حضرت سرمد شہید دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سرمدشہید،فریددہرتھےاوروحیدعصرتھے۔
قومیت:
شیرخاں لودھی کاخیال ہے کہ "اصلش ازفرنگستان وارمنی بود"۱؎وہ ایران کےکسی خاندان سے تھے، بعض کاخیال ہے کہ آپ عیسائی تھےاوربعض کہتےہیں کہ آپ یہودی تھے۔
وطن:
آپ کاوطن "کاشان"تھا۔ایران میں ارمنیوں کی کافی تعداد تھی،جس میں سے کچھ عیسائی تھےاور کچھ یہودی تھے۔
مذہب میں تبدیلی:
آپ نےاسلام قبول کیا۔
نام:
آپ سرمدہی کےنام سے مشہورہیں،بعض کتابوں میں آپ کو "سعیدائےسرمد"کےنام سے پکارا جاتا ہے۔
تعلیم:
آپ کےرقعات اورآپ کی رباعیات سےپتہ چلتاہےکہ آپ علم وفضل میں درجہ کمال رکھتےتھے۔ فارسی زبان پرقدرت حاصل تھی۔عربی زبان سے بھی واقف تھے۔
پیشہ:
آپ تجارت کرتےتھے۔
زندگی میں کایاپلٹ:
اس زمانےمیں ایرانی مصنوعات کی ہندوستان میں بہت قدرتھی۔قیمت بھی اچھی ملتی تھی۔حضرت سرمدایرانی مصنوعات لےکرہندوستان روانہ ہوئے۔ان کا خیال تھا کہ ایرانی مصنوعات فروخت کر کے ہندوستان میں قیمتی جواہرات خریدیں گےاوران جواہرات کوایران میں فروخت کریں گے۔ اس زمانےمیں ایران سے سیاح سندھ ہوکرہندوستان آتےتھے۔آپ بھی اسی راستےسےآئے۔ جب ٹھٹھہ پہنچےایک ہندولڑکےپرعاشق ہوئے۔ایسےازخود رفتہ ہوئےکہ نہ اپناہوش تھااورنہ تجارتی سامان کی کوئی پرواہ۔
تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے کہ یہ واقعہ کہاں ہوا۔
علی قلی خاں داغستانی نےاس واقعہ کا سورت میں ہونالکھاہے۔۳؎
آزادبلگرامی نےلکھاہےکہ یہ واقعہ عظیم آبادپٹنہ میں ہوا۔
شیرخاں لودھی لکھتے ہیں۔۴؎
"دراثنائے تجارت شہرتتہ افتاد،برہندوپسرعاشق است"
ترجمہ(اثنائےتجارت میں شہرتتہ افتادمیں ہندولڑکےپرعاشق ہوئے)۔
عشق نےآپ کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیداکی۔تجارتی مال سےبےنیازہوگئے۔دنیاسےدل سردہوگیا۔راحت وآرام کاتخیل دل سے جاتارہا،اب آپ حیران و سرگرداں پھرتےتھے۔کچھ دنوں بعدکپڑےبھی بوجھ معلوم ہونےلگے،ان کو بھی اتارپھینکا،اب ننگےپھرتےتھے۔
دہلی میں آمد:
اس حالت میں آپ دہلی تشریف لائے۔شہزادہ داراشکوہ صوفی منش اورفقیردوست تھا۔جب اس کو آپ کےدہلی آنےکاحال معلوم ہوا،اس نےبہت ہی جلدآپ سےمیل جول بڑھایا۔جب آپ کو قریب سےدیکھا،آپ کی روحانی قوت سےبہت متاثرہوا۔آپ کی بہت عزت اوراحترام کرتاتھا۔
شہزادہ داراشکوہ آپ کامعتقدتھا،غرض شاہی دربارمیں آپ کاکافی اثرتھا۔
حکومت میں تبدیلی:
اورنگ زیب نےداراشکوہ کوشکست دی اورشاہجہان کےبجائےخود عنان حکومت ہاتھ میں لے لی۔ داراشکوہ صحراصحرابستی بستی پھرنےلگا۔داراشکوہ کےہمدردوں،ساتھیوں اورہم نشینوں کےلئے یہ زمانہ صبرآزماتھا۔حضرت سرمد بھی ان میں سےایک تھے۔کچھ لوگ تو داراشکوہ کےساتھ چلےگئے اورجوباقی رہ گئےتھےوہ اپنےآپ کوخطرےمیں پاتےتھے۔حضرت سرمدنےباہرجاناپسندنہیں کیا، کیونکہ وہ جانتےتھے کہ دہلی انکامدفن ہوگا۔
آپ پرالزامات:
آپ پرجوفردجرم لگائی گئی،وہ سیاسی آمیزش سےخالی نہ تھی۔
(۱)پہلاالزام آپ پریہ تھاکہ آپ نےاپنی حسب ذیل رباعی میں معراج جسمانی سے انکارکیاہے
ہرکس کہ سرحقیقتش پادرشد |
اوپہن ترازسپہرپہنادرشد |
ملاگویدکہ برفلک شداحمد |
سرمدگویدفلک بہ احمد درشت |
(۲)دوسراالزام آپ پریہ تھاکہ آپ داراشکوہ کےہمدرداوربہی خواہ تھے۔
(۳)تیسراالزام آپ پریہ تھاکہ آپ ننگےرہتےتھےجورسم شرع کےخلاف ہے۔
(۴)چوتھاالزام آپ پریہ تھاکہ آپ پوراکلمہ نہیں پڑھتےتھے،آپ لاالہٰ سےزیادہ نہیں کہتےتھے۔
آپ کابیان:
اورنگ زیب نےقاضی القضاۃ ملاقوی کو آپ کےپاس بھیجاکہ وہ معلوم کریں کہ ننگےکیوں رہتے ہیں۔ملاقوی نےجب ننگےرہنےکی وجہ دریافت کی توآپ نےحسب ذیل رباعی پڑھی:
خوش بالائےکردہ چنیں پست مرا |
چشمےبدوجام بردہ ازدست مرا |
اودربغل من است زمن درطلبش |
وزدےعجبےبرہنہ کردہ است مرا |
علماء کی مجلس:
آپ کاایک مجلس کےسامنےبلایاگیا۔اس مجلس میں علاوہ اورنگ زیب کےعلماءوفضلاءعصربھی موجود تھے۔اورنگ زیب نےآپ سےدریافت کیاکہ:
"لوگ کہتےہیں،تم نےداراشکوہ کومژدہ سلطنت دیاتھا،کیایہ سچ ہے؟"
آپ نےجواب دیا۔
ہاں سچ ہےاوروہ مژدہ درست نکلاکہ اسےابدی سلطنت کی تاج پوشی نصیب ہوئی"۔
علماءنےپوچھاکہ۔
"تم ننگےکیوں رہتےہو؟"
اس کاجواب وہی دیا۔جوپہلےملاقوی کودیاتھا۔علماء نےآپ سےکپڑےپہننےکوکہالیکن آپ نےکچھ پرواہ نہ کی۔۵؎اورنگ زیب نےعلماء کومخاطب کرکےکہا:
"محض برہنگی وجہ قتل نہیں ہوسکتی،اس سےکہوکہ کلمہ طیبہ پڑے"۔
آپ سےکلمہ طیبہ پڑھنےکوکہاگیا۔آپ نےعادات کےموافق لاالٰہ پڑھا۔جب علماءنےیہ جملہ نفی سناتوسخت برہم ہوئے،آپ نےجواب دیاکہ:
"ابھی تومیں نفی میں مستغرق ہوں،مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچاہوں،اگرالااللہ کہوں گاتوجھوٹ ہوگا"۔
علماءنےآپس میں طےکیاکہ آپ کایہ فعل کفرہے۔اس فعل سےتوبہ لازمی ہےآپ نےتوبہ نہ کی۔
فیصلہ:
علماءنےفتویٰ دیاکہ قتل جائزہے۔
شہادت:
دوسرےدن آپ قتل گاہ لےجائےگئے۔جب جلادچمکتی تلوارلےکرآپ کےپاس آیا،آپ اسے دیکھ کرمسکرائے۔نظراٹھائی اورملائی اوریہ تاریخ الفاظ فرمائے۔
"فدائےتوشوم،بیا،بیاکہ توبہرصورتےکہ می آئی من تراخوب می شناسم"۔
ترجمہ:
"میں تیرےقربان ہوں،آ،آکہ توجس صورت میں بھی آئے،میں تجھ کو خوب پہچانتاہوں"۔
پھرآپ نےیہ شعرپڑھا۔۶؎
شورےشدوازخوب عدم چشم کشودیم |
دیدم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم |
ترجمہ:شورہوااورہم نےخواب عدم سےآنکھ کھولی،دیکھاکہ شب فتنہ باقی ہے،سوگئے۔
یہ شعرپڑھ کرسرتسلیم خم کردیااورجام شہادت نوش فرمایا،آپ کی شہادت ۱۰۷۰ھ میں ہوئی۔
آپ کامزاردہلی جامع مسجدکےنیچےفیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔
سیرت پاک:
آپ ایک کامل مجذوب تھے،علم اورفضل میں ثانی نہیں رکھتےتھے،بہت لوگ آپ کےمنقاد اور معتقد تھے۔
علمی ذوق:
آپ کےرقعات،جورقعات سرمدکےنام سےمشہورہیں،آپ کی علمی یادگارہیں۔
شعروشاعری:
آپ نےفارسی میں بہت سی رباعیات لکھی ہیں جورباعیات سرمدکےنام سےمشہورہیں۔یہ رباعیات شائع ہوچکی ہیں۔۷؎
ذیل کی دورباعیات آپ کےافکاروخیالات کی آئینہ دارہیں۔
سرمدغم عشق بوالہوس رانہ دہند |
سوزدل پروانہ مگس رانہ دہند |
عمرےبایدکہیارآیدبہ کنار |
ایں دولت سرمدہمہ کس رانہ دہند |
ترجمہ:اےسرمدغم عشق بوالہوس کونہیں دیتےہیں،پروانےکےدل کا سوزشہدکی مکھی کونہیں دیتے،ایک عمرچاہیےکہ دوست کا وصل حاصل ہو،یہ دولت سرمدہرایک کو نہیں دیتے۔
ازمنصب عشق سرفرازکردند |
دزمنت خلق بےنیازم کردند |
چوں شمع دریں بزم گدازم کردند |
ازسوختگی محرم دازم کردند |
ترجمہ:مجھ کومنصب عشق سےسرفرازکیااورلوگوں کی منت سےبےنیازکیا،شمع کی ماننداس بزم میں مکھ کوپگھلایا،جلنےکی وجہ سےمجھ کورازداربنایا۔
کرامت:
شہادت کےبعدآپ کےسرسےتین بارلاالٰہ الااللہ کی آوازسنائی دی۔آپ کےسرنےصرف کلمہ نہیں پڑھا،بلکہ کچھ دیرحمدباری تعالیٰ میں بھی مصروف رہا۔
اورنگ زیب نےآپ کی شہادت کےبعدتقریباًاڑتالیس سال حکومت کی،لیکن کبھی چین وسکون میسرنہ ہوا۔دکن میں لڑائیوں میں کافی وقت گزارااوروہیں انتقال کیا۔
حواشی
۱؎مراۃ الخیال،ازشیرخان لودھی
۲؎ریاض الشعرا قلمی نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کےکتب خانہ میں موجودہے۔
۳؎ریاض الشعراءازعلی خان داغستانی
۴؎مراۃ الخیال
۵؎ریاض الشعراء
۶؎مراۃ الخیال
۷؎رباعیات سرمدکاانگریزی میں ترجمہ ڈاکٹرظہورالحسن شارب نےکیاہے۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈلیڑس کاسلسلہ مطبوعات نمبر۲ہے۔اسماءپبلیکیشن اجمیروآگرہ نےشائع کیاہے۔
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)