حضرت شیخ رضی الدین علی لالا غزنوی علیہ الرحمۃ
وھو علی بن سعید بن عبدالجلیل اللا لا ء الغزنوی۔یعنی وہ علی بن سعید بن عبد الجلیل لالا غزنوی ہیں،اور یہ شیخ سعید کہ شیخ علی لالا کے فرزند ہیں۔حکیم سنائی کے چچا زاد بھائی ہیں۔حج کے قصد سے خراسان میں آئے تھے،اور شیخ ابو یعقوب یوسف ہمدانی رحمتہ اللہ کی خدمت میں پہنچے تھے۔ان دنوں میں کہ شیخ نجم الدین کبرے ہمدان کو حدیث کی طلب کے لیے جاتے تھے،تو وہاں سے ایک فرسنگ کے فاصلہ پر جو ایک گاؤں تھا۔جہاں علی لالا رہتے تھے۔وہاں پر شیخ اترے تھے۔اتفاقاً شیخ علی لالا نے خواب میں دیکھا کہ ایک سیڑھی آمان تک لگائی گئی ہے۔ایک شخص سیڑھی کے پاس کھڑا ہےلوگ ایک ایک کر کے اس کے پاس آتے ہیں،اور وہ ان کا ہاتھ پکڑکر اس کو آسمان کے دروازہ تک لے جاتا ہےاور وہاں پر ایک شخص ہے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ میں دیتا ہےاور وہ ان کو آسمان پر لے جاتا ہے ۔شیخ علی لاال بھی گئے۔ان کو سیڑھی کے اوپر لے گئےاور ان کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ان کو آسمان پر لے گئے۔جب اس واقع کو انہوں نے اپنے باپ کے سامنے بیان کیاتو ان کے باپ نے کہا،کہ تم اس شخص کو پہچانتے ہو۔کہا ہاں پہچانتا ہوں،اور اس کا نام جانتا ہوں۔کہا اس کی طلب کرنی چاہیے۔کیونکہ تیری کنجی اس کے پاس ہے۔پس شیخ علی لالا کی طلب میں مسافر ہوئے۔کتنے سال تک جہان کی گرد میں سفر کرتے رہے۔مگر ان کا نام و نشان نہ ملتا تھا۔یہاں کت شیخ نجم الدین خوارزم میں آئے،اور انہوں نے اس طریق کو پھیلایا۔اس وقت شیخ علی لالا ترکستان میں تھے۔شیخ احمد بسوی کی خانقاہ میں ایک دن ایک شیخ خوارزم سے آیا تھا۔شیخ علی لالا خلوت میں تھے۔سنتے تھے کہ شیخ احمد اس سے یہ پوچھتے تھے۔خوارزم میں کوئی درویش بھی ہے ۔لوگ کس کام میں مشغول ہیں۔اس شخص نے کہا کہ ان دنوں ایک جوان آیا ہے۔لوگوں کی ہدایت کی طرف مشغول ہے۔لوگ اس کے پاس جمع ہوتے جاتے ہیں پوچھا کہ ان کا نام کیا ہے۔کہا نجم الدین کبرے۔جب شیخ لالا نے یہ نام سنا۔خلوت سے باہر آئے اور سفر کے لیے کمر باندھ لی۔شیخ احمد بسوی نے فرمایا،کہ کیا ہے؟کہا میں سفر کرتا ہوں۔انہوں نے کہا صبر کرو۔سردی گزر جائے۔کہا کہ میں صبر نہیں کرسکتا۔تب شیخ نجم الدین کی خدمت میں آئےاور سلوک میں مشغول ہوئے۔اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد شیخ مجد الدین آئے اور مرید ہوئے۔شیخ نجم الدین کو پینتیس سال کے قریب ہوچکے تھاکہ سلوک میں مشغول تھے۔شیخ مجد الدین تین چار سال شیخ علی لالا سے بڑے تھے۔لیکن شیخ علی لالا بہت سے مشائخ کی صحبت میں رہ چکے تھے۔شروع جوانی میں اس میں مشغول ہوئے تھے۔اور یہ ابھی اس وقت سلوک میں مشغول نہ ہوئے تھے۔بلکہ تحصیل علم کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ ایک سو چوبیس مشائخ کامل مکمل سے خرقہ پہنے ہوئے تھے۔آپ کی وفات کے بعد ان میں سے ایک سو خرقے باقی رہے تھے۔آپ نے ہندوستان کا بھی سفر کیا تھااور ابو رضا رتن ضی اللہ عنہ کی صحبت بھی حاصل کی تھی،اور رسول ﷺ کی امانت ان سے لی تھی۔چنانچہ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ نے اس کی تصحیح کی ہے اور کہا ہے:
صحب صاحب رسول ﷺ ابا الرضا رتن بن رضی اللہ عنہ فاعطا ہ مشط من اماشط رسول ﷺ۔یعنی شیخ علی لالا صاحب رسولﷺ ابو رضا رتن بن نصر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے ہیں۔انہوں ان کو رسول ﷺ کا ایک شانہ عنایت کیا تھا،اور شیخ رکن الدین علاؤالدولہ نے اس شانہ کو خرقہ میں لپیٹ کر ایک کاغذ میں رکھا۔اور اس کاغذ پر اپنے مبارک خط سے یہ عبارت لکھی:ھذا المشط من امشاط رسولﷺ الی ھذا الضعیف من صاحب رسول اللہ ﷺ وھذا الخرقۃ وصلہ ابن ابی الرضا رتن الی ھذا الضعیف۔یعنی یہ ایک شانہ ہے۔رسول ﷺ کے شانوں میں سے اس عاجز کو پہنچا ہے،اور شیخ رکن نے یہ بھی اپنے مبارک خط سے لکھا ہے ۔ایسا کہتے ہیں کہ وہ امانت رسول ﷺ سے شیخ رضی اللہ عنہ علی لالا کے لیے تھی،اور یہ رباعی اس حضرت کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔رباعی:
ہم جان بہزار دل گرفتار تواست ہم دل بہزار جان خریدار تواست
اندر طلبت نہ خواب باید نہ قرار ہر کس کہ در آرزوئے دیدار تواست
آپ ۳ ربیع الاول ۶۴۸ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)