حضرت جناب محمد سعادت یارخان رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:سعادت یارخان ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: جناب سعادت یارخان بن جناب محمد سعید اللہ خان بن عبدالرحمن بن یوسف خان قندھاری بن دولت خان بن داؤد خان۔الیٰ آخرہ۔(علیہم الرحمہ)
سیرت وخصائص: آپ جناب شجاعت جنگ محمد سعید اللہ خان کے سعادت مند فرزندِ ارجمند تھے۔آپ محمد شاہ بادشاہ کے وزیرِ خزانہ تھے۔آپ کو بادشاہ ہند محمد شاہ نے کچھ مواضعات رامپور میں عطا کیے۔1857ء کی شکست بعد انگریزوں نے اس جاگیر کو ضبط کرلیا اور ریاست رامپور میں ضم کردیا۔علاقہ کٹھیر جو بعد کو "رو ہیلکھنڈ" مشہور ہوا سلطنت دہلی کی گرفت اس پر ڈھیلی پڑگئی تو سلطنت دہلی نے رو ہیلکھنڈ کے باغیوں کے خلاف تادیبی کا روائی کا روائی کیلیے فوج کشی کا ارادہ کیا اور اس مہم کو سر کرنے کیلیے قرعہ فال "سعادت یار خاں" کےنام نکلا۔سعادت یار خاں نے جبلی شجاعت اور جنگی مہارت کےخوب جوہر دکھائے انجام کار 2 جون 1745ء کو روہیلوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور نواب علی محمد خاں بادشاہ کے روبرو ہاتھ باندھ کر حاضر ہوا۔۱س طرح فتح بریلی کا سہر انہیں کے سررہا۔بادشاہ نے مسرور ہو کر آپ کو بریلی کا صوبیدار بنانے کافرمان جاری کردیا لیکن فرمان شاہی ایسے وقت ملا کہ آپ بستر مرگ پر تھے اس لیے بریلی نہ صوبہ بن پایا اور نہ آپ صوبیدار بن پائے۔جناب سعادت یار خاں نے اپنے دور وزارات میں دہلی میں دو نشانیاں چھوڑیں اول:بازار سعادت گنج۔دوم:سعادت نہر ،حوادث روز گار کے دست ستم سے ان دونوں میں سے کوئی نشانی نہ بچ سکی۔ مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے پوتے مولانا حسنین رضا خاں کا قول ہے: کہ"سعادت یار خاں کی مہر وزارات انکی جوانی کی عمر تک خاندان میں موجود تھی اور انہوں نے اس مہر کو دیکھا بھی تھا"۔
مولانا حسنین رضا خاں 1892ء میں پیدا ہوئے اگر ان کی جوانی کی عمر چالیس سال مان لی جائے تو اس طرح 1932ء تک سعادت یار خاں کی مہر وزارات آپ کے خاندان میں موجود تھی۔ اس میں دور میں عبد العزیز خاں عاصی "تاریخ رو ہیلکھنڈ"مرتب کررہے تھے انہوں نے حضور مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمہ سے اس تاریخ کی ترتیب میں معاونت کی استدعا کی تھی۔ مفتی اعظم ہند نے خاندان میں محفوظ شاہی دور کے سکے اور مہریں ان کو دی تھیں۔ ان میں سے کچھ سکوں کے عکس کو مولانا عاصی نے "تاریخ رو ہیلکھنڈ" میں حضور مفتی اعظم ہند کے حوالے سے شائع کیا۔ وہ سکے اور مہر عاصی بریلوی نے واپس نہیں کیے اور بر بنائے وضعداری حضور مفتی اعظم ہند نے واپس بھی نہیں مانگے۔ آخر عمر میں عبد العزیز خاں عاصی مفلوک الحال ہوگئے تھے اور بریلی کے محلہ کنگھر میں لب سڑک ایک جھونپڑی میں ان کا انتقال ہوا۔ غالباً یہ سکے اور مہریں عاصی بریلوی کی مفلوک الحال کی بھینٹ چڑھ کر کسی سونار کی بھٹی کی ستم کاری کا شکار بن گئے۔سعادت یار خاں کےتین فرزند شہزادہ محمد اعظم شہزادہ محمد معظم خاں اور شہزادہ محمد مکرم خاں تھے۔
ماخذومراجع: حیاتِ اعلیٰ حضرت۔حیات مولانا نقی علی خان۔