حضرت قاضی ہدایت اللہ مشتاق مٹیاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سندھی زبان کے نامور انشاء پرداز مولانا قاضی ہدایت اللہ بن محمود بن محمسد سعید صدیقی ۱۲۸۶ھ/ ۱۹۶۹ء کو مردم خیز شہر مٹیاری(ضلع حیدرآباد) میںتولد ہوئے۔ آپ کے جد اعل۹یٰ مخدوم فیروز ٹھٹوی مکہ مکرمہ میں ۸۷۵ھ کو تولد ہوئے اور ۹۰۱ھ کو جام نظام الدین سمہ کے عہد حکومت میں سندھ تشریف لے آئے اور یہیں زندگی رشد و ہدایت میں بسر کی آخر انتقال کیا اور مکلی میں مدفون ہوئے۔
قاضی مشتاق کا ۳۶ ویں پشت میں نسب کا سلسلہ امیر المومنین خلیفۃ المسلمین جانشین مصطفی ، یار غار حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے ملتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صدیقی ہیں کہ کہ میمن ، جیسا بعض نے گمان کیا ہے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم مٹیاری میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مشہور و معروف درسگاہ جامع مسجد مائی خیری حیدرآباد میں داخلہ لیا اور علامۃ الزمان حضرت مولانا محمد حسن قریشی ؒ سے تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔ اسی مدرسہ کے مدرس مولوی حاجی احمد بن فضل محمد ابڑو (لاڑکانہ والے) سے بھی استفادہ کیا۔
بیعت :
مٹیاری (ضلع حیدرآباد) کے نامور نقشبندی بزرگ حضرت آغا عبدالرحیم فاروقی مجددی بن حضرت ضیاء الحق مجددی قندھاری کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور مرشد کے حالات و مناقب میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ ص ۲۲۷)
درس و تدریس :
اپنے برادر اکبر قاضی عنایت اللہ ’’بیراگی ‘‘( متوفی ۱۳۲۲ھ) کے ساتھ مٹیاری کے محلہ باقی پوتا میں سخی شاہ وریل کی مسجد میں درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔
اولاد:
آپ نے ایک شادی کی اس سے ایک بیٹی تولد ہوئی جس کا عقد اپنے چچا زاد بھائی میاں عبدالباقی سے کیا۔ آپ کو نرینہ اولاد نہ تھی ۔ ( روزنامہ سندھو حیدر آباد ۲۱ستمبر ۱۹۹۲)
تصنیف و تالیف :
قاضی مشتاق انشاء پرداز ، مصنف ، شاعر ، کاتب ، امام مسجد ، مدرس تھے ۔ لیکن انہوںنے زیادہ شہرت سندھی ادیب و شاعر کی حیثیت سے حاصل کی اور یہ ہی ان کا دل پسند محبوب شعبہ تھا۔
٭ ھدایۃ الانشاء (سندھی) ۱۳۱۲ھ؍ ۱۸۹۴ء کو تحریر کیا۔ مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ جامشورو ۱۹۷۲ء
٭ مناقب حضرت پیر آغا صاحب
٭ خلاصۃ المناقب
٭ مقامات الصوفیۃ الطریقۃ القادریۃ ۔ عربی نسخہ مطبوعہ بغداد شریف کا سندھی ترجمہ کیا۔
٭ گنج حیدری ۔ حضرت سید نا حیدرکرار کے مناقب بزبان سندھی
٭ مناقب غوثیہ ۔ سرکار غوث اعظم جیلانی کے مناقب بزبان سندھی
٭ بیاض مشتاق
٭ خطبات مشتاق (سندھی ) جمعہ کے خطبات سندھی نظم میں
٭ مناقب السادات (سندھی )
٭ کواکب السعادات فی شرح مناقب السادات ( سندھی) ۷ جلدیں
٭ دیوان مشتاق۔ حمد ، نعت ، مناجات، مدح ، منقبت، قصیدہ ، سلام وغیرہ پر مشتمل ہے۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
حاجی سید محمد شاہ ، سید مولاڈنہ شاہ، سید صالح محمد شاہ، سید فضل علی شاہ ، سید ٹھاروشاہ ، سید محمد نعیم شاہ ، سید علی اصغر شاہ ، سید علی اکبر شاہ ، سید زین العابدین شاہ ، سید علی محمد شاہ ، میاں مولوی عزیز اللہ ، حافظ حکیم محمد صالح میمن مٹیاروی وغیرہ
سفر حرمین شریفین :
قاضی مشتاق جوانی میں حاجی سید میرا ول شاہ کیساتھ حجاز مقدس گئے وہاں مدینہ منورہ میں دس سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں غالبا دو حج کئے ۔ گذراوقات کیلئے کسی پریس میں کتابت کرتے تھے۔(ماخوذ : مضمون نگار ، محبوب علی سمون مٹیاروی ، روز نامہ ہلال پاکستان کراچی ، ۲۸، جون ۱۹۹۶ء )
حرف آخر :
بعض لوگ حب اہل بیت کا نہ صرف دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مبلغ و ترجمان بھی کہلاتے ہیں ۔ لیکن وہ بعض معاویہ کے بغیر حب اہل بیت مکمل نہیں سمجھتے ۔ حقیقت میں یہ ان کی بھول ہے۔ اہل سنت و جماعت کا نظر یہ جو کہ اول سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ایک آنکھ اہل بیت اور دوسری آنکھ صحابہ کرام کو سمجھنا چاہئے ۔ یہی سچے سنی کی پہچان ہے۔ بعض لوگ حب اہل بیت کا پرچار کرتے ہیں لیکن ان کے دل بعض صحابہ کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے حضرات اہل سنت و جماعت کہلوا کر اہل سنت کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔
قاضی مشتاق صاحب اسی انتشار کا سبب بنیں ۔ انہوں نے ’’مناقب السادات ‘‘ کتاب بظاہر حب اہل بیت میں لکھی لیکن حقیقت میں خال الموٗمنین ، کاتب وحی ، صحابی رسول حضرت سیدنا امیر معاویہ کی شان اقدس میں ناز یبا الفاظ استعمال کئے مختلف الزامات کی بوچھار کر دی۔ سندھ کے علماء اہل سنت نے انہیں سمجھایا لیکن انھوں نے ایک کی نہ سنی ۔ ان کے اساتذہ نے انہیں تنبیہ کی لیکن ضد وہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ، اسی ضد میں ’’کواکب السعادات فی شرح مناقب السادات‘‘۷ جلدوں میں چھپوا کر منظر عام پر لائے ۔ علماء اہل سنت نے بروقت اس کا نوٹس لیا اور رئیس العلماء ، استاد الفضلاء ، فقیہ الاعظم ، بدر طریقت حضرت علامہ مفتی مخدوم حسن اللہ صدیقی قدس سرہ نے اس کے جواب میں مدرسہ دارالفیض سونہ جتوئی کی لائبریری میں بیٹھ کر ایک عظیم الشان شاہکار مدلل و مفصل کتاب ’’تحفۃ اولی الالباب فی رد علیٰ طاعن الاصحاب ‘‘ تحریر فرمائی جو کہ قاضی مشتاق کے استاد مولانا احمد ابڑو کے نام سے ۱۳۲۸ھ؍ ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی۔
جس پر اس وقت کے اکابر علماء اہل سنت نے زبردست تائیدی و تصدیقی تقاریظ رقم فرمائیں جو کہ متن کے علاوہ چالیس (۴۰) صفحات پر مشتمل ہیں ان حضرات میں سے بعض کے اسماء گرامی یہاں درج کئے جاتے ہیں جن کے علمی مقا م و مرتبہ کے سبب اس کتاب کی عظمت و اہمیت کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ امام اہل سنت بحر العلوم شیخ طریقت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ
۲۔ مخدوم اہل سنت مفتی اعظم علامہ مولانا مفتی ابوالفیض غلام عمر جتوئی قدس سرہ
۳۔ شیخ الاسلام ترجمان اہل سنت علامہ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی مجددی
۴۔ سرمایہ اہل سنت شیخ الحدیث علامہ عبدالکریم درس مہتمم مدرسہ درسیہ صدر کراچی
۵۔ جامع معقول و منقول استاد العلماء علامہ نذر محمد اندھڑ بھونگ شریف صادق آباد
۶۔ شیخ طریقت حضرت مولانا مخدوم بصر الدین صدیقی سیوہن شریف ضلع دادو
۷۔ مولانا مفتی عبدالقیوم بختیار پوری مدرس مدرسہ ٹنڈو سائینداد ضلع حیدرآباد
۸۔ حضرت مولانا محمد یعقوب گوٹھ خجک متصل سبی صوبہ بلوچستان
۹۔ مولانا قاضی محمد عثمان قاضی سبی بلوچستان
۱۰۔ استاد العلماء مولانا مفتی ابوالجمال خدا بخش ابڑو ضلع لاڑکانہ
۱۱۔ مولانا مفتی ابو الفضل سید عباس شاہ راشدی درگاہ ٹھلاء شریف ضلع لاڑکانہ
۱۲۔ مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ معلم الفقہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی ( مدفون کڑیو گھنور)
۱۳۔ حضرت علامہ مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی فاروقی مٹیاروی
۱۴۔ مولانا محمد عاقل العاقلی لاڑکانہ
۱۵۔ مولانا عبدالرزاق بوبکائی ، بوبک اسٹیشن تحصیل سیوہن ضلع دادو وغیرہ وغیرہ
اس اجتماعی و متفق علیہ فیصلہ کے باوجود وہ خاموش نہ ہوئے بلکہ اپنے اکابر علماء و اساتذہ کے خلاف ایک رسالہ بنام ’’رد الھفوات‘‘لکھ کر ۱۳۲۹ھ؍ ۱۹۱۱ء میں شائع کیا۔
اس مسئلہ کو یہاں تفصیل سے لانے کا مقصد تاریخ کو درست رکھنا اور اصل مسئلہ کی حقیقت پر مبنی وضاحت ہے بعض حضرات جیسے جناب محبوب علی سمون نے اخبارات میں ا س مسئلہ کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ اس وضاحت سے یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ ’’بعض معاویہ ‘‘کا مسئلہ اب سر نہ اٹھائے اس لئے کہ سندھ کے اکابر علماء اہل سنت نے متفقہ فیصلہ دے دیا اور یہ وہ علماء ہیں جن کے آج بھی سندھ بھر میں تلامذہ کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے اور ان کا فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔ انشاء تعالیٰ میرے خیال میں آج کا کوئی بھی سمجھ دار عالم گذشتہ اکابر علماء کے متفقہ فیصلہ کو چیلنج نہیں کرے گا۔ اور قاضی مشتاق بھی ان کابر علماء کے سامنے طفل مکتب تھے لیکن انہوں نے خواہ مخواہ ضدیت اختیار کی۔لیکن ان کی ضدیت کی وجہ سے ایک عظیم علمی تحقیقی اجتماعی و متفقہ تحریر سامنے آئی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔ ( آمین )
اس مسئلہ کے متعلق سر کار غوث اعظم ، محبوب سبحانی ، شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی کا فیصلہ مسلمانوں کے نزدیک حرف آخر ہے۔ وہ یہاں نقل کیا جارہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی اصلاح ہو گی وہ بعض معاویہ کے مرض میں مبتلا نہ ہوں گے ۔ ذرا توجہ سے اس مسئلہ کو ملا حظہ فرمائیں ۔ فرماتے ہیں :
٭ ’’حضرت علی کی حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، ام المومنین حضرت عائشہ اور امیر معاویہ سے جنگ ہوئی تو امام احمد بن حنبل نے اس سلسلہ میں صراحت فرمائی ہے کہ اس معاملہ میں بلکہ ان تمام جھگڑوں اختلافات اور نزاعات کے بارے میں خاموش رہا جائے جو صحابہ کرام کے درمیان واقع ہوئے کیوں کہ قیامت ک دن اللہ تعالیٰ ان کے باہمی تنازعات کو دور کردے گا۔
حضرت امیر معاویہ کی خلافت ، حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن کا خلافت سے دستبر دار ہو کر امور خلافت حضرت امیر معاویہ کو سونپنے کے بعد ثابت و صحیح ہے۔ امام حسن کے اس اقدام سے رسول ﷺ کا وہ فرمان صحیح ثابت ہو گیا جس میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرادے گا۔ ‘‘
امام حسن کے صلح کرنے سے امیر معاویہ کی خلافت واجب ہو گئی ۔ مسلمانوں کا اختلاف ختم ہو گیا اور سب نے امیر معاویہ سے رجوع کر لیا اور کوئی تیسرا مدعی خلافت باقی نہیں رہا۔
امیر معاویہ کی خلافت کا ذکر نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد میں موجود ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا: ’’میرے بعد ۳۵،۳۶ سال اسلام کی چکی گھومے گی ۔ ‘‘چکی سے مراد دین کی قوت ہے۔ تیس سال سے اوپر کی جو پنج سالہ مدت ہے وہ امیر معاویہ کی مدت خلافت میں آتی ہے۔( یہ خلافت ۳ سال چند ماہ باقی رہی) تیس سال تو حضرت سید نا علی المرتضی پر پورے ہوگئے ۔
اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے کہ جن باتوں میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہے ان سے زبان کو روکا جائے۔ اس میں بحث و گفتگو نہ کی جائے ۔ صحابہ کرام کی بد گوئی سے زبان کو بند رکھا جائے ۔ ان کے فضائل و محاسن کو بیان کرنا اور ان کے باہمی اختلافی معاملے کو خدا کے سپرد کرنا واجب ہے ۔ ہر صحابی کی بزرگی اور فضیلت کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب میرے اصحاب کا ذکر ہو تو تم زبان روکو ( یعنی کسی کو برا نہ کہو) حدیث شریف کے دوسرے الفاظ اس طرح ہیں : ’’میرے صحابہ کے باہمی نزاعات سے اپنے کو بچائے رکھو‘‘ (یعنی کسی کو برا نہ کہو) اگر تم میں سے کوئی شخص بھی احد ( پہاڑ ) کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کر دے گا جب بھی صحابہ کے ایک مدبلکہ آدھے مدکا بھی ثواب نہیں پا سکے گا ‘‘۔
ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم اپنے عیوب پر نظر ڈالیں اور دلوں کو گناہوں کی چیزوں سے اور اپنی ظاہری حالتوں کو تباہی انگیز کاموں سے پاک اور صاف رکھیں ۔( غنیۃ الطالبین مترجم ص ۶۵ تا ۶۸ ۱مطبوعہ کراچی )
٭ اس سلسلہ میں امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سر ہندی نقشنبدی قدس سرہ النورانی کی ایک حکایت نقل کر رہا ہوں اس امید پر کہ ہدایت کا سامان مہیا کرے گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
ایک سید طالب علم کا بیان ہے کہ جو لوگ حضرت سیدنا علی المرتضی سے لڑے مجھے ان سے بالخصوص حضرت معاویہ سے نفرت اور بدظنی تھی ۔ ایک روز میں ’’مکتوبات احمد یہ ‘‘ (امام ربانی ) کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ان میں یہ لکھا دیکھا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، حضرات شیخین ( ابو بکر صدیق و عمر فاروقی ) کی شتم کرنے والے جو حد لگاتے تھے۔ وہی حضرت معاویہ پر شتم کرنے والے (بدزبانی کرنے والے) پر جاری کرتے تھے۔ میں نے یہ نقل دیکھ کر غصہ کی حالت میں کہا کہ یہ کیسی بے مزہ نقل ہے جو اس مرد ( امام ربانی ) نے یہاں ذکر کی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے مکتوبات امام ربانی کو زمین پر پھینک دیا اور سوگیا۔
خواب میں دیکھا کہ حضرت شیخ ( امام ربانی ) غصہ کی حالت میں آئے اور اپنے ہاتھوں سے میرے دونوں کان پکڑ کر فرمانے لگے : ’’اے طفل نادان! تو بھی ہماری تحریر پر اعتراض کرتا ہے اور اسے زمین پر پھینکتا ہے۔ اگر تو میرے قول کو معتبر نہیں سمجھتا تو آتجھے حضرت علی مرتضیٰ ہی کے پاس لے چلوں ۔ جن کی خاطر تو ان کے بھائیوں یعنی صحابہ کرام کو برا کہتا ہے ۔ چنانچہ حضرت شیخ ( امام ربانی ) مجھے کشاں کشاں ایک باغ میں لے گئے اور مجھے اس باغ کے کنارے پر ٹھہرا کر خود ایک محل کی طرف جو اس باغ میں نظر آرہا تھا چلے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں ایک نہایت نورانی صورت بزرگ تشریف فرماہیں حضرت شیخ نے بڑی تواضع سے ان کو سلام کہا ، وہ بھی بڑی خوشی سے آپ کو ملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے بعد حضرت شیخ نے اٹھ کر مجھے نزدیک بلایا اور فرمایا کہ یہ بزرگ جو بیٹھے ہوئے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔ سنو! کیا فرماتے ہیں ۔ میں نے سلام کیا۔ حضرت علی المرتضیٰ نے زبان گوہر افشاں سے فرمایا:
خبردار ! حضرت پیغمبر ﷺ کے اصحاب سے کوئی کدورت دل میں نہ رکھو اور ان کی ملامت زبان پر نہ لاوٗ ۔ ہم جانتے ہیں اور ہمارے بھائی ( صحابہ ) کہ کن نیک نیتوں سے ہمارے اور ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ اور حضرت شیخ کا نام لے کر فرمایا: ’’ان کی تحریر سے ہر گز سر نہ پھیرنا ‘‘۔(تذکرہ مشائخ نقشبندیہ مطبوعہ گجرات )
صحابی کا مقام و مرتبہ تمام دنیا جہاں کے اولیاء اللہ سے بلند وبالا و اعلیٰ ہے۔ اس لئے ضدو ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر ا ولیا ء اللہ کے فرامین و ارشادات کو حق و سچ سمجھ کر دل کے یقین کے ساتھ ماننا چاہئے ، اسی میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی ہے۔
مذکورہ بیانات کے علاوہ عارف کامل مولانا رومی قدس سرہ السامی نے ’’مثنوی شریف ‘‘ میں ، امام الالیاء حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش قدس سرہ النورانی نے’’کشف المحجوب ‘‘ میں اور امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد روضے دھنی قدس سرہ الاقدس نے ’’ملفوظات شریف ‘‘ میں حضرت امیر معاویہ کے فضائل کمالات و کرامات بیان کی ہیں ۔
مزید تفصیل کیلئے حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی ؒ کا مقالہ ’’امیر معاویہ ‘‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گجرات کا مطالعہ مفید ثابت ہو گا۔
قاضی مشتاق اور امام احمد رضا بریلوی :
یہ حالات مکمل کرنے کے کافی دن بعد زہن میں خیال آیا کہ وہ سندھی عالم جنہوں نے ’’الدولۃ المکیہ ‘‘ پر تقریظ لکھی ہے ان کا بھی تو نام ہدایت اللہ ہے کہیں ایک تو نہیں ابھی جیسے ان کی تقریظ دیکھی تو نام مع ولدیت و مذہب ایک نظر آیا ، نزہۃ الخوا طرنے مٹیاری لکھا ہے اس حوالے سے مولد ابھی ایک ہی ہے اور جو سن لکھا ہے وہ بھی کچھ فرق سے ہے اور ہو سکتا ہے یہی سن درست ہو ۔ اس حوالے سے کافی مماثلت ہے اور قادری ا س لئے لکھا ہے ہو سکتا ہے انہیں قادری سلسلہ میں بھی خلافت حاصل ہو باقی رہا بکری اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ بہر حال تمام تحقیق کو درج کیا جارہا ہے۔
مولانا ہدایت اللہ نے تقریظ میں اپنا نا م اس طرح رقم کیا ہے:
’’ھدایت اللہ بن محمود بن محمد سعید السندی البکری نسبا، والحنفی مذھبا والقادری مشربا‘‘۔
یعنی ان کے والد کا نام محمود جد کریم کا نام محمد سعید ، علاقہ و زبان سندھی ، خاندان بکری ، مذہب حنفی اور سلسلہ طریقت قادریہ رکھتے تھے۔ یہ مختلف تعارف انہوں نے اپنی تقریظ کے دستخط میں کرایا۔
قاضی ہدایت اللہ نے امام احمد رضا خان بریلوی کی شہرہ آفاقی تصنیف لطیف’’ الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ ‘‘ کا جب مطالعہ کیا تو اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، چنانچہ آپ نے اس عربی تصنیف پر آٹھ صفحات پر مشتمل عربی زبان میں تقریظ رقم فرمائی جس میں امام احمد رضا کی جہاں پذیرائی کی وہیں آپ نے امام احمد رضا کو ’’مجدد دین و ملت ‘‘بھی تسلیم کیا۔
آپ نے یہ تقریظ مدینہ منورہ میں ۱۴، ربیع الاول ۱۳۳۰ھ؍ ۱۹۱۲ء کو لکھی تھی ۔ اس پوری تقریظ کا عربی عکس اور اس کا اردو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب نے اپنی تالیف ’’اما م احمد رضا اور عالم اسلام ‘‘ میں دیا ہے ۔ یہاں اردو ترجمہ کا ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے:
’’بندہ ضعیف جب ۹، محرم الحرام ۱۳۳۰ھ کو چھٹی مرتبہ زیارت روضہ مبارکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے حاضر ہوا تو زیارت کے بعد مواجہہ شریف میں جامع الفضائل والخصائل مولانا محمد کریم اللہ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے مجدد ماۃ حاضرہ ، موید ملۃ طاہرہ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ شیخ احمد رضا خان حنفی قادری کی تایف میں ’’الدولۃ المکیہ‘‘ کا ذکر کیا ، میں عرصہ دراز سے اس رسالے کا مشتا ق تھا، یہ میری دیرینہ آرزو مولانا مذکور کی وساطت سے پوری ہوئی ، میں نے کتاب کا مطالعہ کیا اور محظوظ ہوا، اس قدر مسرور ہوا کہ جس کے بیان سے زبان و قلم دونوں عاجز ہیں ۔ میں نے تحقیق و تدقیق میں اس رسالے کو خوب سے خوب تر پایا اور مجھے یقین ہو گیا کہ شنید، دید کی مانند نہیں ۔
جو کچھ حضرت موٗلف علامہ کے مخالفین نے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ موٗلف علامہ حضور کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر سمجھتے ہیں م، یہ الزام سراسر جھوٹ ہے جو مخالفین کے حسد و بغاوت کی پیداوار ہے بلکہ ان کے جہل مرکب اور کندذہنی کی دلیل ہے۔
ترجمہ : علامہ مفتی عبدالرحمن ٹھٹوی ، امام احمد رضا اور عالم اسلام ص ۷۳ ۱،ادارہ مسعودیہ کراچی )
ہندوستانی کتاب سے مختصر حالات معلوم ہوئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
’’شیخ ہدایت اللہ بن محمود حنفی مٹیاروی سندھی ۱۲۸۱ھ کو حیدر آباد سندھ کے گوٹھ مٹیاروی شریف میں تولد ہوئے۔ آپ نے ابتدائی کتب ( برادر اکبر ) مولانا عنایت اللہ بن محمود اور مولانا محمد علی مٹیاروی سے پڑھیں ۔ فقہ و حدیث کی کتب مولانا ولی محمد ملا کا تیار سے پڑھیں پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے جہاں ’’مدرسہ صولتیہ ‘‘ میں مولانا عبدالسبحان سے ہدایہ شریف پڑھی اور سند حدیث شیخ عبدالحق الہ آبادی ثم مکی ( مصنف الدر المنظم فی حکم مولد النبی الاعظم ) اور کئی علماء سے حاصل کی ۔
آپ نے کئی حج کئے اور کئی رسائل بھی تصنیف کئے جس میں سے چار رسائل عربی زبان میں بھی لکھے ۔ آپ کی تاریخ وفات کا سراغ نہیں مل سکا۔(سندھی انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ ۱۹۹۰ء میمن عبدالغفور سندھی)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)