حضرت ابوالربیع الکنیف یا ابو الد مع کفیف الماقی علیہ الرحمۃ
آپ ابو العباس بن عریف کے مرید ہیں۔این دن اپنے مرید وں سے کہنے لگے کہ اگر بالفرض دو شخصوں کے پاس دس دس دینارہوں۔ان میں سے ایک شخص نے ایک دینار صدقہ کردیا اور نو دینار بچا کر رکھے اور دوسرے نے نو دینار صدقہ کیے اور ایک بچا کر رکھا۔ان میں سے کونسا زیادہ فضیلت لے گیا؟لوگوں نے کہا کہ جس نے نو دینار صدقہکیے۔شیخ نے کہا،بھلا وہ کیوں زیادہ رکھتا ہے؟انہوں نے کہا،اس لیے کہ اس نے زیادہ صدقہ کیا ہے۔شیخ نےکہا کہ جو کچھ تم نے کہا،وہ اچھا ہے،لیکن تم نے مسئلہ کی جان کو نہ سمجھا۔تم پر پوشیدہ رہا۔مریدوں نے کہا کہ وہ کیا بات ہے؟کہا،یہ کہ ہم نے جو دونوں کو مال میں برابر فرض کیا ہے۔اب جس شخص نے زیادہ زیادہ تو وہ مقام فقر میں آگیا۔سو وہ اس شخص سے بڑھ کر ہے،جس نے کہ تھوڑا دیا۔کیانکہ اس کی نسبت فقر سے زیادہ ہے۔اس لیے کہ وہ افضل ہے۔حدیث نبوی اس بارے میں وارد ہے کہ ستر ہزار دفعہ کلمہ لاالہ الا اللہ کہنا کہنے والے کی نجات کے لیے یا اس کی نجات کے لیے کہ جس کی نیت پر پڑھا گیا ہے،پورا اثر رکھتا ہے۔شیخ ابو ربیع مالقی فرماتے ہیں کہ اس ذکر کو میں نے ستر ہزار دفعہ کیا تھا،لیکن کسی کے نام پر معین نہ کیا تھا۔حتیٰ کہ ایک دن ایک شخص کے دسترخوان پر حاضر ہوا۔ایک جامعت موجود تھی اور ان میں ایک لڑکا صاحب کشف تھا۔جب اس لڑکے نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دفعتہً روپڑا۔لوگوں نے پاچھا کہ تم کیوں روتے ہو؟کہا،میں نے ابھی دوزخ کو دیکھا۔اس میں اپنی والدہ کو عذاب میں دیکھتا ہوں۔شیخ ابو ربیع کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا،الہٰی تو جانتا ہے کہ میں نے ستر ہزار دفعہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہا تھا۔میں نے اس کو اس بچے کی ماں ک دوزخ کی آزادی کے لیے معین کردیا۔جب میں نے یہ نیت دل میں پوری کی تو بچہ ہنس پڑا اور خوش ہوکر لگا اب میں اپنی ماں کو دیکھتا ہوں کہ دوزخ کے عذاب سے خلاصی پائی۔الحمداللہ۔پھر کھاناکھانے میں سب کے ساتھ مشغول ہوا۔شیخ ابو ربیع کہتے ہیں کہ مجھ کو نبیﷺ کی اس حدیث کی صحت اس بچہ کے کشف سے معلوم ہوئی اور اس بچہ کی کشف کی صحت اس حدیث سے ہوئی۔شیخ ابو ربیع یہ بھی کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں تنہا جا رہا تھا۔جب رات آئی تو ایک جانور آتا اور میرے پاس رات کاٹتا۔مجھ سے باتیں بھی کرتا۔ایک رات میں نے سنا کہ تمام رات وہ یاقدوس یاقدوس کہتا رہا۔جب صبح ہوئی تو پر مارے اور کہا سبحان الرزاق اور اڑکر چلا گیا۔
(نفحاتُ الاُنس)