اپنے والد بزرگوار اور ابو الحسن بن ضرماء رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث سنی، اور تفقہ حاصل کیا، پھر درس و تدریس کا کام شروع کیا، حدیث بیان کی، فتوے دئیے، وعظ کہا، اور تصوّف میں جواہر الاسرار اور لطائف الانوار وغیرہ کتابیں تصنیف کیں، حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فتوح الغیب انہیں کے لیے تصنیف فرم ۔۔۔۔
اپنے والد بزرگوار اور ابو الحسن بن ضرماء رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث سنی، اور تفقہ حاصل کیا، پھر درس و تدریس کا کام شروع کیا، حدیث بیان کی، فتوے دئیے، وعظ کہا، اور تصوّف میں جواہر الاسرار اور لطائف الانوار وغیرہ کتابیں تصنیف کیں، حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فتوح الغیب انہیں کے لیے تصنیف فرمائی تھی۔ [ایضًا ص ۱۰۹ شرافت]
پھر یہ بغداد سے مصر چلے گئے، اہالیان مصر میں سے ابو تراب ربیعہ بن الحسن الحضرمی الصنعانی رحمۃ اللہ علیہ، مسافر بن یعمر المصری رحمۃ اللہ علیہ، حامد بن احمد الاتاجی رحمۃ اللہ علیہ، محمد بن محمد الفقیہ المحدّث رحمۃ اللہ علیہ، عبد الخالق بن صالح القرش الاموی المصری رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہ نے اِن سے حدیث سنی۔ [حیاتِ جا ودانی ص ۱۱۰]
ان کو شعر و سخن کا مذاق بھی تھا، چنانچہ یہ اشعار انہیں کے ہیں۔
فان سئلوا کم کیف حالی بعدھم فلیس لہٗ اِلفٌ یسیرُ بقُربہم غریبٌ یقاسی الھم فی کلّ بلدۃٍ
|
|
فقولوا بنیران الفراق حریقٌ ولیس لہٗ نحو الرّجوع طریقٌ ومَن لِغریب فی البلاد صدیقٌ[۱]
|
[حیاتِ جا ودانی ص ۱۱۰]
بارھویں رمضان ۵۷۳ھ میں وفات پائی، قبر مصر میں ہے۔ [حیاتِ جا ودانی ص ۱۱۰
(شریف التواریخ)