حضرت پیر قلندر قائم الدین علیہ الرحمۃ
و۱۱۴۰ھ ف ۱۲۱۵ھ
مجذوب مزاج صاحب کرام حضرت پیر قائم الدین قلندر کا شجرہ نسب اس طرح ہے قائم الدین بن مہر شاہ بن سراج الدین بن شیخ شہر اللہ بن شاہ اسماعیل بن قطب الدین بن فتح محمد بن شاہ کبیر بن شیخ بہاؤ الدین ثانی ملتانی بن ثھر اللہ اول بن شاہ یوسف بن عماد الدین محمد بن رکن الدین اسماعیل بن صدر الدین محمد بن عماد الدین شہید بن شیخ صدر الدین محمد عارف بن شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی اسد ہاشمی (حمہم اللہ)
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ص ۳۲۰)
آپ والدہ کا نام بی بی نہال بنت پیر پیر محمدکلاں (غوث کا پوتا) تھا۔ آپ کی ولادت ایک اندازے کے مطابق ۱۱۴۰ھ بتائی جاتی ہے، آپ کی پیدائش سے پہلے بہت سے بزرگوں نے آپ کی ولادت کی پیشنگوئی کی تھیں، ان میں سجادہ نشین دربار غوثیہ ملتان مخدوم بھاون شاہ، مخدوم کا ھو بکرائی بھی ہیں، صغر سنی میں بھی آپ کی ذات سے کئی کرامتوں کا ظہور ہوتا رہتا تھا، جوانی کے ایام میں ملتان کے سجادہ نشین مخدوم محمد غوث کے مرید ہوئے۔ مگر آپ کو جذب اور فیض کے کمال پر مخدوم عبدالحمید بوچھڑائی نے پہنچایا۔ جس کی توجہ سے حال سے بے حال ہوکر کمالیت کے درجہ پر چاپہنچے۔
جس کے بعد تار ک الدنیا اور قلندرانہ نمونے میں زندگی کا سفر رواں دواں ہوگیا۔ آپ کے حالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ حقہ پیا کرتے تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت پیر سید محمد راشد(روضی دھنی علیہ الرحمۃ) سے آپ کی ملاقات ہوئی، جس پر پیر صاحب نے حقہ نوشی کو ناپسند کیا، حضرت پیر صاحب (روضی دھنی) کے خلیفہ محمود نظامانی سے بھی آپ کی صحبت رہتی تھی۔ پیر فتح علی خان تالپور کو جب کلھوڑا حکمران سے حکومت ملی تو وہ اپنے بھائیوں سمیت حضرت قلندر صاحب کی خدمت میں دعا کے لیے آیا کرتے تھے۔
آپ کے مریدین و معتقدین میں سے شاہ عنایت رضوی نصر پوری، سید میر مرتضیٰ نصر پوری، سید میر محمد شاہ کھوروی، سید جمال شاہ مانک پوری، سید احمد جیلانی بدینی، فقیر شفیع محمد سینھوں سھروردی، فقیر رحیم ڈنو آریسر، فقیر امین محمد سینھوں جوظاہری علم کے بھی عالم تھے، اور فقیر موتیو بکیرا ہیں، حضرت شاہ عنایت رضوی نصرپوری نے اپنے سندھی کلام میں جا بجا آپ کی تعریف کی ہے۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ص ۳۲۱)
آپ فرماتے ہیں:
بادشاہ بکیرن میں متشرع موچار
آل قریشی اگر و ڈات ڈنس ڈاتار!!!
قلند قائم الدین قرار اصل کیوں ایمان جو
حضرت قائم الدین قلندر نے ۷۵ سال کی عمر میں ۱۳ شعبان۱۲۱۵ھ میں رحلت فرمائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق خلیفہ شفیع محمد راجو خانانی والے نے آپ کو غسل دیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آپ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، چوں کہ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے آپ کے بھتیجے پیر امام بخش پالکی والے کو آپ کی گدی پر بٹھادیا گیا۔
قطعہ تاریخ وفات
صاحب تاج ولواء سند و معراج و تخت
ہادی و مھدی قریشی ہاشمی اعلیٰ نسب
قطب عالم قائم الدین یک دل و قیوم وقت
گفت ھاتف سال تاریخ و وصال نیک بخت
۱۲۱۵ھ
آپ کا مزار بکیرا شریف تحصیل ٹنڈو لہیار حیدر آباد میں مرجع خلائق ہے۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد ودم ص ۳۲۲)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )