرزند اکبر مولاناپیر محمد کرم شاہ مدظلہ کی تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی چنانچہ علوم عقلیہ کی تعلیم کے لئے امامالمناطقہ مولانا محمد دین بدھوی (کیمبلپور) اور فقہ،تفسیر،عروض اور ریاضی وغیرہ علوم کے لئے قدوۃ الفضلاء مولانا غلام محمود قدس سرہ(پیلاں۔میانوالی) مصنف نجم الرحمن و محشی تکملہ عبد الغفور کو مدو کیا، دورئہ حدیث کے لئے قائد اہل سنت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں جامہ نعیمیہ مراد آباد بھیجا،بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے بی ۔اے کرایا۔
اس کے باوجود آپ کو اپنے لخت جگر کو مزیا تعلیم دلانے کا اشتیاق تھا۔ اس مقصد کے لئے اپنے نور نظر کو جامعہ ازہر (مصر) بھیجا۔بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے با وجود اس طویل سفر پر روانہ کیا اور رخصت کرتے وقت فرمایا:۔
’’اس وقت جب کہ مجھے تمہاری اشد ضرورت ہے دور دراز سفر پر اس لئے روانہ کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دولت علم سے نوازے اور اپنے دین کی خدمت کی توفیق ارزانی فرمائے۔‘‘
حضرت صاحبزادہ پیر محمد کرم شاہ مدظلہ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۴ء تک جامعہ ازہر میں رہے آخری امتحان میں پورے جامعہ ازہر میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور کلیۃ الشرعتیہ الاسلامیہ کی سب سے بڑی ڈگری لے کر واپس آئے۔اس عرصے میں حضرت پیر محمد شاہ قدس سرہ کی بیماری نے بڑی شدت اختیار کرلی لیکن آپ نے متعلقین کو تاکید ی حکم فرمایا کہ انہیں میری علالت کی شدت کی ہرگز اطلاع نہ دی جائے بلکہ اگر خدا نخواستہ کوئی سانحہ پیش آجائے تو بھی مطلع نہ کرنا تاکہ ان کی تعلیم میں خلل واقع نہ ہو،علم دین کی اس قدر والہانہ محبت کی مثال آج کے دور میں شاید کہیں پیش کی جا سکے ۔
۲۴شعبان،۲۶،مارچ(۱۳۷۶ھ؍۱۹۵۷ئ) منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو مجامد و غازی حضرت الحاج حافظ پیر محمد شاہ سجادہ نشینو امیر جند اللہ بھیرہ (سرگودھا) کا وصال ہوا۔انتقال کے روز سخت نقاہت تھی،اکثر اوقات خاموش رہتے جب کبھی آواز سنائی دیتی تو پتہ چلتا کہ سورئہ یٰسین یا سورئہ ملک کی کوئی آیت تلاوت کر رہے ہیں۔
وصال سے چند دن پہلے اکثر اس آیت مبارکہ کا ورد کرتے رہے شھد اللہ انہ لا انہ لا الہ الا ھو والملٰئکۃ واولو العلم قائما با لقسط(الاٰیۃ)
بھیرہ شریف میں ہر سال نہایت اہتمام سے آپ کا عرس ہوتا ہے جس میں بصد حسن و خوبی دین مبین کی تبلیغ ہوا کرتی ہے[1]
نوٹ:۔ یہ تمام حالات مولانا بنوارز اجمیری مدرس دار العلوم محمد یہ غوثیہ بھیرہ نے فراہم کئے جس کے لئے راقم ان کا شکر گزار ہے۔
[1] محمد عبد الحکیم،شرف قادری: پیر محمد شاہ غازی ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، اکتوبر ۱۹۷۴ء ص ۸۱۔۸۶
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)