حضرت شکر اللہ سید قاضی
سید شکر اللہ، بن سید وجیہہ الدین، بن سید نعمت اللہ، بن سید عرب شاہ بن امیر نسیم الدین محمد المعروف میرک شاہ، بن امیر جمال الدین عطاء اللہ محدث، بن فضل اللہ الحسینی الدشتکی ، الشیرازی میرزاستاہ بیگ ارغون کے ہمراہ &nbs ۔۔۔۔
حضرت شکر اللہ سید قاضی
سید شکر اللہ، بن سید وجیہہ الدین، بن سید نعمت اللہ، بن سید عرب شاہ بن امیر نسیم الدین محمد المعروف میرک شاہ، بن امیر جمال الدین عطاء اللہ محدث، بن فضل اللہ الحسینی الدشتکی ، الشیرازی میرزاستاہ بیگ ارغون کے ہمراہ تاجروں کے قافلہ میں شیراز سے سر زمین سندھ میں وارد ہوئے، بڑے عالم و عارف اور متقی بزرگ تھے ،مرزا شاہ حسن ارغون نے آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور آپ کے علم و فضل کے باعث آپ کو منصب قضاء پر فائز کردیا۔ یہ تاریخ سندھ میں نفاذ شریعت اسلامیہ کا اہم واقعہ ہے جس سے دور فارقی کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ ایک شخص نے حاکم وقت مرزا حسن ارغون پر دعویٰ دائر کردیا چوں کہ آپ قاضی تھے آپ نے امیر کو حاضر عدالت ہونے کا حکم دیا، مرزا شریعت کی بالا دستی کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت میں حاضر ہوئے قاضی صاحب نے حکم دیا کہ مرزا کو کمرہ عدالت میں مدعی کے برابر کھڑا کیا جائے۔ جب مقدمہ کی سماعت مکمل ہو گئی تو قاضی صاحب اپنی مسند سے اٹھے اور مرزا کو پورے ادب و احترام سے مسند پر بٹھایا، مرزا نے دستہ شمشیر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ رب العزت کی قسم اگر میں دیکھتا کہ تم نے شریعت کا حکم نافذ کرنے میں میری طرف داری کی ہے تو اسی تلوار سے تمہارا کام تمام کردیتا ، قاضی صاحب نے بھی تلوار نیام سے سونت کر فرمایا کہ اگر میں دیکھتا کہ مرزا حکم شریعت سے انحراف کر رہا ہے تو خواہ مجھ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتے مگر میں شریعت کا حکم نافذ کر کے رہتا ۔
عمر کے آخری حصہ میں منصب قضاء سے مستعفی ہوکر منازل سلوک کی طرف متوجہ ہوئے اور زمرہ اولیاء میں داخل ہوئے، آپ کا مزار شریف مکلی پر شیخ اسحاق پھوترہ کے مزار کے قریب ہے۔
(تحفۃ الطاہرین،ص۵۰)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )