حضرت عبداللہ شاہ سید غازی علیہ الرحمۃ
و ۹۸ ھ ف ۱۵۱ھ
آپ کا اسم گرامی سیّد عبداللہ، کنیت ابو محمد اور لقب الاشتر ہے، آپ کے والد کا نام سیّد محمد نفس زکیہ اور دادا کا نام سیّد عبداللہ المحض ہے، پانچویں پشت میں حضرت سیّدنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے جاکر ملتے ہیں۔ پورا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: سیّد ابو محمد عبداللہ الاشتر بن سیّد محمد ذوالنفس الزکیہ بن سیّد عبداللہ المحض بن سیّد حسن مثنّٰی بن سیّدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ بن حضرت سیّدنا امیر المومنین علی بن ابی طالبکَرَّمَ اللہُ وَجَہْہٗ الْکَرِیْمحضرت سیّدنا حسن مثنی کی شادی حضرت سیّدہ فاطمہ صغریٰ بنتِ سیّدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے ہوئی۔ اس لحاظ سے (آپ سیّد عبداللہ غازی) حسنی و حسینی سیّد ہیں۔
آپ کی ولادت با سعادت ۹۸ھ میں مدینۃ المنورہ میں ہوئی۔ آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم حضرت سیّد محمد نفس زکیہ کے زیر سایہ ہوئی۔ علم حدیث میں ملکۂ تامّہ رکھتے تھے، بعض مصنّفین نے آپ کو محدثین میں شمار کیا ہے۔
(تحفۃ الزائرین حصہ دوم ص ۵)
سندھ میں آمد:
دوسری صدی ہجری کے آغاز میں جب بنوامیّہ کی حکومت ختم ہوچکی تھی، ۱۳۸ھ میں حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی کے والدِ محترم نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا اور اپنی دعوتِ خلافت کی تحریک آپ نے مدینۃ المنورہ سے شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اسی غرض سے بصرہ کی جانب روانہ کیا۔ اسی زمانے میں حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمہ اللہ کو ان کے والد نے مدینے سے بصرہ اپنے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے پاس بھیجا، جہاں سے حضرت عبداللہ شاہ غازی نے عراق سے ہوتے ہوئے اپنے وطن کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر سرزمین میں سندھ کی جانب رخ کیا۔ تاریخ الکامل لابن الاثیر، ابنِ خلدون اور طبری وغیرہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آپ دعوتِ خلافت کے سلسلے میں بحیثیتِ نقیب سندھ میں وارد ہوئے، لیکن میاں شاہ مانا قادری نے تحریر کیا ہے کہ آپ کو خلافت سے زیادہ اسلام کی تبلیغ عزیز تھی، جس کی خاطر آپ سرزمینِ سندھ میں وارد ہوئے اور اسلام کے پھیلانے کے لیے تمام تر کوششیں صرف کردیں اور صدہا سندھیوں کو زیورِ اسلام سے آراستہ کیا۔
(تحفۃ الزائرین حصہ دوم ص ۶)
حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی ہی کی ذاتِ گرامی وادیِ سندھ میں سادات کی وہ قدیم ترین شخصیت ہیں کہ جنہوں نے وادی سندھ میں اسلام کو متعارف کرایا۔ علامہ ابنِ اثیر نے تاریخ الکامل، جلد پنجم، صفحہ ۳۰پر تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کی سندھ میں آمد خلیفہ منصور عباسی کے دور میں ہوئی۔
(تحفۃ الزائرین حصہ دوم ص ۷)
بندہ کہتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا۹۸ھ میں پیدا ہونا جب کہ اس وقت کو حضراتِ صحابۂ کرام کا دور کہا جاسکتا ہے عین ممکن ہے کہ آپ نے کسی صحابی کی زیارت کی ہو تو اس اعتبار سے آپ کا تابعی ہونا لازم آئے گا، چلو اگر ہم بالفرض یہ بھی تسلیم کریں کہ آپ نے کسی صحابی کی زیارت نہیں کی تو آپ نے کسی تابعی کی زیارت لا محالہ ضرور کی ہوگی تو اس اعتبار سے آپ کا تبعِ تابعی ہونا تو یقینی امر ہے۔ جس میں کسی اہلِ فہم و دانش کو چون و چرا نہیں کرنا چاہیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا حق کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ ہی وہ سادات کرام کی پہلی شخصیت ہیں جو سب سے پہلے سرزمینِ سندھ میں وارد ہوئے ہیں۔ تاریخی قرائن کے اعتبار سے آپ سے پہلے کسی بھی سادات کا سندھ میں وارد ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔
شہادت:
حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کی شہادت سفیح بن عمر (جو کہ ہشام بن عمر کے بھائی تھے اور یہ ہشام، حضرت عمر بن حفص کی معزولی کے بعد سندھ کے گورنر مقررہوئے) کے لشکر کے ہاتھوں اپنے مریدین کے ساتھ دریائے مہران (سندھوندی) کے کنارے ایک عظیم جنگ کے دوران ۱۵۱ھ میں واقع ہوئی ہے، باقی جو آپ کے کچھ مریدین بچ گئے وہ آپ کی نعشِ مبارک کو وہاں سے دشمنوں کے ڈر سے چھپالائے اور ایک اونچی پہاڑی پر آپ کو دفن کردیا، جو اس وقت کلفٹن کی پہاڑی کے نام سے مشہور ہے، کلفٹن اور کراچی کی شہرت بھی در حقیقت آپ کی ذاتِ گرامی کا صدقہ ہے۔
(تحفۃ الزائرین حصہ دوم ص ۱۲)
کرامت:
حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمۃ کی یہ بھی کرامت ہے کہ سمندر کے کنارے پہاڑ کے نیچے سے ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہے اور ہزاروں بیمار اس سے شفایاب ہوتے ہیں۔
(تحفۃ الزائرین حصہ دوم ص ۱۳)
آپ کا عرس مقدس ہر سال ۲۰، ۲۱، ۲۲ ذوالحج، کو بڑے کرّوفر سے منایا جاتا ہے، جس میں ہزارہا انسان پورے ملک سے آکر فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )