حضرت قثم شیخ علیہ الرحمۃ
آپ مشائخ ترک میں سے ہیں۔خواجہ احمد بسوی کے خاندان میں سے ہیں۔حضرت خواجہ بہاؤالدین نے اس عادت کے موافق جو کہ حضرت امیر کلال آپ سے رکھتے تھے۔فرمایا کہ اب تک اجازت ہے کہاں کہیں تم کو ترک دتا جیک سے خوشبو ملے طلب کرو،طلب کرنے میں ۔۔۔۔
حضرت قثم شیخ علیہ الرحمۃ
آپ مشائخ ترک میں سے ہیں۔خواجہ احمد بسوی کے خاندان میں سے ہیں۔حضرت خواجہ بہاؤالدین نے اس عادت کے موافق جو کہ حضرت امیر کلال آپ سے رکھتے تھے۔فرمایا کہ اب تک اجازت ہے کہاں کہیں تم کو ترک دتا جیک سے خوشبو ملے طلب کرو،طلب کرنے میں قصور نہ کرو ۔تب وہ قثم شیخ کی خدمت میں گئے ۔ پہلی ملاقات میں وہ خربوزہ کھا رہے تھے ،خربوزہ کا چھلکا انکی طرف پھینکا،انہوں نے نہایت ہی حرارت طلب پوست کو ویسے ہی تبرک کے طور پر سب کھالیا۔اس مجلس میں تین بار ایسا ہی اتفاق ہوا۔اس مجلس میں شیخ کا خادم آ یا اور کہا تین اونٹ اور چار گھوڑے غائب ہوگئے ہیں۔شیخ نے حضرت خواجہ کی طرف اشارہ کیا اور ترکی میں کہنے لگے"آنی یخشی توتو بگیر"یعنی اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو۔مریدوں میں سے چار شخص اس ہیئت کے ساتھ انکے پیچھے پڑے کہ گویا خوف درمیان ہے۔حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا"جس شخص کو مشائخ ترک کی شناخت نہ ہو ۔البتہ انکے طریق سے بلکل نومید ہوجائے اور درپےنہ ہو "۔خواجہ دوزانوں ہو کر مراقبہ میں ہوگئےاور متوجہ ہوئے۔نماز شام کے بعد خادم آیا اور کہنے لگا کہ گھوڑے اور اونٹ خود بہ خود آگئے ہیں ۔خواجہ دو تین مہینہ کم و بیش قثم شیخ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں رہے۔آخر الامر انکو اجازت دی اور فرمایا کہ میرے نو فرند ہیں تم دسویں ہوئے۔اور تم سب پر مقدم ہوئے۔برسوں تک جب نخشب کے علاقہ سے بخار میں آتےتو خواجہ ان کی رعایت کرتےاور وہ فرماتے ،وہ طلب کی صفت کہ تم میں دیکھتا ہوں۔میں نے طالبوں اور صادقوں سے نہیں دیکھی۔اور یہ فثم شیخنہایت انقطاع اور کمال بے تعلقی سے جو ان کے مزاج میں تھی۔آخر زندگی میں بھی بخارا کے ایک جنگل میں آئے۔اور طرح طرحکے سودا کی باتیں کیں۔پھر باہر نکل آئے اور صحت کے آثار ان میں پیدا ہوئے۔ایک دکان پر بیٹھےاور جتنے آپ کے فرزند اور مرید تھےسب کو بلایا اور فرمایا کے ہمارے انتقال کا زمانہ آگیا ہے ۔کلمہ توحید کو مل کر کہیں۔چنانچہ خود بھی کہااور اوروں نے کہا۔اسی وقت جان خدا کے سپرد کی۔
(نفحاتُ الاُنس)