حضرت شیخ ابوا لحسن علی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: علی بن عبداللہ۔کنیت:ابوالحسن۔لقب:امام الاولیاء،قطب الزمان،بانیِ سلسلہ عالیہ شاذلیہ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:شیخ سید ابوالحسن علی شاذلی بن سید عبداللہ بن سید عبدالجبار بن سید یوسف بن سید یوشع بن سید برد بن سید بطال بن سید احمد بن سید محمد بن سید عیسیٰ بن سید محمد بن سید امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا علی المرتضی ٰ کرم اللہ وجہہ الکریم۔رضی اللہ عنہم۔اس لحاظ سے آپ حسنی سید ہوئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت593ھ،مطابق 1197ء،کوبمقام قصبہ"غمار"مراکش،مغرب میں ہوئی۔وہاں سےقصبہ"شاذلہ"تیونس
کی طرف رہائش اختیار کی ،اسی کی نسبت سے"شاذلی"کہلاتےہیں۔
تحصیلِ علم: ابتدائی بنیادی تعلیم اورحفظ قرآن مجید اپنےقصبے"غمارہ"میں حاصل کی،پھرشاذلہ میں تحصیلِ علم کیا۔شاذلہ سے"فاس"کی طرف مزید حصول علم کےلئےسفرکیا۔یہاں تمام علوم شرعیہ اور فقہ مالکی کی تحصیل فرمائی،فقہ اورعربی ادب کےاساتذہ میں شیخ نجم الدین بن اصفہانی کانام آتاہے،اورعلم الاخلاق وتزکیہ کی تحصیل صوفی ِکبیر عبداللہ بن ابوالحسن بن حرازم تلمیذ رشید سیدی ابومدین غوث علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔پھر آپ عراق تشریف لائے اس وقت عراق علوم اسلامیہ کامرکزتھا،یہاں مختلف شیوخ سےتحصیل ِعلوم کیا،آپ علیہ الرحمہ تمام علوم ظاہرہ میں کمال رکھتےتھے۔شیخ ابن عطاء اللہ سکندری فرماتےہیں: آپ علیہ الرحمہ کوتمام علوم وفنون پرایسا کمال حاصل تھا کہ آپ اس فن کےماہرسےمناظرہ جیت سکتےتھے۔
بیعت وخلافت: آپ علیہ الرحمہ قطب الاقطاب سیدنا عبدالسلام بن مشیش علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اورمجاہدات وسلوک کی منازل طےکرنےکےبعدخلافت واجازت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: قطب الزمان،قدوۃ الانام،صاحبِ علم الہدایۃ،مشار الیہ باالولایۃ،بدرالمغرب،قمرالمصر،صاحبِ فیوضات کثیرہ،بانیِ سلسلہ عالیہ شاذلیہ،صاحبِ حزب البحر،ولی بروبحر،شیخ العارفین،سندالواصلین،امام المتوکلین،سیدالمحققین،صاحبِ معارف اسرارربانی حضرت شیخ ابوالحسن علی الشاذلی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کاشمار اس امت کےاکابراولیاء کرام میں ہوتاہے۔آپ علیہ الرحمہ کاسلسلہِ فیض مشرق ومغرب میں عام ہے۔بڑے بڑےاولیاء وصلحاء وعلماء آپ کےسلسلہ میں داخل ہوکرواصل باللہ ہوئے۔آپ علیہ الرحمہ اپنےوقت کےقطب تھے۔اللہ جل شانہ نے آپ کوایسامقام وعظمت عطاء فرمائی تھی،کہ ایسی عظمت ورفعت بہت کم لوگوں کےحصےمیں آئی ہے۔
آپ علیہ الرحمہ فرماتےہیں: میں نےبغداد کاسفرکیا تاکہ وہاں مشائخ کی صحبت حاصل کروں،میں نےبہت مشائخ کی زیارت کی،اوران سےملاقاتیں ہوئیں،اور حضرت شیخ ابوالفتح واسطی جیسا مردِ کامل میں نےسرزمینِ عراق میں نہیں دیکھا۔ایک دن میں شیخ ابوالفتح واسطی کی مجلس میں حاضرتھا، اورقطب زمان کی بحث ہورہی تھی،اورعراق میں کثیر اولیاء اللہ تھے،اورمیراخیال یہ تھا کہ عراق میں ہی قطب الوقت موجودہوگا،اورشیخ ابولفتح واسطی کےاشارےسےہم ان کی زیارت سےشرف یاب ہوجائیں گے۔فرماتےہیں:حضرت شیخ ابوالفتح میرےارادےسےمطلع ہوگئے اورآپ کومخاطب کرکےفرمایا: اے ابوالحسن! تم عراق میں قطب کوتلاش کررہےہو؟ حالانکہ وہ توتمھارےعلاقےمیں تشریف فرماہیں،ان کااسم گرامی ہے"شیخ عبدالسلام بن مشیش"۔
آپ فرماتےہیں:میں عراق سےاپنےعلاقے کی طرف روانہ ہوا،حضرت شیخ قطب عبدالسلام بن مشیش رضی اللہ عنہ "مغارہ" میں پہاڑ کےاوپر تشریف فرماتھے۔میں نےغسل کیااوراپنےعلم وعمل کودل سےنکال دیا۔(کیونکہ بھرےہوئے برتن میں کچھ نہیں سماتا)۔میں بشکل فقیر آپ کی بارگاہ میں حاضرہوا۔جیسےمیں آپ کی خدمت میں حاضرہوا ،آپ نےفرمایا:مرحبا!اے ابوالحسن علی بن عبداللہ بن الجبار،حضرت شیخ نےمیراسلسلہ نسب رسو ل اللہ ﷺ تک بیان فرمادیا۔پھرارشادفرمایا:اےعلی!تم علم وعمل اورشاہانہ لباس سےآزادہوکرفقیرانہ لباس میں آئےہو،ہم تمہیں دنیاوآخرت میں غنی کردیں گے۔پھر میں حضرت کی صحبت میں کچھ دن رہاآپ کے فیض صحبت سےمیراقلب ودماغ روشن ہوگیا۔
حضرت شیخ ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:ایک دن میں حضرت شیخ عبدالسلام علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضرتھا۔آپ کی گودمیں ایک چھوٹابچہ بیٹھاہواتھا۔میرے دل میں خیال پیداہواکہ حضرت سے اسم اعظم کاسوال کروں،وہ بچہ کھڑاہوا،میرےرومال کو پکڑلیا اورکہا:اےابوالحسن!کیاتم شیخ سےاسم اعظم پوچھنا چاہتےہو؟تم جس اسم ِاعظم کا سوال کرناچاہتےہو،وہ توتم خودہو۔(یعنی اللہ جل شانہ تمھارےشیخ کی برکت سےتمھارےدل میں القاء کردےگا،یایہ ہےکہ تمھاری شان یہ ہےکہ تم جوسوال کروگےردنہیں کیاجائےگا)۔حضرت شیخ عبدالسلام مسکرائے اورفرمایا:اس بچےنےہماری طرف سےجواب دیاہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ فرماتےہیں:میں نےرسول اللہ ﷺ کوخواب میں دیکھا،توآپ ﷺ نےارشادفرمایا:"یا علی طہر ثیابک من الدنس تحظ بمدداللہ فی کل نفس"یعنی اےعلی! اپنےکپڑوں کومیل سےپاک رکھو،تاکہ تم خداکی مدد سےہردم کامیاب رہو۔میں نےعرض کیایارسول اللہ ﷺکون سےکپڑےصاف رکھوں۔آپ ﷺ نےارشادفرمایا: اللہ جل شانہ نےتم کوپانچ خلعتیں پہنائی ہیں۔اول:خلعت ِ محبت۔دوم:خلعتِ معرفت۔سوم:خلعتِ توحید۔چہارم:خلعت ِ ایمان۔پنجم:خلعتِ اسلام۔پھرارشادفرمایا:جوشخص اللہ جل شانہ پر ایمان لاتاہے،اوراسی کودوست رکھتاہے،اس پرہرچیز آسان ہوجاتی ہے۔جوشخص اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتاہے،اس کی نظرمیں دنیا ومافیہا حقیر ہوجاتی ہے۔جواللہ تعالیٰ کوایک مانتاہے،اوراس کےساتھ کسی کوشریک نہیں کرتا تووہ ہرچیز سےبےخوف ہوجاتاہے۔جواسلام پرہووہ گناہ کرتےہوئے شرماتاہے،اگرگناہ کرلےتو وہ توبہ کرلیتاہے،اوراللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتاہے۔
شیخ ابوالحسن شاذلی علیہ الرحمہ ہرسال حج کرتےتھے۔ماہ شوال /656ھ میں مصر سے حج کےلئےتیارہوئے۔جب"صحرائے عیذاب" کےمقام پرپہنچے تواپنےاصحاب کوجمع کیا،انہیں تقویٰ،دین داری،اورحزب البحر کی تلقین کرتےہوئےفرمایا:"بان یحفظوہ لاودھم فانہ فیہ اسم اللہ الاعظم"یعنی اپنی اولادوں کوحزب البحر حفظ کرواناکیونکہ اس میں اسم الاعظم ہے۔پھر شیخ ابوالعباس مرسی علیہ الرحمہ کوبلایا،اورانہیں برکتوں سےمالا مال کیا۔پھر اپنے اصحاب سےفرمایا:میرےبعد تم پرمیرےخلیفہ شیخ ابوالعباس مرسی کی اتباع لازم ہے۔ان کا بہت بڑامقام ہوگا،اوریہ اللہ جل شانہ کے(رحمت کے)دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں۔پھر آپ نے قریبی کنویں کاپانی طلب کیا،عرض کیاگیا اس کاپانی کھاراہے،آپ نےفرمایا لےکرآؤ،جب پانی لایاگیا آپ نےکلی کی اوراپنادھوون برتن میں ڈال کرفرمایا اس کو کنویں میں ڈال دو، آپ کی برکت سےوہ کھاری کنواں میٹھاہوگیا،اوراس کاپانی کثیرہوگیا۔حضرت شیخ احرام کی حالت میں تھے،دورکعت نفل کی نیت کی آخری سجدےمیں واصل باللہ ہوئے۔قیامت تک حج کاثواب ملتا رہےگا۔
حضرت شیخ مکین الدین اسمر فرماتےہیں: بہت سےحضرات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتےہیں،اورشیخ ابوالحسن اللہ تعالیٰ تک پہنچاتےہیں۔شیخ تقی الدین بن دقیق العید فرماتےہیں:میں نےامام شاذلی سےبڑاعارف باللہ نہیں دیکھا۔شیخ عبداللہ شاطبی فرماتےہیں:میں خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی دولت سےشرف یاب ہوا میں نےامام شاذلی کےبارےمیں رسول اللہ ﷺسےدریافت کیا،تورسول اللہﷺنےارشادفرمایا:" ابولحسن تومیرا حسی ومعنوی بیٹاہے"۔آپ کابہت بڑامقام ہےعلماء اسلام نےآپ کی تعریف وتوصیف میں بہت کچھ لکھاہے۔اس وقت آپ کےسلسلےکافیضان شرق وغرب میں عام ہوچکاہے۔آپ کی دعائے حزب البحر کےطفیل بہت سےلوگ واصل باللہ ہوئے ہیں،اورانشاء اللہ قیامت تک ہوتے رہیں گے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 20/ذوالقعدہ 656ھ،مطابق 18/نومبر1258ءبروزپیر،63سال کی عمر میں ہوا۔آپ کامزاروادیِ "حمیثرا" مصرمیں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: امام ابوالحسن شاذلی حیاتہ وخدماتہ۔رحلہ حج شیخ ابوالحسن الشاذلی۔نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ۔نفحات الانس۔