حضرت شیخ ابو العباس الدمنہوری علیہ الرحمۃ
دمنہور مصر میں ایک موضع ہے۔ایک سوداگر کہتا ہے کہ میں سفر میں تھا۔میرے پاس ایک چارپایہ تھا۔جس پر میرا سب اسباب تھا۔جب میں مصر میں آیا اور لوگوں سے ملا"تو وہ چارپایہ گم ہوگیا۔ہر چند تلاش کیا نہ ملا۔ایک میرے دوست نے کہا"کہ شیخ ابو العباس دمنہوری کے پاس جاؤ"شاید کہ دعا کریں"اور میں بھی اس سے پہلے ان کو پہچانتا تھا۔تب میں ان کے پاس گیا"اور سلام کہا۔اپنا حال بیان کیا۔انہوں نے میری بات کا کچھ خیال نہ کیا"لیکن کہا کہ ہمارے مہمان آگئے ہیں۔اس قدر آنے کی ضرورت ہے" اور اتنا گوشت اور دیگر ضروریات کا ذکر کیا۔تب میں آپ کےسامنے سے نکل کر باہر آیا"اور میں نےدل میں کہا کہ واللہ پھر کبھی ان کے پاس نہ جاؤں گا۔یہ درویش سوائے اپنے مطالب کے اور کچھ نہیں جانتے۔پس اس نیت پر چل دیا۔اتفاقاً ایک شخص مجھ کو ملا کہ جس کے پاس میرا نکلتا ہے وہ دے دے۔اس نے مجھے ساٹھ درم دیئے۔میں نے کہا کہ ان درموں سے بیوپار کرتا ہوں یا تو جو کچھ گیا ہے وہ آگیا یا یہ بھی اللہ تعالٰی کی راہ میں چلا جائے۔جو کچھ شیخ نے کہا تھا" وہ میں نے خرید لیا"اور چند درم بڑھ گئے توان سے کچھ حلوا خرید لیا"اور سب سامان ایک مزدور کے سر پر اٹھا کر شیخ کی خدمت کا فیصلہ کیا۔جب شیخ کے حجرہ کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میرا جانور شیخ کے حجرہ کے دروازہ پر کھڑا ہے۔میں نے دل میں کہا"یہ جانور میرا نہ ہوگا"بلکہ اس کاہم شکل ہے۔جب میں اور قریب پہنچا تو پہچان لیا کہ یہ میرا ہی جانور ہے"اور میرا سامان ویسا ہی اس کی پیٹھ پر لدا ہوا ہے۔میں نے کہا کہ اس کو کسی کے سپرد کروں یا اپنے ساتھ شیخ کے حجرہ تک لے جاؤں کہ کہیں پھر گم نہ جائے۔پھر میں نے کہا کہ جس نے اس کو سلامتی کے ساتھ مجھ تک پہنچا دیا"وہ میرے لیے اس کو نگاہ رکھے گا۔میں شیخ کی خدمت میں آیا اور جو کچھ لایا تھا وہ حاضر کردیا۔جب حلوا تک نوبت پہنچی تو شیخ نے پوچھا یہ کیا ہے؟میں نے کہا"کچھ درم زائد بچے تھے۔ان کا حلوا لے آیا۔کہا کہ یہ شرط میں داخل نہ تھا۔میں بھی کچھ زاید کرتا ہوں۔اٹھ اور اپنا مال بازار میں لے جا اور بیچ۔جلدی نہ کرنا،اور جو کچھ بیچے ۔فی الحال اس کی قیمت لے لے۔اس سے نہ ڈرنہ کہ اور سوداگر آکر تمہارےنرخ کو توڑدے گے۔دریا میرے دائیں ہاتھ میں ہے،اور جنگل میرے بائیں ہاتھ میں۔تب میں بازار میں گیا اور تمام مال زائد قیمت مقررہ سے بیچ ڈالااور تمام مول لے لیا۔جب میں فارغ ہوا تو سودا گر سمندروں اور جنگلوں سے ٹوٹ پڑے۔چنانچہ تم کہو کہ پہلے قید خانہ میں تھےاور اب ان کو آزاد کردیا گیا ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)