حضرت سید شاہ سکندر گیلانی کیتھلی قادری رحمۃ اللہ علیہ
تعارف:قطب رابانی، رؤس الاولیاء، امام الاتقیا، برھان الاصفیاء ، متصرف بہ تصرفات، صاحب کشف و کرامات، فخر السادات ، نسبت رسولی، حضرت شاہ سکندر کیتھلی قادری رحمۃ اللہ علیہ محبوب الٰہی ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت 16 شعبان المعظم ۹۶۳ ہجری بمطابق 26 جو ن 1556 بروز جمعرات صبح صادق کے وقت عارف باللہ ولی علی الاطلاق بالاتفاق حضرت سید عماد الدین گیالنی قادری کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کیتھل شریف ضلع کرنال میں ہوئی۔
آپ غوث الوقت حضرت شاہ کمال شاہ کیتھل قادری گیلانی علیہ الرحمۃ کے پوتے اور حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں سے حضرت پیران پیر دستگیر سیدنا عبد القادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر ملتا ہے۔
آپ کی ولادہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ آپ کی ولادت باسعادت سے قبل آڈھی رات کو میں نے دیکھا کہ زمین سے لے کر آسمان تک روشنی ہی روشنی ہے چونکہ میں نے اس سے قبل ایسا نورانی منظر کبھی دیکھا نہ تھا اس لیے گھبراگئی۔ اور بارگاہ الٰہی میں التجا کی۔ اے مولا یہ کیا راز ہے۔ اس راز سے پردہ تو اٹھا، غیب سے ندا آئی۔ یہ روشنی تیرے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کے دل کا نور ہے، جس کی ولادت ابھی کچھ ہی دیر بعد ہونے والی ہے۔
آپ کی والدہ فرماتی ہیں کہ آپ کی ولادت سے قبل مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم زیارت ہوئی۔ اور انہوں نے مجھے آپ کی پیدائش کا مژدہ سنایا اور مبارکبار بھی دی۔
آپ کی ولادت باسعادت کے بعد آپ کے دادا جان حضرت شاہ کمال شاہ کیتھل قادری علیہ الرحمۃ کودایہ نے مبارک باد دی اورآپ کو ان کی جھولی میں ڈالا تو انہوں نے آپ کا روئے تاباں دیکھتے ہی فرمایا۔اس کا نام سکندر ہوگا۔اور یہ بچہ میرا جانشین ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی انگشت شہادت آپ کے منہ میں دے دی جسے آپ نے چوسنا شروع کردیا۔ جس سے آپ کادل انوار الٰہی سے معطر و معمور ہوگیا۔
تربیت و تعلیم:آپ کی تربیت آپ کے والد گرامی اور دادا بزرگوار کے ہاتھوں ہوئی۔جب آپ کی عمر عزیز چار برس کی ہوئی تو آپ کے دادا بزرگوار حسول علم کےلیے آپ کو ایک متجر اور جید عالم دین کے سپرد کردیا۔ جہاں آپ نے چند روز تحصیل علم فرمائی۔
اس دوران ایک رات کا واقعہ ہے۔کہ غٰب سے ندا آئی شاہ سکندر تو قرآن کیوں نہیں سیکھتا۔ آپ نے جواب دیا، یا اللہ تو قادر مطلق ہے مجھے تعلیم فرما ، یہ عرض کرنا تھا کہ غیب سے ایک نورانی ہاتھ نمودار ہوا اور اس ہاتھ نے آپ کے سینۂ مبارک سے مس کیا اور قرآنی علوم کا خزانہ آپ کے سینے میں آگیا اور اسی وقت علوم اسمیہ وغیرہ آپ پر منکشف ہوگئے۔
اس کے بعد سے معاملہ یہ ہوا کہ وقت کے بڑے بڑے علماء اور مشائخ کی ایک جماعت آپ کے گرد جمع رہتی تھی ۔ اور آپ کی دعاؤں سے ان کی دینی و دنیاوی آرزو ؤئیں پوری ہوتی تھیں اور بڑے بڑے دقیق مسائل آن واحد میں حل فرمادیتے تھے۔
بیعت و خلافت:آپ اپنے عظیم دادا بزرگوار شاہ کیتھل حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری گیلانی علیہ الرحمۃ کے دست حق پرست پر بارہ برس کی عمر میں بیعت سے مشرف ہوئے اور بیعت کے فوراًبعد ہی خرقہ خلافت پاکر صاحب ارشاد مجاز ہوئے۔ آپ کے دادا زبرگوار اور شیخ طریقت نے عطائے خرقہ خلافت کے ساتھ اپنا عصا مبارک بھی آپ کو عطا فرما دیا تھا۔
اور اس واقعہ کے کچھ عرصۃ بعد ہی آپ کے پیر و مرشد اور دادا بزرگوار کا وصال باکمال ہوگیا تھا۔ جس کے بعد کیتھل کی روحانی خانقاہ کے وارث و سجادہ آپ ہی مقررہ ہوئے۔
سیرت و کردار:آپ کا بچپن عصمت و تقویٰ کا بے مثال نمونہ ہے۔ کم سنی میں ہی خرقہ خلافت و اجازت ملنے کے بعد طویل عرصہ تک عبادت و ریاضت مجاہدہ سلوک میں مگن رہے۔
آپ کے مجاہدات سخت ہوتے تھے اس راہ میں آپ نے بہت تکالیف برداشت کیں۔ آپ احکام شرعیہ کے فطری طور پر مقلد تھے ۔ کسی بھی حال میں شریعت کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑ ا۔
اسی طرح آپ نے اپنے پاس آنے والوں کی تربیت قلوب اور اصلاح خلق کے کام کو اس خوبی سے انجام دیا کہ سینکڑوں گم کردہ راہ راہ راست پر آگئے۔غفلت کے شکار لوگ غفلت سے بیدار ہوئے۔طالموں اور سر کشوں کے دلوں میں نرمی آئی۔حرص و ہوا کے پجاری عابد و زاہدو نیک ہوگئے۔ الغرض جو بھی آپ کے دامن سے وابستہ ہوتا وہ آپ کے قالب میں ڈھل کے رہ جاتا اور سینکڑوں طالبان حق آپ کی توجہ سے صاحب ارشاد ہوئے۔
آپ نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد رکھاکہ خدا سے بھاگ ہوئے خدا کے دروازے پر آجائیں اور خدا اور اس کے سول صلی اللہ علیہ سلم کے احکام کے متبع ہوجائیں۔
تذکرہ نگاروں اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ اپنے وقت کے سلطان الاوتاد اور سر تاج الاغواث ہوئے ہیں۔ اور آپ کی نگاہ ولایت سے بے شمار لوگ درجہ مشائخیت کو پہنچے اور تصوف کی دنیا میں موجب افتخار بنے۔
آپ کا ریقہ صبر و شکر تسلیم و رضاعلم و عمل حلم و حیا ،جو دو سخا، عشق ووفا اور اخلاق و اخلاص تھا۔
آپ آسمان معرفت پر مہر و ماہ بن کر چمکے۔آپ کے فیضان و کرم سے ہندوستان گوشہ گوشہ چمکا اور اطراف واکناف آپ کی توجہ قلبی سے نگاہ کمال سے جگمگا اٹھے۔
آپ کے دربارے میں بڑے بڑے جلیل القدر مشائخ ہزار عقیدت سے سر نیازخم کرتے تھے ۔ اور کسب فیض سے روحانی مراتب حاصل کرتے تھے۔ جو بھی سائل یا طالب حق اخلاص سے آپ کی بارگاہ میں آگیا وہ قلبی کیفیات کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ آپ کے دم قدم سے فیض کا ایک دریا جاری تھا اور ایک ابر کرم تھا جو کہ سب پر شب و روز اطمینان و سکون برسا رہا تھا۔
آپ نے تمام عمر ا رتقاء تقدس، توکل اور استغناء کو اپنائے رکھا۔ دنیاوی جاہ وحشمت کو حقیر سمجھتے تھے۔
تمام عمر احیائے ملت اور ترویج و اشاعت دین کے سلسلہ میں شبو روز کو شاں رہے۔ آپ کی وضع قطع اور روش حجور پیران پیر دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشابہ رہی۔
سخاوت و فیاضی کا یہ حال تھا کہ جس قدر بھی فتوحات حاصل ہوتی وہ حاجت مندوں پر خرچ کردیتے تھے۔
آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ جو زبان ترجمان سے فرماتے ہوہی دل و دماغ میں ہوتا اور اسی پر عمل بھی کرتے تھے۔
آپ اپنے وقت کے چوٹی کے عالم و فاضل اور پر اثر انداز کے واعظ تھے۔ جب سے مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے تادم آخر پندو نصائح درس و تدریس میں مصروف و مشغول رہے۔
آپ کا وعظ سننے کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر مشائخ و علمائ فقہاء محدثین و متکلمین حلقۂ درس میں شرکت کرتے تھے۔بڑے بڑے دقیق اور الجھے ہوئے مسائل آپ کی خدمت میں پیش کرتے، جنہیں آپ اس انداز سے سلجھاتے اور سمجھاتے کہ وہ تمام علماء انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ آپ کی شہرت بہت جلد اندرون ملک و بیرون ممالکاور بلاد ہند کو پھلانگ کر چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور ان ممالک کے لوگ بھی آخر علوم ظاہریہ و باطنیہ میں آپ سے مستفید ہونے لگے۔ آپ کے سامنے والا کتنا ہی بڑا جید عالم ہوتا مگر آپ کے سامنے اس کی زبان گنگ ہوکے رہ جاتی تھی۔
آپ کے صاحبزادے شاہ محب اللہ الیاس قادری فرماتے ہیں کہ آپ حضور غوث الاعظم کی تقلید کرتے ہوئے ہفتے میں تین دن یعنیبروزسوموار ، جمعہ اور بدھ کے روز بیان فرماتے تھے اور بیان کا انداز اس قدر دلکش اورآواز اس قدر صاف تھی کہ خشک سے خشک مضمون کو نہایت ہی فصاحت و بلاغت سے ادا فرمات تھے۔
غرض کہ ہندوپاک کے علاوہ ہفت اقلیم کے لوگ بغرض زیارت و ملاقات آکر فیض یاب ہوتے۔
اسی طرح آپ کے خلفائے نامدار کے ذریعے بھی مخلوق کو بے حد فیض پہنچااور ہر طرف توحید پرستی اوررسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرچے ہونے لگے۔
آپ کے ان خلفاء میں امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی ، حضرت شیخ طاہر بندگی ، اور شیخ السلام بہادر جیسی نادر روز گار شخصیات آپ ہی کی ارادت وخلافت سے مشرف ہوئے۔
آپ کی علمیت ، شخصیت و عظمت اور روحانی سر بلندی کا اعتراف آپ کے معاصرین و متاخرین بزرگان دین نے کیا ہے۔
آپ کی ذات والا صفات پر مختلف بزرگان کا اظہار خیال:حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمۃ نے آپ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے،
آفتاب کی طرف بے تکلف دیکھ سکتا ہوں، مگر حضرت شاہ سکندر کیتھلی نبیرہ حضرت شاہ کمال کیتھلی کے دل کی طرف غلبہ شعاع انوار کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتا کہ رسائی نہیں ہوسکتی۔
حضرت شیخ طاہر بندگی لاہور قادری فرماتے ہیں:
حضرت شاہ سکندر محبوب الٰہی ان مشاہیر اولیاء اللہ اور صاحب تصرف بزرگوں میں سے ہیں جن کی نظیر متقدمین میں بھی کم ملتی ہے۔
حضرت شاہ موسٰی ابو المکارم قادری گیلانی فرماتے ہیں:حضرت شاہ سکند ر قادری سالکوں کے پیش عارفوں کے امام اور دنیائے شریعت و طریقت کے نور ماہتاب ہیں، عبادت و مجاہدہ میں آپ کا پایہ بہت بلند ہے۔
حضرت شیخ نظام الدین بلخی تھانیسری چشتی صابری فرماتے ہیں:کہ حضرت شاہ سکندر قادری اولیائے وقت میں جتنی فضلیت کرھتے تھے وہ بہت کم دیکھی گئی ہے۔
الغرض تمام تذکرہ نگار اس بات سے متفق ہیں کہ حضرت شاہ سکندر کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے معاڑ اولیائے کاملین میں سر کروہ شخصیت کے حامل اور حامی سنت و شریعت اور ما حئ بدعت تھے اور زندگی کے ہر معاملہ میں اپنے جد امجد کے میثل اور زندگی بھر تندہی اور پابندی کے ساتھ تبلیغ اسلام اور سلسلہ قادریہ کی اشاعت میں مصروف رہے۔
آپ کے خلفائے نامدار:یوں تو آپ کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ مگر آپ کے چند معروف خلفاء کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں جن کے دم قدم سے آپ کے سلسلہ کو وسعت ملی۔
۱)حضرت شاہ گدار حمان عباس (فرزند اول)۔۔۔۲)حضرت شاہ محب اللہ الیاس زہدی (فرزند دوم)۔۔۔۔۳) حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی۔۔۔۔۴) حضرت شیخ محمد طاہر بندگی لاہوری۔۔۔۵) حضرت شیخ نور محمد پٹنی۔۔۔۶) حضرت شیخ محمد اسلام بہاری ۔۔۔۔۔۷) حضرت میراں شاہ غازی (راجپوتانہ)۔۔۔۸) حضرت ملا عبد الرحمان قادری لاہوری (کوٹلی عبد الرحمٰن قادری لاہور۔۔۔۔۹)حضرت شاہ محمود عالم لاہوری ۔۔۔۔۱۰) حضرت ملا حسین لاہوری ۔۔۔۔۱۱) حضرت قاضی صدر الدین لاہوری ۔۔۔۔۱۲) حضرت ملا ابو الفتح لاہوری۔۔۔۱۳) حضرت ملا امام الدین لاہوری۔۔۔۱۴) حضرت شیخ ادریس سامانوی ۔۔۔۔۔۱۵) حضرت باوابال پوری۔۔۔۔۱۶) حضرت حافظ نور جمال قادری علیھم الرحمۃ والغفران والرضوان۔
کشف و کرامات:ایک مرتبہ آپ اپنے جد بزرگوار حضرت شاہ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ کے دربار کے احاطے کے باہر ایک اونچے ٹیلے پر مصروف عبادت تھے کہ اچانک چار ور اس طرف آنکلے انہوں نے آپ سے شہر کی بابت دریافت کیا کہ کس طرفہے۔ اور یہاں سے کتنی مسافت پر ہے۔ آپ نے ان چاروں کو اپنے دامن میں لے لیا اور ایک ہی نظر سے ان چاروں کو صاحب تصرف صاحب کمال بنادیا۔اور انہیں صاب ولایت کر کے مختلف مقامات پر مقرر کردیا۔
کرامت نمبر 2:آپ کے خلیفہ حضرت شیخ طاہر بندگی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں رہ کر چلّہ کشی میں مصروف تھا کہ میں نے دیکھا کہ آپ ایک پہاڑ پر تشریف فرما ہیں اور آپ کے ارد گردز و جواہر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور مخلوق خدا کا ایک اژدھام جمع ہے اور آپ دونوں ہاتھوں سے وہ زرو جواہر لوگوں میں تقسیم فرما رہے ہیں۔مگر عجیب بات یہ بھی دیکھی کہ آپ جس قدر زرو جواہر تقسیم فرمارہے تھے وہ ڈھیر بجائے کم ہونے کے بڑھتا جارہا تھا۔
میں مراقبے سے فارغ ہو کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا کہ آپ نےفرمایا۔ طاہر جو کچھ تم نے دیکھا ہے یہ اس شفقت بے پایاں کا نتیجہ ہے جو حضرت غوث اعظم محبوب سبحانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہم پر ہے۔
وصال باکمال:قبل از وصال آپ نے اپنے دونوں صاحبزدگان حضرت سید شا گدا رحمٰن عباس اور حضرت شاہ محب اللہ رہے تھے ۔ اور شاہ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ نے آپ کو عطا فرمائے تھے وہ دونوں صاحبزادوں کو عنایت فرمائے۔
دوسرے روز بوقت طلوع آفتاب 13 جمادی الاول 1029 ہجری بمطابق 22 جون 1614 کو آپ کا وصال باکمال ہوا۔
مزار پُر انوار کیتھل شریف والد گرامی کے مزار کے قریب ہی ضلع کرنا ل انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔جہاں اہل عقیدت و محبت حاضری دے کر اپنے قلوب و اذہان کو نور ایمان سے منور کرتے ہیں۔
آپ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 14 جمادی الاول کو آپ کے دربار شریف واقع کیتھل شریف ضلع کرنال انڈیا میں بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ جس میں لا تعداد افراد شرکت کرکے منہ مانگی ماردیں پاتے ہیں۔
رہے آستاں سلامت ،رہے برقرار شاہی