عثمان نام تھا۔ حضرت غوث الاعظم کے بزرگ تریں مریدوں سے تھے۔ فقر اور تجریدو تفرید میں یگانۂ روز گار تھے۔ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ وُہ مجھے اپنی طرف کھینچے تو اِس کی ابتداء اس طرح پر ہُوئی کہ ایک رات میں اپنے گھر میں آسمان کی طرف منہ کیے لیٹا ہوا تھا، دیکھا کہ پانچ کبوتر اڑتے ہُوئے جارہےہیں۔
پہلا پڑھتا تھا سبحان من عندہ خزائن کل شییٔ وما نزلہ الا بقدر معلوم۔ پاک ہے وُہ ذات جس کے پاس تمام چیزوں کے خزائن ہیں۔ وُہ نازل کرنے ولا ہے مگر ایک اندازۂ معلوم میں۔
دوسرا پڑھتا تھا: سبحان من اعطی کل شی خلقہ ثم ھدی۔ پاک ہے وُہ ذات جو ہر چیز کو عطا کرتا ہے، پیدا کرتا ہے اور پھر اسے ہدایت دیتا ہے۔
تیسرا پڑھتا تھا: سبحان من بعثت الا نبیاء حجۃ علیٰ خلقہ و فضل علیھم محمّد۔ پاک ہے وُہ جس نے انبیاء کو اپنی مخلوق پر حجت پیدا کیا اور محمّدﷺ کو فضیلت دی۔
چوتھا پڑھتا تھا: کل مافی الدنیا باطل الا ماکان للہ ورسولہ۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے سب باطل ہے سوائے اس کے جو خدا و رسول کے واسطے ہو۔
پانچواں پڑھتا جاتا تھا: یا اھل الغفلۃ من مولٰکم قومو الٰی ربکم رب کریم یعطی العطاء الجزیل ویغفر الذنوب رب العظیم۔ اے اہلِ غفلت اپنے پروردگار کے حضور کھڑے ہوجاؤ جو بڑا ہی عطاء و کرم کرنے والا اور گناہوں کو بخش دینے والا ہے۔
میں یہ سن کر بے خود ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو دنیا و مافیہا کی محبّت میرے دل سے محو ہوچکی تھی۔ وہ رات بڑی بے قراری اور اختر شماری میں گزار دی۔ اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ اپنے آپ کو کسی ایسے مرشدِ کامل کے سپرد کروں گا جو مجھے واصل بحق کرے۔ تلاشِ مرشد میں چل نکلا۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ کس طرف جاؤں۔ اچانک ایک پیرِ روشن ضمیر راستے میں ملا۔
اس نے میرا نام لے کر مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ پوچھا۔ آپ کون ہیں؟ میرا نام آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ فرمایا: میں خضر ہوں اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا: کل صریفین میں ایک آدمی جذب حق کو پہنچا ہے اور بار گاہِ حق میں قبول ہوا ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مرشدِ کامل کے سپرد کردے گا جو اسے خدا تک پہنچائے گا۔ پس تم اس کے پاس جاؤ اور اسے میرے پاس لاؤ۔ پس تم فوراً حضرت غوث الاعظم عبدالقادر سید العارفین کی خدمت میں جاؤ۔ میں یہ سن کر فرطِ خوشی سے بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو اپنے آپ کو بغداد میں پایا۔ بڑی مسرّت و فرحت کے ساتھ حضرت غوث الاعظم کی خدمت میں حاضر ہُوا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: مرحبا اے مجذوبِِ خدا ابو عمر جلدی ہی اللہ تعالیٰ تجھے ایک مرید عبدالغنی بن ثقفہ عطا کرے گا۔ اولیاء میں اس کا بلند مرتبہ ہوگا۔ بڑے بڑے ولی اللہ اس کی ارادت پر فخر کریں گے۔ پھر میرے سر پر طاقیہ رکھا جس کی ٹھنڈک اور فرحت میرے دماغ تک پہنچ گئی اور عالمِ ملکوت مجھ پر منکشف ہوگیا۔ میں نے سنا کہ تم دُنیا اور جو کچھ اس میں ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنی اپنی زبان میں بیان کر رہا ہے۔ قریب تھا کہ میری عقل زائل ہوجائے۔ حضرت شیخ کے ہاتھ میں ایک پارۂ پنبہ تھا، مجھ پر پھینکا اور میرے سینے پر ہاتھ رکھا میری عقل درست ہوگئی۔ پھر کچھ عرصہ تک مجھے خلوت نشین رکھا اور میری تکمیل کی۔ تیس سال کے بعد عبدالغنی ابنِ ثقفہ میرے پاس آیا اور حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر خرقہ پایا اور میرے خلفاء میں سے ہوا۔ ابنِ ثقفہ کی بابت حضرت غوث الاعظم نے جیسا فرمایا تھا میں نے اسے ویسا ہی پایا۔ ۵۷۵ھ وفات پائی۔
قطعۂ تاریخِ وفات:
بو عمر مخزنِ نورِ خدا! |
|
شد چو در خلدِ بریں منزل گزیں |