حضرت شاہ محکم الدین صاحب السیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ سلسلہ اویسیہ کے ممتاز مشائخ اور خلفاء میں شمار ہوتے ہیں اپنے عم زاد حضرت شیخ عبدالحق اویسی قدس سرہ کے مرید اور خلیفہ تھے اپنے مرشد سے بڑا روحانی فیض حاصل کیا، صاحب وجد و سماع ہوئے، اور اکثر حالت سکر و جذب میں رہتے تھے، آپ کا استغراق اور مستی حد کمال کو پہنچی ہوئی تھی، سارے عالم اسلام کی سیاحت کی، اس سیر و سیاحت کی وجہ سے آپ کا خطاب صاحب السیر پڑ گیا تھا۔
آپ جس دن بیعت ہوئے تو حضرت خواجہ عبدالخالق اویسی نے آپ کو حکم دیا کہ حضرت چاولہ کے روضہ پر جاکر اعتکاف بیٹھ جاؤ حضرت چاولہ قدس سرہ اولیائے مستور میں سے تھے آ پ کا مزار زیارت گاہ خلق تھا، شیخ محکم الدین وہاں گئے اور معتکف ہوئے، چالیس دن تک بلا کھائے پیے اعتکاف میں رہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور کمالات کے مقام حاصل کرلیے خلوت کدہ سے نکلے روزہ افطار کرنا چاہا، دل میں خیال ہے کہ سامنے بیری کے درخت کے ساتھ سرخ بیر لگے ہیں، ان سے افطار کیا جائے ناگاہ ایک سفیدپوش شخص غیب سے نمودار ہوا اور چند دانے بیر پیش کیے اور فرمایالے لیں ان میووں سے روزہ افطار فرمائیں اور اب یہاں سے چلے جاؤ، کیونکہ تمہارا مقصد پورا ہوگیا ہے حضرت نے روزہ افطار کیا اور وہاں سے روانہ ہوکر حضرت پیر و مرشد خواجہ عبدالخالق قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے دیکھتے ہی فرمایا کہ جب ہم روزہ افطار کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کو حکم دیا کہ سدرہ المنتہیٰ سے بیر لے کو افطاری کے لیے جائیں، حضرت خضر نے تکمیل حکم خداوندی کے طور پر تمہارے سامنے بیر لاکر رکھے۔
جب حضرت صاحب ایستر کوہستان کے علاقہ میں بمقام سنہگل کدہ پہنچے تو وہاں ایک ہندو پنڈت رہا کرتا تھا یہ پنڈت جوگی کی حیثیت سے مجاہدہ کر رہا تھا، اس نے دیکھا کہ آنے والے بزرگ بھی صاحب کرامت ہیں، آگے بڑھا اور کہنے لگا حضرت یہاں رہنے کے لیے تو کوئی کرامت دکھانا پڑے گی، آپ نے فرمایا: ہم اللہ کے دروازے کے فقیر ہیں، کرامت نمائی ہمارا کام نہیں ہے اگر تم کچھ دکھانا چاہتے ہو تو دکھاؤ، جو گی اپنے استدراج کے زور سے دیکھتے دیکھتے اور چند لمحوں بعد پھر ظاہر ہوگیا اس نے ایسا کئی بار کیا، حضرت اسیر نے جوگی سے پوچھا یہ کمال استدراج تمہیں کیسے حاصل ہوا کہنے لگا آج تک میرے نفس یادل نے جو بات کہی میں نے اس کے خلاف ہی کام کیا میں ساری عمر خواہش کے خلاف کام کرتا رہا، اس طرح مجھے یہ کمال حاصل ہوا، آپ نے فرمایا: کیا تم اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھتے ہو، اور کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ مشرف باسلام ہوجاؤ، کہنے لگا نہیں میرا دل نہیں چاہتا، آپ نے فرمایا: پھر تم دل کی خواہش کے خلاف کام کرو اور مسلمان ہوجاؤ، جوگی اپنے دل کی خواہش کے خلاف اقدام کرنے سے رک گیا، آپ نے فرمایا: اب تم اپنی خواہش کے خلاف نہیں جاتے تو غائب ہوکر دکھاؤ اس نے سارا زور لگایا مگر قوت استدراج سے محروم ہوگیا، اور اپنے آپ کو غائب نہ کرسکا، لاجواب اور عاجز ہوکر سر قدموں میں رکھ دیا، اور اسلام قبول کرلیا آپ نے ایک نگاہ سے اسے فیض باطنی سے نوازا اور کمالات تک پہنچایا پھر اس کا نام عبدالسلام رکھا اور اس علاقے کے لوگوں کی ہدایت پر مامور فرمادیا، اس وقت تک حضرت عبدالسلام کا مزار زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
ایک بار دوران سفر جب کہ آپ کا خادم محمد وارث آپ کے ساتھ تھا ایک سائل حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت میری چند نوجوان بیٹیاں ہیں، غربت کی وجہ سے ان کی شادی نہیں کرسکتا اگر آپ کرم فرمائیں تو مجھے پانچ سو روپیہ عطا فرمائیں تاکہ ان کی شادی کرسکوں، آپ اس وقت بڑے خوش وقت تھے اپنا عصاء محمد وارث کے ہاتھ سے لیا، اور زمین پر نوک گاڑ کر کہا یہاں سے کھود کر پانچ سو روپے کی تھیلی نکال لو تھیلی نکالی، اور سائل کو دے دی، سائل لے کر چلا گیا، اور بے دریغ خرچ کرتا رہا، اس کو غلط فہمی ہوئی کہ اس جگہ بہت سا مال دبا ہوا ہے، اب میں جس جگہ رہوں گا جاکر اکھاڑ لاؤں گا، حضرت تو وہاں سے روانہ ہوگئے وہ ایک دن اسی مقام پر پہنچا اور زمین کھودنے لگا مگر بڑامایوس ہوا وہاں سے کچھ نہ نکلا پہلا روپیہ بھی خرچ کرچکا تھا، رونا دھونا شروع کیا، حضرت کے پیچھے بھاگا حضرت رک گئے اور پوچھا اب تمہیں کیا ہوا کہنے لگا حضور میں نے طمع کیا اور طمع کے تینوں الفاظ خالی ہوتے ہیں، میں بھی آپ کے انعام سے محروم ہوگیا ہوں سارا واقعہ سنایا حضرت شیخ کو اس پر ترس آگیا، پھر آپ نے اپنا عصاء زمین پر مارا، اور وہی تھیلی نکالکر اس کے حوالے کردی۔
حضرت صاحب ایسر پر حالتِ سُکر یا کیفیت استغراق طاری ہوئی، تو آپ ایک ایک دن ایک ایک ماہ بلکہ بعض اوقات چار چار ماہ تک بے ہوش رہتے، اس کیفیت میں آپ کو ظاہری دنیا کی قطعاً کوئی خبر نہ ہوتی، آپ راٹھی شہر کے قریب ایک تالاب کے کنارے بیٹھ جاتے اس تالب میں بڑا گہرا پانی تھا، بارش کے موسم میں یہ تالاب لبالب ہوتا، آپ سماع کی مجلس جماتے، حالت وجد میں کود کر تالاب میں کود جاتے، ایک بار مجلس سماع برپا تھی، آپ پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہوئی، ہزاروں حاضرین کے ہوتے ہوئے آپ عالم استغراق میں تالاب میں کود گئے اور دیکھتے دیکھتے پانی کی تہہ میں چلے گئے لوگوں نے جستجو کی غوطہ خوروں نے سارے تالاب کو چھان مارا مگر ناکام رہے، آخر ہار کر صبر کرلیا اور لوگوں نے یہ مشہور کردیا، کہ آپ بھی حضرت شیخ قطب الدین بن خواجہ عبدالخالق قدس سرہ کی طرح ظاہر ین آنکھوں سے غائب ہوکر رجال الغیب یا ابدال جہاں کے ساتھ جا ملے ہیں، چار پانچ ماہ گزرے، تالاب کا پانی خشک ہوا، گاؤں کے زمینداروں نے تالاب کی مٹی کو اٹھا اٹھا کر اپنے کام میں لانا شروع کردیا کہ ایک کدالی کو کوئی چیز لگی، غور سے دیکھا کہ کوئی انسانی بدن زیر زمین دفن ہے، نہایت احتیاط سے اس جسم کو مٹی سے اٹھایا گیا، تو حضور صاحب السیر اویسی قدس سرہ کا مجسم جسم تھا، آپ اسی طرح حالت استغراق اور سکر میں ہیں، قوالوں کو بلایا گیا، نعت رسول شروع ہوئی تو آپ نے آنکھیں کھولیں، ہوش میں آئے تو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صحیح سالم ہیں۔
حضرت خواجہ سلیمان قدس سرہ فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ حضرت صاحب السیر شیخ محکم الدین قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت تونسہ کی مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کے بعد مراقبہ میں بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کہ ایک کابلی پٹھان آپ کے پاس آیا، سلام عرض کرنے کے بعد پاس ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا حضرت میں کسی مرد حق کی تلاش میں ملک بہ ملک پھر رہا ہوں، اب قطع مسافت کرتے کرتے پنجاب پہنچا ہوں، ابھی تک میر دامنِ مراد خالی ہے، آپ نے سن کر فرمایا مردان حق سے نہ دنیا خالی ہے اور نہ کوئی ملک یا شہر ان کے غیر آباد رہ سکتا ہے وہ ہر ملک اور ہر شہر میں موجود ہوتے ہیں، صرف نظر حق بین چاہیے، نظر باطن ہو تومحروم نہیں رہتا، اس افغان نے کہا: حضور اب میں یہاں سے محروم نہیں جاؤں گا، آپ نے فرمایا: تمہارا حصۃ تو ایک عرصہ سے ہمارے پاس امانت ہے کیا اپنا حصہ اکٹھا لینے کے خواہاں ہو یا آہستہ آہستہ پٹھان کو بڑا اشتیاق تھا کہنے لگا نہیں حضور میں اسی وقت امانت چاہتا ہوں آپ نے فرمایا تم اس بار گران کی برداشت نہیں رکھتے اگر لے بھی لو، تو برداشت نہیں کرسکو گے کہنے لگا میری جان نا تو ان مشعوق حقیقی کے قربان ہے، آپ نے فرمایا اچھا، آگے آہو اور کلمہ لا الہ الا اللہ زبان سے پڑھو، جب اس نے پڑھا شیخ نے بھی اس کے ساتھ پڑھا مگر لا الہ الا اللہ کی ضرب جو لگائی تو سائل تڑپ کر زمین پر گر پڑا اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا، آخر کار افتاں و خیزاں اور تڑپتے تڑپتے حوض میں جاگرا وہ پانی میں گرا ہی تھا کہ حوض کا پانی جوش مارنے لگا یوں معلوم ہوتا تھا کہ دیگ میں پانی ابل رہا ہے حضرت شیخ کی خانقاہ کے درویش بڑی مشکل سے اسے پانی سے نکالنے میں کامیاب ہوئے، چند لمحے گزرے تو وہ واصل بحق ہو گیا، حضور نے اس شہید عشق الٰہی کی تجہیز و تکفین کی اور سپرد خاک کیا۔
حضرت خواجہ سلیمان یہ واقعہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ مجذوب افغان حوض کے پانی میں گرا، تو ایک چڑیا نے حوض کے کنارے سے چونچ بھر کر پانی پی لیا، اسی وقت مست ہوگئی اسی مستی کے عالم میں اڑی اور مسجد کے مینار پر جا بیٹھی، عصر کی نماز کے وقت امام نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو چڑیا حالت وجد میں آگئی نیچے آئی اور عالم مستی میں زمین پر تڑپنے لگی، پھر پرواز کیا اور مینار پر جا بیٹھی، اسی طرح امام اللہ اکبر کہتا تو چڑیا زمین پر آگرتی تڑپتی اور اڑ کر مینار پر جا بیٹھتی۔
حضرت محکم الدین صاحب السیر قدس سرہ کے نو خلفا تھے یہ خلفا بڑے بلند مراتب ہوئے انہیں حضور کی فیض تربیت سے خاصا حصہ ملا تھا۔
۱۔ حافظ قمر الدین ساکن کوٹھ قائم رئیس (آپ نواب سرفراز خان حاکم ملتان کے پیرو مرشد تھے)۔
۲۔ شیخ محمد سلیم قریشی ثانی قدس سرہ
۳۔ شاہ ابوالفتح ساکن مو (قدس سرہ)
۴۔ خواجہ سلیمان قدس سرہ (ان کا مزار آپ کے پہلو میں ہے)
۵۔ شیخ محمد انور ملتانی (آپ بھی حضرت کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں)
۶۔ شیخ اللہ داد قدس سرہ آپ ڈیرہ غازی خاں کے تھے، مگر آپ کا مزار بھی ملتان میں ہے۔
۷۔ دیوان محمد غوث جلال پور پیروالہ (آپ پیر قتال کی اولاد میں سے تھے)۔
۸۔ شیخ دوست محمد قدس سرہ (آپ کا مزا ر موضع جہانگڑ میں زیارت گاہ خلق ہے)
۹۔ حافظ عبدالکریم قاری قدس سرہ (آپ قرآن کی قرأت اور خوش آوازی میں سارے پنجاب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے بعض تذکرہ نگار شیخ جوگی عبدالسلام جن کا واقعہ سابقہ صفحات پر گزرا ہے کوئی بھی آپ خلیفہ و ہم شمار کرتے ہیں۔
آپ کا وصال پنجم جمادی الثانی ۱۱۹۷ھ میں ہوا، مزار پر انوار کوٹ بخشا متصل بہاول پور میں ہے، حضرت شیخ غلام اویس اویسی قدس سرہ نے آپ کی وفات پر یہ قطع تاریخ لکھا تھا۔
پیر محکم الدین برفت افسوس شد |
روح پاکش طاہر فردوس شد |
(خذینۃ الاصفیاء)