حضرت شیخ ابو عمروصریقین علیہ الرحمۃ
آپ فرماتے ہیں کہ میرا شروع حال یہ تھا کہ میں ایک رات صدیفن میں سے سیدھا لیٹا ہواتھا اور منہ آسمان کی طرف کیا ہوا تھا۔میں نے دیکھا کہ پانچ کبوتر اڑے جاتے ہیں۔ایک کہتا تھا۔سبحان من عند خزائن کل شیئی وما ینزلہ الا بقدر معلوم یعنی وہ ذات پاک ہے"جس کے پاس ہرشئے کے خزانے ہیں اور نہیں اتارتا۔اس کو مگر ایک معلوم اندازہ کے موافق۔دوسرا کہتا تھا۔سبحان من اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی یعنی وہ ذات پاک ہے" جس نے ہر شئے کو وجود دیا اور پھر اس کو ہدایت دی۔تیسرا کہتا تھا"سبحان من بعث الا نبیاء حجہ علی خلقہ وفضل علیھم محمدصلی اللہ علیہ وسلم یعنی وہ ذات پاک ہے کہ انبیاء کو اپنے مخلوق پر حجت کر کے بھیجا ہے اور ان سب پر محمدﷺ کو فضیلت دی ہے۔چوتھا کہتا تھا۔کل مافی الدنیا باطل الا ما کان للہ ورسولہ یعنی جو کچھ دنیا میں ہے۔وہ باطل ہے"مگر جو کچھ کہ خدا اوراس کے رسول کے لیے ہے۔پانچواں کہتا تھا۔یا اھل الغفلۃ عن مولا کم قو موا الی ربکم رب کریم یعطی الجزیل و یعغفر الذنوب العظیم یعنی اے غفلت والو جو اپنے مولا سے غافل ہو۔اپنے رب کی طرف کھڑے ہو"جو رب کریم ہے۔بہت کچھ دیتا ہے اور بڑے گناہ کو معاف کردیتا ہے۔جب میں نے ان کو دیکھا اور سنا تو میں ہوش ہوگیا۔جب مجھے ہوش آیا تو دنیامیں جو چیزیں ہیں۔ا ن کی دوستی میرے دل سے بالکل جاتی رہی۔جب صبح ہوئی تو میں نے خدائے تعالٰی سے عہد کیا کہ میں اپنے آپ کو کسی شیخ کے سپرد کروں گا کہ جو مجھے خدا کی راہ دکھائے اور روانہ ہوگیا۔مجھے معلوم نہ تھا کہ کہاں جاتا ہوں۔اتفاقاً ایک پیر خوبصورت ہیبت ووقار کے ساتھ میرے سامنے آیا اور کہنے لگا"السلام علیک یا عثمان میں نے ان کے سلام کا جواب دیا۔میں نے ان کو قسم دلائی کہ آپ کون ہیں؟میرا نام آپ نے کیونکر جان لیا؟ کیونکہ میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا؟کہا کہ میں خضر ہوں۔شیخ عبدالقادر کی خدمت میں تھا۔مجھ کو انہوں نے کہا کہ اے ابو العباس صریفن میں کل ایک شخص کو جذبہ ہوا ہے۔وہ مقبول ہوگیاہے۔اس کو ہفت آسمان کے اوپر سے آواز آئی ہے کہ مرحبا بک عبدی یعنی اے میرے بندے تم کو مرحبا ہے۔
اس نے خدائے تعالٰی سے عہد کیا ہے کہ اپنے آپ کو کسی شیخ کے سپرد کردے۔تم اس کی طرف جاؤ اور اسے میرے پاس لاؤ۔پھر اس نے مجھے کہا"یاعثمان عبدالقادر سید العارفین وقبلہ الواقدین فی ھذالوقت فعلیک بملازمتہوتعظیمحرمتہ یعنی اے عثمان عبد القادر اس وقت میں عارفوں کے سردار اور (خدا کی طرف سے)آنے والوں کے قبلہ ہیں۔پس تم کوان کی خدمت میں رہنا اور عزت کرنا ضروری ہے۔میں خود توحاظر نہ ہوا ،مگر اپنے آپ کو بغداد میں دیکھا اور خضرعلیہ السلام غائب ہوگئے۔میں نے ان کو سات سال تک نہ دیکھا۔شیخ عبدالقادر کی خدمت میں آیا تو فرمایا کہ مرحبا بمن جذبہ مولا الا لیہ بالسنتہ الطیر وجمع لہ کثیرا من الخیر یعنی ایسے شخص کو مرحبا ہو۔جس کو اس کے مولا نے اپنی طرف جانوروں کی زبان سے کھینچ لیا اور اس کے لیے بہت سی نیکی جمع کی ۔اے عثمان جلد ہوگا کہ خدائے تعالی تم کو مرید دے گا۔جس کا نام عبدالغنی بن نقطہ ہوگا کہ جس کا مرتبہ بہت سے اولیاء اللہ سے بڑھ کر ہوگا۔اللہ تعالی اس کے سبب فرشتوں پر فخر کرے گا۔اس کے بعداپنے ٹوپی میرے سر پر رکھ دی ۔اس کی خوشی و ٹھنڈک میرے دماغ تک پہنچی اور دماغ سے دل تک عالم ملکوت کا حال مجھ پر کھل گیا۔میں نے سنا ہے کہ جہان اور جو کچھ جہان میں ہے۔حق تعالی کو تسبیح کہتا ہے۔مختلف بولیوں اور طرح طرح کی پاکیزگی کے ساتھ قریب تھاکہ میری عقل جاتی رہے۔اس کے بعد چند مہینے تک آپ نے مجھے خلوت میں بٹھایا۔واللہ کہ مجھ کو جو امر ظاہری یا باطنی معلوم نہ ہوتا تھا۔پہلے اس سے کہ میں کہو۔آپ بتا دیتے تھےاور جس حال و مقام و مشاہد ہ و مکاشفہ پر پہنچا۔پہلے اس سے کہ آپ سے پوچھوں ۔آپ مجھے بتا یدا کرتے اور مجھ کو ان باتوں سے خبر دی کہ ان کے خبر دینے کے کئی سال بعد ان کا وقوع ہوا۔مجھ کو آپ سے خرقہ پہننے پچیس سال ہوئے۔ابن نقطہ ایسے ہی تھے ۔جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ایک عالم کہتے ہیں کہ میں شیخ عبدالقادر ؒ کے سامنے آیا۔ابھی جوان تھااور اپنے پاس ایک کتاب "علم و فقہ " کی ہمراہ رکھتا تھا۔شیخ بغیر اس کے کہ اس کتاب کو دیکھیں یا مجھ سے پوچھیں کہ یہ کیا کتاب ہے؟فرمانے لگے۔یافلان بئس الرفیق کتابک یعنی اے فلاں شخص یہ تیری کتاب تیرا برا رفیق ہے۔اٹھ اور اسکو جاکر دھو ڈال۔میں نے ارادہ کیا کہ شیخ کے سامنے سے اٹھ جاؤں اور اس کتاب کو گھر میں چھوڑ آؤں گااور دوبارہ اپنے ساتھ نہ رکھوں گا۔شیخ کے خوف سے میرا نفس اس کے دھونےپر دلیری نہ کرتا تھا۔کیونکہ میں نے اس کتاب کو پڑھا ہوا تھااور اس سے محبت تھی۔میں نے چاہا کہ اس نیت سے اٹھوں۔شیخ نے میری نگاہ کی کہ جس سے مجھے اٹھنے کی طاقت نہ رہی۔ایسا ہوگیا کہ جیسا کسی نے باندھ دیا ہے۔پھر کاہ کہ اپنی کتاب مجھے دو۔میں نے کھولا تو اس کے تمام ورق سفید ہوگئے تھے۔ان پر ایک حرف لکھا ہوا نہ تھا۔تب میں نے شیخ کے ہاتھ میں دے دی۔شیخ نے اس کے ورقوں کو لوٹایا اور کہا کہ یہ کتاب فضائل قرآن ہے۔پھر جو میں نے دیکھا تو وہ فضائل قرآن ہے۔جو نہایت خوشخط لکھی ہوئی ہے۔پھر مجھ سے کہا،کیا تم نے ایسی بات سے توبہ کی کہ جو دل میں نہ ہو،وہ زبان سے نہ کہو۔میں نے کہا،ہاں بے شک توبہ کی۔کہا،اٹھو۔میں اٹھا تو جو کچھ اس کتاب سے یاد کیا تھا ۔وہ سب مجھے بھول گیا تھا۔اس وقت تک مجھے بالکل یاد نہیں۔
ایک دن ایک شخص ابو المعالی نام شیخ کی مجلس میں حاضر ہوا۔مجلس کے درمیان ان کو حاجت معلوم ہوئی۔چنانچہ حرکت کی مجال نہ رہی اور بے طاقت ہوگیا۔شیخ کی طرف استغاثہ کے طور پردیکھا ۔شیخ منبر پر سے ایک زینہ اترآئے۔پہلے زینہ پر ایک سر آدمی کے سر کی طرح ظاہر ہوا۔دوسرا زینہ پر اترے تو اس سے سر مونڈھا سینہ ظاہر ہوا۔اسی طرح زینہ بزینہ نیچے اتر تھےاور وہ شکل بڑھتی جاتی تھی۔یہاں تک کہ وہ شکل بالکل شیخ کی شکل ہوگئی اور آواز بھی شیخ کی آواز کی طرح۔باتیں بھی شیخ کی باتوں کی طرح کرتے تھےاور اس کے سوا اس شخص کے اوریا جن کو خدا چاہتا تھا اور کوئی نہ دیکھتا تھا۔شیخ آئے اور اس کے سر پر کھڑے ہوگئےاور اپنی آستین یارومال اس کے سرپر پہنا دیا۔تب اس نے اپنے آپ کو ایک لق و دق جنگل میں پایا۔وہاں پر ایک نہر دیکھی ۔جس کے کنارے ایک درخت تھا۔اپنی کنجیوں کا گچھا اس درخت پر لٹکا دیااور قضائے حاجت میں مشغول ہوا۔اس کے بعد وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی اور سلام پھیرا۔شیخ نے آستین یارومال اس کے سر سے اٹھا دیاتو اس نے اپنے آپ کو مجلس میں پایا۔اس کے اعضاء وضو کے پانی سے اتر تھےاور اس کی حاجت جاتی رہتی تھی۔شیخ اپنے منبر وعظ فرما رہے تھےکہ گویا ہر گز نیچے اترے ہی نہ تھے۔وہ خاموش تھا اور کسی سے اس نے کہا،لیکن کنجیوں کو دیکھا تو اپنے پاس موجودنہ پائیں۔ایک مدت کے بعداس کو بلاد عجم کی طرف سفر کرنے کا اتفاق ہوا ۔بغداد سے چودہ روز کی راہ پر سفر تھا۔ایک جنگل میں اترا کہ جہاں نہر جاری تھی۔یہ شخص اٹا کہ وضو کرے۔دیکھا تو وہ جنگل اسی جنگل جیسا ہے کہ جہاں اس روز وضو کیا تھا۔اس درخت کو پہچان لیا اور وہ گچھا کنجیوں کا وہیں لٹکا تھا۔جب بغداد میں واپس گیا تو شیخ کی خدمت میں حاضر ہواکہ وہ قصہ بیان کرے۔شیخ نے اس کے کان کو پکڑا اور کہا،اے ابو المعالی جب تک ہم زندہ ہیں،یہ ابت کسی سے مت کہو۔ایک دن شیخ فقہا و علما کی ایک جماعت کے ساتھ قبرستان کی زیارت کو گئے اور شیخ حمادکی قبر کے پاس دیر تک کھڑے رہے۔چنانچہ ہوا گرم ہوگئی۔اسکے بعد واپس ہوئے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر ظاہر تھے۔آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کا شیخ حماد کی قبر کے پاس کھڑے رہنے کا کیا سبب تھا؟فرمایا کہ ایک دفعہ ہم جمعہ کے دن شیخ حماد اور ان کے اصحاب کے ساتھ جمعہ کو جا رہے تھے۔جب ہم پل پر پہنچے تو شیخ حماد نے مجھے ہاتھ مارا اور پانی میں گرا دیا۔ہوا نہایت سرد تھی اور میں نے پشمینہ کا جبہ پہنا ہوا تھا۔میری آستین میں چند جزو تھے۔میں نے اپنا ہاتھ اونچا کرلیا۔تاکہ وہ اجزا تر نہ ہو جائیں۔یہ مجھ کو چھوڑ کر چل دئیے۔میں پانی سے نکلا اور اپنے جبہ کو نچوڑا اور ان کے پیچھے پہنچا،لیکن مجھے بہت سردی لگی۔جب میں ان تک پہنچا تو ان کے مرید میرے بارے میں ان سے کہنے لگے،آصپ نے ان کو منع کیا اور کہا کہ میں نے اس کو اس لیے تکلیف دی کہ اس کو آزماؤں ۔میں اس کو پہاڑ کی طرح دیکھتا ہوں۔جو اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔تب آپ ے کہا کہ آج میں ان کو قبر میں دیکھا کہ جزاؤ دار موتیوں کا حلہ پہنے ہوئے ہیں اور سر پر یاقوت کا تاج اور ہاتھ میں سونے کے کنگن ہیں۔
پاؤں میں سونے کی جوتی ہے"لیکن ان کا دایاں ہاتھ بیکار ہے۔ان کے کہنے میں نہیں۔میں نے کہا"یہ کیا بات ہے؟کہا کہ یہ وہی ہاتھ ہے کہ جس سے میں نے تم کو پانی میں ڈالا تھا۔کیا تم معاف کرسکتے ہو؟ میں نے کہا"ہاں۔کہا" پھر خدائے تعالٰی سے دعا مانگو کہ خدا مجھے میرا ہاتھ دے دے ۔تب میں کھڑا ہوا اور خدائے تعالٰی سے مانگتا رہا۔پانچ ہزار اولیاء اللہ میرے ساتھ اپنی قبروں میں دعا مانگتے رہے کہ میرے سوال کو ان کے حق میں قبول کرے۔میں سوال کرتا رہا۔حتٰی کہ خدائےتعالٰی نے ان کے ہاتھ کو واپس دےدیااور پھر اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کیا۔جب یہ بات بغداد میں مشہور ہوئی۔مشائخ بغداد اور شیخ حماد کے مریدین جمع ہوئے۔تاکہ شیخ عبدالقادر سے تحقیق کریں۔جو انہوں نے کہا تھا اور اس کا مطالبہ کریں۔شیخ کے مدرسہ میں آئے،لیکن شیخ کی ہیبت سے کوئی بات نہ کر سکتا تھا۔شیخ نے خود بات شروع کی او ر فرمایا کہ دو مشائخ کو پسند کرو۔تاکہ جو بات میں نے کہی ہے،ان کی زبان پر جاری ہوجائے۔انہوں نے شیخ ابو یعقوب یوسف بن ایوب ہمدانی کو کہ وہ اس روز بغداد میں تھےاور شیخ محمد عبدالرحمٰن بن شعیب کردی علیہ الرحمۃ ارحہما کو جو وہ بھی بغداد میں مقیم تھے۔دونوں صاحب کشف اوربڑے بزرگ تھے۔مقرر کیا اور کہا کہ ہم نے دوسرے جمعہ تک مہلت دی کہ دیکھیں،ان کی زبان سے کیا جاری ہوتا ہے۔شیخ نے فرمایا،تم لوگ اپنی جگہ سے نہ ٹلو۔یہا ں تک کہ یہ امر تحقیق ہوجائےاور سر نیچے ڈال لیا۔انہوں نے بھی سر نیچے کرلیے۔اتفاقاً مدرسہ کے باہر سے آواز آئی۔لوگوں نے دیکھا کہ شیخ یوسف بہت جلد آرہے ہیں۔جب مدرسہ میں آئے تو کہا کہ حق تعالی نے شیخ حماد کو مجھے دکھایا اور کہا،اے یوسف جلد جا اور شیخ عبدالقادر کے مدرسہ میں جا۔ان مشائخ سے جو وہاں موجود ہیں،کہہ دو کہ شیخ عبدالوادر نے جو کچھ کہا ہے۔ابھی شیخ یوسف نے بات پوری نہ کی تھی کہ شیخ عبدالرحمٰن کردی آگئے اور وہی کہا،جو شیخ یوسف نے کہا تھا۔شیخ عبدالقادر سے پوچھا گیا کہ آپ کا لقب محی الدین کیسے پڑا؟ فرمایا کہ جمعہ کے دن بغداد سے آرہا تھا۔ننگے پاؤں تھا۔ایک بیمار لاغر بدن خستہ حال پر گزرا تو اس نے مجھ سے کہا ،السلام علیک یا عبدالقادر۔میں نے اس کو سلام کا جواب دیا۔کہا کہ میرے نزدیک آئیں۔اس کے پاس گیا،مجھے بٹھا دو۔میں نے اس کو بٹھا دیا تو اس کا جسم تازہ ہوگیا۔اس کی چکل خوبصورت ہوگئی اور رنگ صاف نکل آیا۔میں اس سے ڈرگیا۔تب کہا،کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟میں نے کہا،میں دین اسلام ہوں۔میں ایسا ہی ہوگیا تھا۔جیسا کہ تم نے مجھے پہلے دیکھاتھا۔لیکن خدائے تعالی نے تمہارے سبب سے مجھے زندہ کردیا۔انت محی الدین تم دین کو زندہ کرنے والے ہو۔میں اس کو چھوڑ کر مسجد جامع میں گیا۔ایک مرد سامنے آیا اور جوتیاں میرے پاؤں کے سامنے رکھ دیں اور کہا،یا شیخ محی الدین۔جب میں نے نماز پڑھی تو ہر طرف سے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑےاور میرے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے،یا شیخ محی الدین۔مجھ کو اس سے پہلے کبھی اس نام سے کسی نےنہ پکارا تھا۔
ایک شیخ کہتےہیں کہ ایک دفعہ میں اور شیخ علی ہئیتی شیخ عبد القادر کے مدرسہ میں تھے۔اتنے میں ایک بغداد کے بڑے مال دار لوگوں میں سے شیخ کے پاس آیا اور کہنے لگا۔یاسیدی قال جدک رسول اللہﷺمن دعی فلیجب وھا انا ادعوک الی منزلی یعنی اے سید آپ کے نانا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو دعوت کی جائے۔اس کو چاہیئے کہ قبول کرے اوردیکھئے میں حاضرہوں۔آپ کو اپنے مکان کی طرف دعوت کے لیے بلاتا ہوں۔ آپ نے فرمایاکہ اگرمجھے اجازت ملی تو آؤں گا۔تھوڑی دیر مرا قبہ کیا اور پھرکہا کہ اچھا آؤں گا۔پھر آ پ اشتر پر سوار ہوئے۔شیخ علی ہئیتی نے آپ کی دائیں رکاب اور میں نے بائیں رکاب پکڑی۔یہاں تک اس شخص کا مکان پر آئے۔دیکھا تو تمام بغداد کے مشائخ علماء اور سردار جمع تھے۔دستر خوان لگایا گیا۔طرح طرح کے کھانے چنے گئےاور دو شخص ایک بڑا ٹوکرا جس کا سر ڈھکا ہوا تھا،لائے اور دستر خوان کے آخر طرف لے کر رکھ دیا ۔میزبان نے کہا،اجازت ہے۔شیخ سر نیچے کیے ہوئے تھے۔کچھ نہ کہا اور کھانے کا اذن دیا۔کسی نے بھی نہ کھایا۔واھل المجلس کان علی روسھم الطیر من ھیبۃ یعنی اہل مجلس کے سروں پر آپ کی دہشت کے مارے گویا پرندے تھے۔(یعنی سب سر نیچے کیے ہوئے تھے۔)پھر آپ نے مجھ کو اور شیخ علی ہئیتی کو اشارہ کیا کہ اس ٹوکرے کو اٹھا لاؤ۔ہم اٹھے اور اس کو اٹھا لائے۔وہ بڑا وزنی تھا۔اس کو ہم نے شیخ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔شیخ نے فرمایا کہ اس کو کھولو۔کھولا تو اس میں اس کا فرزند تھا۔جوکہ مادرزار اندھا گنٹھیہ کا مارا ہوا ، جذامی فالج زدہ تھا۔شیخ نے اس کو کہا،قم باذن اللہ معافا یعنی کھڑا ہوجا،خدا کے حکم سے تندرست ہو کر ۔وہ لڑکا کھڑا ہوگیا۔دوڑنے لگا،بینا تھا۔جس میں کسی کی بیماری اور آفت نہ تھی۔حاضرین میں جوش پیدا ہوا اور سب چلا اٹھے۔شیخ اس ہجوم میں سے باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا۔
اس کے بعد ہم شیخ ابو سعید قیلوی کی خدمت میں گئے اور یہ قصہ سنایا۔آپ نے کہا۔الشیخ عبدالقادر یبری الا کمہ والا برص ویحی الموتی باذن اللہ۔یعنی شیخ عبدالقادر مادراز اندھوں اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں،خدا کے ھکم سے ۔ایک بڑھیا شیخ عبدالقادر ؒ کی خدمت میں اپنے بیٹے وک ہمراہ لائی۔کہنے لگی،میں اپنے اس فرزند کے دل کا تعلق آپ کے ساتھ بہت دیکھتی ہوں۔اس لیے میں نے اپنا حق اس کو خدا کے لیے معاف کردیا ہے۔شیخ نے اس کو قبول کرلیا۔مجاہدہ و ریاضت کا حکم دیا۔چند دن کے بعد اپنے فرزند کے پاس آئی۔دیکھا کہ جو کی روٹی کھاتا ہےاور زرد و لاغر ہوگیا۔وہاں سے اٹھ کر شیخ کی خدمت میں گئی۔وہا ں پر ایک طباق دیکھا اور اس پر مرغ کی ہڈیاں دیکھیں۔جو ابھی شیخ کھا چکے تھے۔بڑھیا نے شیخ سے کہا،اے میرے سردار آپ تو گوشت کھاتے ہو اور میرا بیٹا جو کی روٹی کھاتا ہے۔شیخ نے اپنا ہاتھ ان ہڈیوں پر رکھا اور کہا،قم باذن اللہ الذی یحیی العظام وھی رمیم یعنی کھڑا ہوجا۔اس خدا کے حکم سے جو ہڈیوں کو زندہ کرے گا،جو بوسیدہ ہوں گی۔وہ مرغ زندہ ہوگیااور آوا ز دینے لگا۔تب شیخ نے اس بڑھیا سے کہا کہ جب تمہارا فرزند اس قابل ہوجائے گا تو اس وقت جو طاہے گا کھائے گا۔
ایک شیخ عمر نام کہتے ہیں کہ میں ایک رات خلوت میں تھا۔اتفاقاً دیوار بھٹ گئی اور ایک شخص بدشکل ظاہر ہوا۔میں نے اس سے کہا،تم کون ہو؟کہنے لگا،میں شیطان ہوں ۔تمہاری خیر خواہی کو آیا ہوں ۔میں نے کہا،میری خیر خواہی تو کیا کرے گا؟کہا،یہ کہ مراقبہ کا جلسہ تم کو سکھاتا ہوں۔وجلس القر قضا ء وراسہ منکس یعنی پیٹ پر بیٹھا اور سر اوندھا کیا اور ہاتھوں کو پاؤں تک ملایا۔جب صبح ہوئی تو شیخ عبدالقادر ؒ کی خدمت میں آیا۔تاکہ آپ کو یہ قصہ بتاؤں۔جب میں نے مصافحہ کیا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑا۔پہلے اس سے کہ میں بیان کروں۔خود ہی فرمایا۔یا عمر صدقک وھو کذوبیعنی اے عمر اس نے تجھ سے سچ کہا،حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔اس کے بعد اس کی کوئی بات سچی نہ قبول نہ کرنا۔چالیس سال تک اس شیخ کا جلسہ اس طریق پر تھا۔ایک دن شیخ وعظ کہہ رہے تھے۔بارش شروع ہوگئی اور لوگ متفرق ہونے لگے۔شیخ نے اوپر کو منہ اٹھا اور کہا ،میں تو لوگوں کو جمع کرتا ہوں اور تومتفرق کرتا ہے۔اسی وقت بارش مجلس پر سے موقف ہوگئی اور مجلس کے باہر برستی تھی ۔شیخ کا ایک مرید کہتا ہے کہ میں جمعہ کے دن شیخ کے ہمراہ مسجد جمعہ کو جارہا تھا۔اس دب کسی شخص نے آپ کی طرف توجہ نہ کی اور نہ سلام کہا۔میں نے دل میں کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے۔ہر جمعہ ہم بڑی تشویش سے جمعہ تک لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے پہنچا کرتے تھے۔ابھی یہ خطرہ میرے دل پر گزرے نہ پایا تھاکہ شیخ نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور لوگوں نے سلام کہنا شروع کیا اور اس قدر ہجوم ہوگیا کہ مجھ میں اور شیخ میں لوگ حامل ہوگئے۔پھر میں نے دل میں کہا وہ حال تو اس حال سے بہتر تھا۔شیخ نے میری طرف توجہ کی اور فرمایا کہ یہ بات تم نے خود چاہی۔تم کو معلوم نہیں کہ لوگوں کا دل میرے ہاتھ میں ہیں،اگر چاہوں تو ان کو پھیردوں اور چاہوں تو اپنی طرف متوجہ کرلوں۔
ایک شیخ کہتے ہیں کہ مدت تک میں خدا تعالی سے درخواست کرتارہا کہ رجال الغیب مج کو دکھائے۔ایک رات میں خواب میں دیکھا کہ احمد بن حنبل ؒ کی زیارت کرتا ہوں اور ان کی قبر کے نزدیک ایک مرد ہے۔میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ مردان غیب میں سے ہے۔جب میں اس امید پر جاگا کہ اس کو بیداری میں دیکھوں تو امام احمد بن حنبل ؒ کے مزار پر گیا۔اس مرد کو میں نے وہاں پایا۔میں نے زیارت میں جلدی کی،لیکن وہ شخص مجھ سے پہلے باہر نکل گیا۔میں اس کے پیچھے روانہ ہوا۔جب دجلہ پر پہنچا تودجلہ کے دونوں کنارے آپس میں اس قدر مل گئےکہ ایک قدم کا فرق رہا۔جب وہ دجلہ سے گزرے تو میں نے ان کو قسم دی کہ ذرا ٹھیرئیے کہ میں کچھ آپ سے باتیں کروں۔وہ ٹھیر گئے۔میں نے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟کہا،حنیفا وما انا من المشر کین یعنی میں حنیف ہوں (جو باطل مذہب کو چھوڑ کر حق کی طرف رجوع کرے)مشرک نہیں ہوں۔(گویا حنیف کے لفظ سے حنفی مذہب کی طرف اشارہ کیا)میرے دل میں آیا کہ وہ حنفی المذہب ہے۔میں لوٹا اور دل میں کہا کہ جاکر شیخ عبدالقادرؒ کو بتاؤں۔میں آپ کے مدرسہ میں گیااور آپ کے مکان پر جا کر کھڑا ہوا۔اندر سے آواز آئی اور آپ نے کہا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک کوئی ولی اس کے سوا حنفی المذہب نہیں ہے۔(اس روایت میں کلام ہے۔کیونکہ ہزاروں اولیاء اللہ حنفی المذہب اس وقت اور اس سے بیشتر اور بعد میں ہوئے ہیں۔خود حضرت شیخ حنفی المذہب تھے۔صرف اما م احمد حنبل کے اشارہ سے جو عالم مکاشفہ میں ہوا تھا،آپ نے مذہب حنبل اختیار کیا۔جس سے لوگوں کی توجہ اس مذہب کی طرف بھی ہوئی۔کمالا یخفی علی اہل اعلم۱۲۔مترجم)
شیخ کا ایک مرید کہتا ہے کہ میں آپ کی خدمت میں مشغول رہتا تھا۔اکثر راتوں کو جاگتا رہتا تھا۔آپ ایک رات گھر سے باہر آئے۔میں نے پانی کا لوٹا سامنے رکھ دیا ۔آپ ن ادھر توجہ نہ کی اور مدرسہ کے دروازہ کی طرف توجہ کی۔دروازہ کھل گیا۔پھر آپ باہر چلے گئے۔میں بھی باہر گیا۔پھر دروازہ بند ہوگیا۔تھوڑی دور تک آپ گئے تھےتو ہم اتفاقاً ہم ایک شہر میں پہنچے۔مجھے معلوم نہ ہوا کہ وہ کونسا شہر ہے۔آپ ایک سرائے میں آئے۔وہاں پر چھ آدمیوں کودیکھا کہ بیٹھے تھے۔وہ سب سامنے آئے اور آپ کو سلام کہا،میں ستون کے پیچھے چھپا رہا۔اس سرائے کے ایک طرف سے رانے کی آواز آئی۔تھوڑی دیر میں رونے کی آواز بند ہوگئی۔اتفاقاً ایک مرد اور جس طرف سے رونے کی آواز آئی تھی۔اس کے بعد باہر آیااور ایک شخص کو کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔ایک دوسرا شخص آیا ۔جس کے لبوں کے بال لمبے تھے۔سربرہنہ تھا۔شیخ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔شیخ نے اس کو کلمہ شہادت پڑھایااور اس کے سر اور لبوں کے بالوں کو لیا۔ٹوپی پہنائی اور محمد ؑ نام رکھا۔ان چھ شخصوں سے کہا کہ میں اس امر پر مامور ہوں کہ اس مردہ شخص کے بدلے اس کو مقرر کروں۔انہوں نے کہا،بسروچشم۔پس شیخ باہر نکل آئے اور ان کو وہیں چھوڑا۔میں بھی شیخ کے پیچھےباہر نکلا ۔تھوڑی دیر چلے تھے کہ بغداد کے دروازہ پر پہنچ گئے۔اول دفعہ کی طرح دروازہ کھل گیا۔پھر ہم مدرسہ کی دروازہ تک پہنچے۔وہ بھی کھل گیا۔شیخ اپنے گھر مین آگئے۔جب صبح ہوئی تو میں شیخ کے سامنے بیٹھ گیا۔تاکہ کتاب پڑھوں ۔لیکن شیخ کی ایسی ہیبت مجھ پر چھائی کہ میں پڑھ نہ سکا۔شیخ نے کہا،اے فرزند پڑھو۔میں نے آپ کو قسم دی کہ رات کا واقعہ جو میں نے دیکھا تھا۔اس کو ضرور بیان فرمائیں۔فرمایا کہ وہ شہر نہاوند تھااور وہ چھ شخص ابدال تھے۔جو روتا تھا،وہ ان کا سردار تھااور جو شخص باہر آ یا اور ایک شخص کو کندھے پر اٹھایا تھا۔وہ خضر علیہ السلام تھے کہ اس مردہ کو باہر لائے تھے۔تاکہ اس کے دفن کفن کا بندوبست کرےاور وہ شخص جس کو میں نے کلمہ شہادت پڑھایا۔وہ ایک نصرانی قطظنیہ کا رہنے والا تھا۔مجھ کو حکم ہوا تھا کہ اس کو اس مردہ کے بدل مقرر کروں ۔پھر اس کو لائے اور میرے ہاتھ پر مسلمان کیا۔اب وہ ان میں سے ایک ہے۔
ایک دن آپ وعظ کر رہے تھے۔اتفاقاً چند قدم ہوا میں اڑے اور کہا،اے اسرائیلی کھڑا ہو اور محمدی کلام سن۔پھر اپنی جگہ پر واپس آگئے۔لوگوں نے پوچھا کہ حضرت سے کیا بات تھی؟فرمایا کہ ابوالعباس خضر علیہ السلام ہماری مجلس میں سے جلد جلد جا رہے تھے۔اس لیے میں چند قدم اس کی طرف گیا اور کہا،جو تم نے سن لیا۔آپ کا خادم کہتا ہے کہ مہمانوں کی وجہ سے شیخ پر ڈھائی سو دینار اورزر سرخ قرض چڑھ گیا۔ایک دن ایک شخص آیا۔جس کو میں نہیں پہچانتا تھا۔وہ بغیر اس کے کہ شیخ سے اذن لے چلا آیا اور بیٹھ گیا۔شیخ سے بڑی باتیں کرتا رہااور اسی مقدار کے موافق زر نکلا اور کہا کہ یہ آپ کے فرض کے لیے ہے۔پھر وہ چلا گیا۔شیخ نے مجھے حکم دیا کہ یہ سوناقرض خواہوں کو پہنچا دینا۔پھر فرمایا کہ صیرفی قدر تھا۔میں نے کہا،یہ کون ہوتے ہیں؟فرمایا کہ ایک فرشتہ ہےکہ اللہ تعالی اللہ اولیاء کے پاس بھیجا کرتے ہیں کہ ان کے قرض ادا کردیا کرے۔
(نفحاتُ الاُنس)