حضرت شیخ بہرام چشتی صابری
نام ونسب: اسمِ گرامی: شیخ بہرام چشتی۔بقول صاحب ِ’’انسائیکلوپیڈیااولیا کرام ‘‘ آپ حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتیکے فرزندِارجمند ہیں، تو پھر سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے:حضرت شیخ بہرام چشتی بن شیخ محمد جلال الدین کبیر الاولیاء بن خواجہ محمود بن کریم الدین بن جمیل الدین عیسیٰ بن شرف الدین بن محمود بن بدرالدین بن ابو بکر بن صدر الدین بن علی بن شمس الدین عثمان بن نجم الدین عبدا للہ الیٰ آخرہ ۔آپ کا سلسلہ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ذالنورین تک منتہی ہوتاہے۔ شیخ جلال الدین کےوالدماجدشیخ محمود امرائےپانی پت سے تھے۔(تذکرہ اولیائے برصغیر:221)
تاریخ ولادت: 729ھ کو پانی پت (ہند) میں پیدا ہوئے۔
تحصیل علم: بچپن سے ہی آثارِ ولایت آپ میں نمایاں تھے۔بعد علوم ظاہریہ کی تکمیل کے آپ نے اپنے عالی قدر والد گرامی کی صحبت فیض سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ان کی سرپرستی میں عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کی تکمیل کی۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت جلال الدین کبیرالاولیاء پانی پتی کے مرید و خلیفہ ہیں۔
سیرت وخصائص: پیشوائے عارفاں، مقتدائے سالکاں، حضرت شیخ بہرام چشتی صابری۔آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کےنامور شیخ گزرے ہیں۔آپ انتہائی خوبصورت نیک سیرت باکردار، پابند صوم و صلوٰۃ و تہجد ترک و تفرید میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔تمام عمر اپنے خواجگان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے۔ محفل سماع سماع کے دلدادہ اور صاحب حال و وجد تھے۔سوز وگریہ میں نہایت کے درجہ کو پہنچے ہوئے تھے۔آپ سیف اللسان اور صاحب کشف و کرامات تھے۔ آپ کے زمانہ کے تمام شیخ شیوخ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔آپ کی ذات سے سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا۔اس لئے سلسلہ عالیہ میں آپ کابڑا نام و احترام ہے۔
دریا کارخ بدل دیا: حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء چشتی صابری کی خدمت میں قصبہ بیدولی صوبہ پنجاب کے کچھ مریدین حاضر ہوکرعرض گزار ہوئے کہ ہمارا قصبہ دریائے جمنا کے کنارے پر واقع ہے۔ اتفاقاً دریائے جمنا کا پانی سیلابی موسم میں قصبہ کی طرف ہوگیا ہے۔ حضور اگریہ قصبہ پانی کی زد میں آیا تو ہمارے گھر تباہ و برباد ہوجائیں گے اور ہماری زمینیں کاشت کاری کے قابل نہ رہیں گی۔حضرت شیخ نے ان کی بات سن کر آپ کے نام ایک خط لکھا اور فرمایا کہ یہ لوگ فریادی ہوئے ہیں، لہٰذا آپ ان کے ساتھ چلے جائیں،اور دریا کو حکم دیں کہ یہاں سے سے دور چلا جائے اور جب تک دریا اپنا رخ نہیں بدلتا آپ وہیں قیام کریں۔آپ اپنے شیخ کا حکم ملتے ہی اس قصبہ میں پہنچے اور دریائے جمنا کے کنارے کھڑے ہوکر اپنا عصا زمین میں گاڑدیا اور فرمایا کہ یہاں سے ہٹ جا۔آپ کا حکم ملتے ہی دریا کا پانی آہستہ آہستہ اپنا رخ بدلتا گیا،اور دو میل دور پیچھے چلا گیا۔آپ اسی قصبہ میں قیام فرمارہے تاکہ لوگوں کو کسی قسم کا خطرہ نہ رہے۔ پھر آپ زندگی جگہ اور قصبہ میں قیام پذیر رہے حتیٰ کے آپ کا وصال ہوگیا۔
متعصب ہندو کوسزا: 1257ھ کو ظفر بیگ حاکم دہلی نے ایک ہندو کو اس علاقے میں افسرِ ارضیات مقرر کردیا۔ وہ ہندو مسلمانوں کے حق میں سخت متعصب تھا۔ عام زمینوں کو سرکاری کھاتے میں لاتا جاتا۔جب وہ اس قصبہ میں پہنچا تو خانقاہ کی زمین کے لیے بھی سرکاری کارندوں کو حکم دیا کہ اس رقبہ کو ناپ کر سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔ سرکاری کارندے دربار شریف کے تقدس کی بناء پر ہچکچاہٹ سے کام لے رہے تھے۔بالآخر وہ خود گھوڑے پر سوار ہوا۔اور خود پاس کھڑے ہو کر کارندوں کو حکم دیا کہ اس کو ناپو۔ جب اس نے یہ حکم دیا اور پیمائش شروع کرانے گلا تو آپ کے دربار کا مجاور(خادم) دربار شریف میں حاضر ہو کر فریادی ہوا اور عرض کی حضور اس ظالم نے آپ کی دی ہوئی زمینیں قبضہ میں لے لی ہیں۔اب خانقاہ کی خاص زمین بھی لینے کے درپے ہے۔ حضور ہماری امداد اور دستگیری فرمائیے اور اس ظالم کو ظلم سے روکیں۔وہ مجاور دربار کے اندر قبر مبارک سے لپٹ کر فریادکررہا تھا کہ باہر شور و غل ہوا۔اس نے باہر نکل کر دیکھا کہ ہند و گھوڑے سےا چھلا اور ہوا میں معلق ہو کے رہ گیا۔لوگ اس کی بے بسی پر ہنس بھی رہے تھے۔ اور شور بھی مچارہے تھے کہ یہ مجاور دوبارہ دربار شریف کے اندر داخل ہوا۔ اور عرض کرنے لگا حضور اس بے ایمان کو زمین پر گرائیں ۔یہ کہہ کر وہ باہر آیا تو کیا دیکھا کہ وہ خبیث زمین پر گرا اور اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ اور باز و پشت سے بندھے ہوئے ہیں اور وہ زمین پر پڑا ہو تڑپ رہا تھا۔ گردن بھی ٹوٹ گئی۔ اس کے رشتہ دار پہنچے اس مجاور کے پاس آئے اور معافی مانگنے لگے۔ مجاور کو ان کی حالت پر رحم آگیا اور دوبارہ اندر مزر شریف پر حاضری دے کر عرض کرنےلگا کہ حضور اس بد بخت کو معاف فرمادیں یہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے۔چنانچہ اسےافاقہ شروع ہوگیا۔ اور چند ہی دنوں میں شفایاب ہوگیا۔ مگر پھر پوری دوبارہ کبھی دربار شریف یا اس کے مجاوروں کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔
تاریخ وصال: آپ کا وصال 27 شعبان المعظم 854 ھ بمطابق 1450 ء کو 125 سال کی عمر شریف میں ہوا۔مزار پُر انوار قصبہ بیدولی انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔
ماخذ ومراجع: اقتباس الانوار۔تذکرہ اولیائے برصغیر۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج3۔