حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:سید آدم بنوری۔کنیت: ابوعبداللہ۔لقب:معزالدین۔والد کااسم گرامی:سید اسماعیل۔آپ کاخاندانی تعلق ساداتِ کرام سے ہے۔آپ کاسلسلۂ نسب 29 واسطوں سےحضرت امام موسیٰ کاظم تک منتہی ہوتاہے۔آپ کی والدہ محترمہ افغانیہ تھیں۔نانی سیدہ تھیں لیکن افغانستان کی رہنے والی تھیں اس لئے انہیں افغانیہ سمجھاتا جاتا تھا۔آباؤ اجداد کاتعلق بغداد ِمعلیٰ سے تھا۔تبلیغِ اسلام کی غرض سےعراق سےہجرت کرکےہندوستان وارد ہوئے۔(علماء ہند کاشاندار ماضی:277/انسائیکلوپیڈیا)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 912ھ مطابق 1506ء کوقصبہ ’’بنور‘‘ریاست پٹیالہ (انڈیا)میں ہوئی۔
ولادت سےقبل بشارت: سید آدم بنوری فرمایا کرتےتھے۔کہ والدماجد نےخواب میں دیکھا کہ سرور عالمﷺ تشریف لائے ہیں۔سینۂ مبارک پردست مبارک پھیرا۔کوئی چیز نکال کر والد صاحب کو عطاء فرمائی اور حکم فرمایا کہ کھالو والد صاحب نےکھالی۔اسی شب استقرار حمل ہوا۔آپ فرمایا کرتےتھے کہ مجھے بتایاگیا ہے کہ میرا وجود سرورعالمﷺ کےاسی عطیہ مبارکہ سےہے۔(علماء ہندکاشاندار ماضی حصہ اول:277)
تحصیلِ علم: آپ مادر زاد ولی تھے۔اس لئے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ایک روز ایک آواز سنی ’’آدم تم نے قرآن مجید کیوں نہیں پرھا۔آپ نے ہاتف غیبی کےجواب میں عرض کیا۔خداوندا!تو قادرِ مطلق ہے،اگر چاہے تو اسی وقت حافظ ِ قرآن بنادے۔چنانچہ اسی وقت حفظ قرآن کی دولت عطاء ہوگئی۔ اس کےبعد علوم ظاہری کی مولانا کمال کشمیری استاد گرامی حضرت مجدد،ومولانا عبدالحکیم سیالکوٹی سے تکمیل فرمائی۔‘‘(ایضاً:278)
بیعت وخلافت:ابتداءً حضرت مجدد کےخلیفہ حضرت حاجی خضر کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے۔مگرقلیل عرصےمیں ہی بفضلِ خداوندی وہ مقامات واحوال پیش آئے جن کی راہنمائی شیخ کےاحاطہ تکمیل سےخارج تھی،حضرت حاجی صاحب نےآپ کوحضرت مجدد کی خدمت میں بھیج دیا۔تھوڑے ہی عرصے میں مراتب علیا پر فائز ہوکر خلافت وخرقۂ مجددی سے فیض یاب ہوئے۔قادری،چشتی،سہروردی،شطاری،اورمدامی سلسلوں میں اجازت وخلافت عطاء ہوئی۔حضرت مجدد کی برکت سےآپ قطب الاقطاب اورفخرالزماں مشہور ہوئے۔
سیرت وخصائص:قطب الاقطاب،فخرالزماں،صاحبِ فضائلِ کثیرہ،ولی کامل،خلیفۂ حضرت مجدد،جامع شریعت وطریقت،واقف اسرار حقیقت،حامی سنت،ماحی بدعت حضرت شیخ سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ مادر زاد ولی کامل عارف بااللہ تھے۔حسبی ونسبی شرافت کےساتھ ساتھ عبادت وریاضت تقویٰ وفضیلت میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت شیخ آدم بنوری اتباع سنت اور دفع بدعت میں مشہور تھے۔ فقراء کو اغنیاء پر ترجیح دیتے تھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آپ کا خاص مشرب تھا۔ آپ حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے اکابر خلفاء میں سے تھے۔شیخ آدم بنوری تربیت مریدین میں بے نظیر تے۔ تھوڑی سی توجہ سے طالبان حق کو لطائف ستہ میں سے ہر لطیفہ میں مرتبہ فناء تک پہنچادیتے تھے۔ اور آپکی صورت دیکھتے ہی طالبان حق کو ذکر قلبی حاصل ہوجاتا تھا۔ آپ کی خانقاہ معلیٰ میں ایک ہزار طالبان حق کااجتماع ہروقت رہتاتھا۔حضرت شیخ کالنگر فقراء کےلئے عام تھا۔
آپ کےایک مرید شیخ محمد فرماتےہیں:ایک مرتبہ قحط ہوگیا۔غلہ مہنگاہوگیا۔خانقاہ کےمعاملات میں دشواری پیش آنےلگی۔خدام نےحضرت کی خدمت میں عرض کیا۔ایک مٹکا جس میں تھوڑا سا غلہ تھاآپ نےفرمایا اس کو اونچی جگہ پہ رکھ دو اور اس کامنہ بندکردو،اور اس کےتلی میں سوراخ کردو،اور بقدرِ ضرورت اسی میں سےغلہ نکالتے رہو۔اس کامنہ نہیں کھولنا۔انشاء اللہ برکت ہوگی۔چھ ماہ متواتر اسی سےغلہ اسی طرح لیاجاتارہا اورخانقاہ کےمعاملات ولنگر میں کوئی کمی نہیں آئی۔اور چھ ماہ بعدزمانۂ قحط ختم ہوگیا۔جب مٹکے کامنہ کھولاگیاتو اس میں جتنا غلہ پہلے تھا اتناہی اب بھی تھا۔(ایضاً:279)
آپ کی مجلس نمائش وشہرت سےپاک،ثروت اور دولت سےبےنیاز،امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی درس گاہ تھی۔امراء واغنیاء سےبےنیازی،اورفقراء ومساکین سےنیازمندی،بڑےبڑےامراء و وزراء آپ سےمرعوب ہوجاتے،بہت کم کلام کرتےتھے۔آپ کےمریدین کی تعداد چار لاکھ تک تھی۔حضرت مجدد کی برکت سے آپ کوبشارت دی گئی کہ جوآپ کےطریقےمیں داخل ہوگا۔مرحوم ومغفورہوگا۔قیامت کےدن ظل محمدیﷺ میں سایۂ عاطفت ورحمت آرام ملےگا۔(ایضا:279)
اللہ کےشیروں کوآتی نہیں روباہی: جب حضرت شیخ آدم بنوری لاہورتشریف لائے توآپ کےساتھ مریدین کی کثیر تعدادتھی،زیادہ ترافغانی وپختون تھے۔اتفاقاً ان دنوں شاہ جہاں کےافغانوں کےساتھ تعلقات خوشگوارنہیں تھے۔آپ جہاں بھی تشریف لےجاتے ویرانہ بھی شہر کامنظر پیش کرتاتھا۔لاہور میں اتنےبڑےاجتماع کومشیران ِ حکومت نےتشویش کی نگاہ سےدیکھا۔مشیران ِ شاہی کےمشورےسےبادشاہ نےمولانا سعد اللہ وزیر اعظم اورمولانا عبدالحکیم سیالکوٹی علیہماالرحمہ کوحضرت شیخ کی خدمت میں بھیجا،یہ دونوں اپنےوقت کےمتبحر فاضل تھے۔جب یہ دونوں ارکانِ حکومت حضرت شیخ کی قیام گاہ پرپہنچےتوآپ مراقبےمیں تھے۔کافی دیر دروازےپرانتظارکرتےرہے۔جب شیخ مراقبےسےفارغ ہوئےیہ حجرےمیں داخل ہوئے شیخ نےرسمی تعظیم بھی نہ کی۔علامہ سعد اللہ نےفوراً اعتراض کردیا میں دنیادار آدمی ہوں میری تعظیم ضروری نہیں،مگر مولانا عبدالحکیم ایک عالم وفاضل ہیں ان کی تعظیم توضروری تھی۔
حضرت شیخنےفرمایا:احادیث میں ہےعلماء اس وقت تک دین کےامین ہیں جب تک امراء وحکام سے اختلاط نہ کریں۔اس وقت ان کی تعظیم بھی لازم ہوگی۔ بادشاہوں سےاختلاط کےبعد وہ ڈاکو ہوجاتے ہیں۔یہ بات ان کوناگوار گزری۔انھوں نےبادشاہ سےجاکر کہاہےتومعمولی فقیرلیکن دعوےبڑےبڑےکرتاہے اور اس کےساتھ افغانوں کاجم غفیر کسی بھی وقت نقص امن کاخدشہ پیداہوسکتاہے۔بادشاہ نےمتاثر ہوکر حجازتشریف لےجانےکاحکم صادرکردیا۔حضرت شیخ فوراً روانہ ہوگئے۔سورت بندرگاہ پہنچ گئے۔حضرت شیخ کی روانگی کےبعد شاہ جہاں نےخواب دیکھا کہ حکومتِ شاہ جہاں کابقاء اسی وقت تک ہے جب تک شیخ آدم ہندوستان میں ہیں۔خواب سےمتوحش ہوکر بادشاہ نےحاکم سورت کےپاس حضرت شیخ کےروک لینے کاحکم بھیجا۔مگرشیخ روانہ ہوچکے تھے۔
بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں اجابت: حج بیت اللہ کےبعد مدینۃ المنورہ کاقصدکیا۔جب روضۂ سرکارﷺپر حاضر ہوئے،اور سلام عرض کیا۔تومرقدِ اطہر سےدودست مبارک ظاہرہوئے،تمام حاضرین ا ور رفقاء بھی زیارت سےمشرف ہوئے۔حضرت شیخ وفور عشق سےآگےبڑھ کریداللہ کی شان والےہاتھوں کامصافحہ کیا اور بوسہ دیا۔پھرآپ کوبارگاہِ رسالتﷺسےبشارت دی گئی۔’’یاولدی انت فی جواری‘‘۔فرزندِ من!تم میرےجوار میں رہوگے۔پھر حرمین میں آپ کی ایسی شہرت ہوئی کہ لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں آنے لگے۔بالخصوص حصول ِ برکت کی خاطر آپ سےمصافحہ کےلئےلوگوں کاہجوم رہنےلگا۔تاکہ ان ہاتھوں سےہماراہاتھ مس جائے جن سےرسول اللہﷺ کاہاتھ مس ہوا ہے۔پھر حضرت شیخ کومصافحے کےلئےخاص انتظام کرناپڑا۔(ایضا:285)
تاریخِ وصال: 13/شوال المکرم 1053ھ مطابق 25/دسمبر1643ء کومدینۃ المنورہ میں وصال ہوا۔جنت البقیع میں حضرت عثمان غنی کےجوارمیں دفن ہوئے۔حضرت ذوالنورین کےروضہ مبارک کاسایہ شیخ آدم کی قبر پرپڑتارہتاتھا۔اب تونجدیوں نےتمام شعائر اللہ کومٹادیا ہے۔اپنےلئےعالی شان اورپرتعیش محلات جائز کرلئےہیں۔خذلہم اللہ فی الدنیا والآخرہ۔
ماخذومراجع: علماء ہندکاشاندارماضی۔انفاس العارفین۔انسائیکلوپیڈیا۔