شاہ ارزانی سہروردی قادری رحمتہ اللہ علیہ
تحقیقات چشتی، کے صفحہ ۵۶ پر تحریر ہے کہ آپ لاہور تشریف لائے تھے اور آپ کی اکثر ملاقات حضرت شاہ حسین قادری باغبان پوری سے رہا کوتی تھی، یہ دونوں حضرات پیر بھائی تھے، ان کے پیرو مرشد کا اسم گرامی حضرت بہلو ال قادری دریائی رحمتہ اللہ علیہ تھا، شیخ بہلو ل دریائی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بقول مرزا احمد اختر دہلوی مصنف،تذکرہ اولیائے ہندو پاکستان،آپ نے خاندان عالیہ سہروردیہ سے فیوض و برکات حاصل کیئے۔
قیام لاہور میں حضرت لال حسین رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو فرمایا تھا کہ تم پٹنہ صوبہ بہار بھارت چلے جاؤ اور خلق خدا کو راہ راست پر لانے کےلیئے کو شاں رہو چنا نچہ آنجناب وہاں چلے گئے اور ساری عمر اس کا م میں مشغول رہے، شاہجہان سے آپ کی اس کی شہزادگی کے ایام میں ملاقات تھی اور وہ آپ سے خا صا متاثر تھا اور آپ سے خا لصتا،اعتقا د رکھتا تھا،پٹنہ کے قیام میں آپ دریا کے کنا رے جنگل میں اکثر پھرا کرتے تھے اور یاد الہیٰ میں مشغول رہتے تھے، رات کو شہر آتے تو مسجد وں میں وضو اور غسل کےلیئے پانی بھرا کرتے تھے
لاہور میں جن دنوں آپ اقامت گزین تھے تو اس وقت شاہ حسین لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کے حکم سے یہاں چلہ کاٹ کا پٹنہ کی طرف روانہ ہوئے تھے چنا نچہ آج تک مزار حضرت شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ کی چار دیواری میں آپ کا مکان چلہ موجود ہے۔
وفات:
آپ کی وفات ۱۰۴۰ھ مطابق ۱۶۳۰ء بمقام سہر پٹنہ محلہ سلطان گنج بعہد شہاب الدین شاہجہان ہوئی،بادشاہ نے اپنے ایام شاہی میں آپ کا مقبرہ بنوایا نیز ساتھ ہی خانقاہ بھی تعمیر کرائی اور معافی عطا فرمائی،آج تک یہ درگاہ مسافر نوازی اور فیض عام کےلیئے وقف ہے،تحقیقات چشتی ،میں آپ کا سال وصال ۱۰۱۵ھ مطابق ۱۶۰۶ء بعہد نور الدین جہا نگیر درج ہے۔آپ کا مقبرہ نہایت عظیم الشان بنا ہے جس پر کانشی اور چینی کا کام خوشنما اور دلکش ہوا ہے، نور احمد چشتی لکھتے ہیں کہ اب تک اس خانقاہ کی معا فیات کا یہ حال ہے کہ محاصل سرکا ر دے کر پچاس ساٹھ ہزار روپیہ خدام کو ملتا ہے اور خانقاہ پر دو تین ہزار فقیر حاضر رہتے ہیں، سجادہ نشتیان شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)