حضرت شاہ علی فراہی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے مرید ہیں۔آپ کے والد فرہ کے حاکم تھے،اور بوڑھے ہوگئے تھے،چاہا کہ حکومت سے استغفار کریں،اور آخر عمر میں گوشہ نشین ہو کر طاعت و عبادت میں مشغول ہوجائیں۔اپنے بیٹے شاہ علی کو بادشاہ وق ۔۔۔۔
حضرت شاہ علی فراہی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے مرید ہیں۔آپ کے والد فرہ کے حاکم تھے،اور بوڑھے ہوگئے تھے،چاہا کہ حکومت سے استغفار کریں،اور آخر عمر میں گوشہ نشین ہو کر طاعت و عبادت میں مشغول ہوجائیں۔اپنے بیٹے شاہ علی کو بادشاہ وقت کے لشکر کی طرف بھیج دیا۔تاکہ حکومت کا فرمان اپنے نام پر لے لے اور اس کے باپ کو معاف رکھیں۔ان کا گزر سمنان کے اطراف پر ہوا۔اس اطراف کے ڈاکوؤں سے ان کو لڑائی کا موقع ہوا۔چنانچہ ان کے سب متعلقین مارے گئے۔ان کو بھی بہت سے زخم لگے،مردوں میں پڑگئے۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کو عیب میں معلوم ہوا کہ فلاں موقع پر مردے پڑے ہیں۔ان میں ایک زندہ باقی ہے ،اور پوری قابلیت رکھتاہے،اس کو جا کر لانا چاہیے۔آپ گئے ،مگر وہاں کوئی زندہ نہ پایا۔دوبارہ پھر حکم ہوا،دوبارہ وہاں گئے۔تب بھی کسی کو زندہ نہ پایا۔تیسری دفعہ پھر حکم ہوا۔اس دفعہ بہت تلاش کیا،تو ان میں سے ایک میں فی الجملہ جان باقی تھی۔اس کو معلوم کرکے اٹھا کر ہمراہ لے گئے اور اس کی خدمت کی ،اس کو ہوش آگیا۔اس کے زخم بھی اچھے ہوگئے اور تندرست ہوگیا۔شیخ نے کہا اب تم تندرست ہوگئے ہو،خواہ تم بادشاہ کے پاس جاؤاور خواہ باپ کے پاس۔اس نے کہا کہ میری طبیعت نہیں چاہتی کہ شیخ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ جاؤں ۔یہی چاہتا ہوں کہ شیخ کے دامن کو پکڑ کر بیعت کر لوں ۔آخر اپنے باپ کے پاس گئے،اور ان سے اجازت لے کر شیخ کی کدمت میں آئے۔شیخ کی اچھی تربیت سے پہنچے ،جہاں تک پہنچے۔
(نفحاتُ الاُنس)