حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ مٹیاروی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ مٹیاروی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب:قاضی اہلسنت،مترجم قرآن،متعلوی،مٹیاروی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: قاضی عزیز اللہ بن قاضی محمد ذاکر بن قاضی حافظ محمد صوف "دیتھا" قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباء و اجداد ٹھٹھہ کے باسی تھے اور بعد میں مٹیاری آکر مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کا خاندان دین کے علماء پر مشتمل تھا اس لئے دینی مدارس میں درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے، اس لئے آپ کے خاندان کو "آخوند" بھی کہا جاتا تھا اور علم میں ناموری،فقہ میں مہارت کے سبب سندھ کے حکمرانوں کی طرف سے آپ کے خاندان کو قضاء کا عُہدہ بھی دیا ہوا تھا جس کے سبب "قاضی" کہلائے ۔ آج بھی مٹیاری میں آپ کا محلہ "قاضی آخونداں" کے نام سے مشہور ہے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:433)
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1193ھ،مطابق 1779ءکومحلہ قاضی آخونداں،مٹیاری سندھ پاکستان میں ہوئی۔
تحصیل علم:قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم قرآن مجید،فارسی اور مروجہ سندھی اپنے والد قاضی محمد ذاکر سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قاضی صاحب اس دور کے مشہور عالم دین مولانا مخدوم محمد عثمان مٹیاروی(متوفی 1219ھ) کے پاس تعلیم مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ مولانا محمد عثمان کے صاحبزادے مولانا عبدالکریم مٹیاروی 1216ھ) قاضی صاحب کے ہم عصر اور ہم درس تھے۔آپ کاشمار سندھ کےاکابر علماء میں ہوتا ہے۔
بیعت وخلافت: آپ نے حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف، معقولات و منقولات میں مہارت حاصل کرنے کے بعد نقشبندیہ سلسلہ کے عظیم بزرگ حضرت خواجہ محمد حسن صدیقی مدنی قدس سرہٗ (۱۲۹۸ھ) درگاہ لواری شریف (ضلع بدین سندھ) کے دست پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر مرشد کی خدمت میں زندگی بسر کی۔
سیرت وخصائص: عالم ربانی،امام العلماء،رئیس الصلحاء،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،راسخ فی العلوم القرآنیہ،مترجم قرآن فی اللغۃ السندیہ،عاشق خیر الوریٰ،محب غوث الاعظم حضرت علامہ مولانا قاضی عزیز اللہ مٹیاروی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید عالم دین،اور شیخ القرآن تھے۔قاضی صاحب علیہ الرحمہ کےعلمی کارناموں سے اسلاف کی خوشبو آتی تھی۔ساری زندگی تدریس وتالیف اوروعظ ونصیحت میں مصروف رہے۔اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئےایک ایک لمحہ اشاعت اسلام میں صرف کیا۔
درس و تدریس: درگاہ لواری شریف میں قیام کے دوران درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی اور تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ اس کے علاوہ مرشدکے حضور میں روزانہ بعد نماز ظہر تا نماز عصر تک روحانی محفل ہوا کرتی تھی جس میں قاضی صاحب شیخ اکبر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ کی صوفیانہ کتب کا درس دیا کرتے تھے۔
تصنیف و تالیف:آپ کی علمی ادبی اور روحانی خدمات کا سلسلہ طویل ہے ۔ مختصر جھلک درج ذیل ہے۔۱۔قاضی صاحب کا زندگی کا عظیم کارنامہ سندھی زبان میں قرآن مجید کا نثری ترجمہ ہے۔ یہ سندھی نثر کا ابتدائی دور تھا اور قرآن مجید کاپہلا سندھی ترجمہ تھا جس سے متاثر ہو کر بعد کے علماء نے سندھی نثر میں قرآن مجید کے ترجمے کئے اور دیگر لٹریچر تیار کیا۔۲۔تفسیر عزیزی۔ قاضی صاحب نے قرآن مجید کو عربی زبان میں"تفسیر عزیزی"لکھی جو کہ غالباً مکمل نہ ہوسکی اور ہو سکتا ہے کہ شہر علم و ادب سندھ جامشورو میں محفوظ ہو۔۳۔حضرت امام مالک رضی اللہ عنہٗ کی حدیث شریف کی مشہور کتاب "موطا امام مالک"پر حواشی لکھی۔۴۔غوث اعظم پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہٗ کے مشہور زمانہ "قصیدہ غوثیہ"کی عربی زبان میں شرح لکھی جو کہ آپ کا لازوال کارنامہ اور تصوف کا عظیم سرمایہ ہے۔۵ ۔تفسیر جلالین عربی18 پارہ تا والناس ترجمہ کیا۔۶۔ آپ کو اپنے مرشد کریم سے بے حد محبت تھی اور اسی محبت کا نتیجہ کہ آپ نے پوری زندگی مرشد کے قدموں میں گزار دی آپ نے "مشائخ نقشبندیہ کا منظوم شجرہ" بھی رقم فرمایا تھا۔(ایضاً:434)
عظیم کارنامہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اور تاریخی کام قرآن کریم کا"سندھی ترجمہ" ہے۔سندھی نثر کی تاریخ میں جو پہلا تحریری نثر ملا وہ ٹالپرکے دور میں قرآن مجید کا سندھی ترجمہ ہے جو کہ قاضی عزیاز اللہ مٹیاروی علیہ الرحمۃ کا عظیم کارنامہ ہے۔ سندھ کی سرزمین کا یہ پہلا خوش نصیب عالم دین ہے جس نے قدیم عربی رسم الخط میں قرآن مجید کا سندھی نثر میں ترجمہ مکمل کرنے کا شرف حاصل کیا۔اوروہ بھی اس زمانے میں جب کہ سندھی زبان کی کوئی گرائمر مدون نہیں ہوئی تھی۔حتی ٰ کہ سندھی زبان لکھی نہیں جاتی تھی ایسے وقت میں تحریری طور پر سب سے پہلا سندھی زبان میں ترجمہ کرنا یہ آپ ہی کاتاریخی کارنامہ ہے۔اس ترجمہ کی یہ بھی خصوصیت کہ مترجم کی طرف سےاس کےحاشیہ پر مختصر سی تفسیر بھی ہے،جس سےقرآن کی روح تک پہنچنے میں اور آسانی ہوجاتی ہے۔(سندھ کےصوفیائے نقشبند:295)
صدافسوس: بلند پایہ عالم دین و صوفی قاضی عزیز اللہ کے فتاویٰ کا خزانہ محفوظ نہ ہوسکا اور اپنوں کی لاپرواہی سے اکثر قیمتی تحریری سرمایہ ضائع ہوگیا۔فی زمانہ ہمارے اکابرین کے جومخطوطات بدمذہبوں کےہاتھ لگ رہےہیں،وہ ان کواپنےمولویوں کےنام سےشائع کررہےہیں۔ہمدردان اہل سنت کی خدمت میں التجا ہے کہ اس طرف توجہ دیں،اوربزرگوں سےحقیقی عقیدت یہ ہوگی کہ ان کےعلمی کارناموں کودنیامیں روشناس کرایا جائے۔دورانِ تذکرہ میں( فقیر تونسوی غفرلہ) نے"وکیپیڈیا"پر "سندھی تراجم" کی فہرست دیکھی تو اس میں حضرت قاضی عزیز اللہ علیہ الرحمہ کااسم گرامی شامل نہیں تھا۔بہت افسوس ہوا،کہ اتنے بڑے محسن اہل سنت کے عظیم کارناموں کو کیسے فراموش کردیاگیا۔وہ حضرات جو اس نیٹ ورک پرکام کرتےہیں انہیں "علمی دیانت"کا ثبوت دیتے ہوئے حق بات تحریر کرنی چاہئے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 7/شعبان المعظم 1273ھ،مطابق 30مارچ1857ء،بروزپیرصبح چاشت کےوقت ہوا۔خانقاہ لواری شریف کےصلحاء کےزیر سایہ آرام فرماہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر رحمتوں اور برکتوں کانزول فرمائے۔آمین۔
ماخذومروجع:انوار علمائے اہل سنت سندھ۔سندھ کے صوفیائے نقشبند۔