حضرت قادر بخش خان گولہ مولوی علیہ الرحمۃ
و ۱۲۵۳ھ/۱۸۳۷ء۔ ۱۳۴۱ھ/ ۱۹۲۲ء
مولوی قادربخش بن نگل خان ۱۲۵۳ھ میں جیکب آباد کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، بچپن ہی سے والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے، علم ظاہر کے ساتھ علم باطن آپ کو سندھ کے مشہور شیخ کے پاری کی سالہا سال کی صحبت سے حاصل ہوا، دوران تعلیم ہی اپنے مکان میں اکتارہے کی دھن پر محور ہوجایا کرتے تھے اور اسی سوز و گداز میں کھوجاتے، جو نہی تعلیم سے فارغ ہوئے استاد کی نصیحت کے مطابق ایک ویران مقام پ جنگل میں مدرسہ قائم کیا اور جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا، اس مدرسہ کے لیے کبھی کسی کی مدد قبول نہ کی، سینکڑوں شاگردآپ کے اس مرکز علمی سے سیراب ہوتے رہے۔
صحبت پور میں اپنے ایک عزیز کی شادی میں رقاصہ کو محور قصدیکھا تو عشق مجازی کی چنگاری بھڑک اٹھی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے سات دال تک مجذوبی کے عالم میں سرگردان و پریشان رہے، مولوی محمد میوہ صاحب آپ کو لعل شہباز قلندر کے مزار پر لے گئے، وہاں کے سجادہ نشین میاں محمد کامل کے حکم پر پانچ سال تک قلندر شہباز کے مزار کی جاروب کشی کرتے رہے اور عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف پلٹ گئے۔
ایک روز پیر کامل نے تخلیہ میں ارشاد فرمایا حضرت شہباز قلندر تم سے راضی ہیں اور تمہیں دوبارہ درس وتدریس کا حکم دیتے ہیں، ہمارا ہاتھ دامن مصطفیٰ ﷺ سے وابستہ ہے اور تمہارا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں ہے جو تمہار ا پاتھ پکڑے گا اس کا ہاتھ ہمارے دامن میں ہوگا۔ چناں چہ حسب ارشاد آپ نے واپس آکر مدرسہ کو آباد کیا، معرفت الٰہی میں غوطہ زن ہونے لگے اور بحر معرفت سے انہیں آبدار موتی عطا ہوتے چلے گئے، عجزو انکسار آپ کا امتیازی و صف تھا عالمانہ فخرو غرور سے کوسوں دور رہتے تھے، سماع کے دلدادہ تھے۔
مولوی احمد خان گولہ سجادہ نشین عاشق آباد نے آپ کی سیرت اور کلام پر گلزار کا پاری کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے، اس میں آپ کی سوانح کے علاوہ آپ ک منظوم کلام بھی شامل ہے۔
مولوی قادری بخش خان گولہ کا پچاسی سال کی عمر میں وصال ہوا، آپ کا مزار گوٹھ عاشق آباد نزد صحبت پور تعلقہ جھٹ پٹ(بلوچستان) میں ہے۔ مزار کی تعمیر نو حاجی عزیز اللہ کھوسہ نے مکمل کرائی ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )