حضرت شیخ عفیف الدین تلسانی علیہ الرحمۃٰ
آپ کا نام سلیمان بن علی ہے۔بعض متعقب فقہاء نے ان کی طرف زندقہ الحاد کی نسبت کی ہے۔وجہ اس کی یہ لکھی ہے کہ لوگوں نے ان کو ایک بار کہا" انت نصیر بعض منی یعنی نصیر تو میرا ہی جزو ہے اور صوفیہ کی اصطلا حات کے عالم پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ان کے مقامات میں سے ایک مقام جمع ہے کہ اس مقام کا صاحب وجود کے تمام اجزا کو اپنے اجزاء و تفصیل دیکھتاہے اور سب کو اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے۔جیسا کہ کہتے ہیں۔
خبردرویش است جملہ نیک وبد
ومن اشعارہ المشعرۃ بذلک۔
فی طور کل حقیقۃ لی مسلک ولکل مرتبۃ وذوق اسلک
ان دارت افلاک من حولی فبیوعلی دور محیطھا یتحرک
یعنی ان کے اشعار میں سے جو اس کی طرف خبر دیتے ہیں"یہ ہیں۔ہر حقیقت کے طور پر میرا مسلک ہے اور ہر مرتبہ وذوق میں چلتا ہوں"اگر آسمان میرے گرداگرد چکر لگائیں گے۔پس میرے ساتھ اور مجھ پر اس کے محیط کا دور حرکت کرتا ہے اور یہ جو انہوں نے النصیر بعض منی کہا ہے۔ممکن ہے کہ اس معنی میں ہو۔خواہ تحقیق کے طور پر یا تقلید کے طور ہر اپنی کتاب"منازل السائرین" کی"جو شیخ الاسلام ابو اسمٰعیل عبد اللہ ہروی کی تصنیف ہے۔عمدہ شرح لکھی ہے۔جس شخص کو ان صوفیہ کے مشرب کی تھوڑی سی چاشنی بھی ہے۔وہ جانتا ہے کہ ان کی باتیں اکثر قواعد علم و معرفت اور ذوق و جدان کی خصوصیت پر مبنی ہیں۔ایسا ہی ان کا ایک دیوان ہے کہ جو بڑا لطیف و شریں ہے۔جو شخص اس کا مطالعہ کرتاہے۔جانتا ہے کہ جھوٹ کے چشمہ سے کبھی ایسا میٹھا پانی صاف جوش نہیں مارا جاتا اور خبیث درخت سے کبھی ایسا عمدہ میوہ پیدا نہیں ہوا کرتا۔"شرح منازل السائرین" میں مقام رضا کے درجہ ثالثہ میں لکھتے ہیں۔وفد ذقت ھذا المقام والحمدللہ وفحققت صحبتہ لی فی ثلث مواطن اولھااننی اشرفت علی اقتل بسیوف الفرنج خذالھم اللہ تعالیٰ فنظرت فی قلبی قلم اجد عندہ تفاوتا عن الحیوۃ والموت رضی بحکم اللہ تعالیٰ بغلۃ سلطان المحبۃ ولموطن الثانی التی اشرفت علی الغرق فنظرت الی قلبی فاریت تفاف وتابین الحیوۃ والموت رضی بحکم اللہ تعالیٰ والموطن الثالث قیل لی احذر من طریق الصوفیۃ لان فیھا امور انزل القدم فیھا فنظرت الی قلبی وصحبت عقد الرضی مع ربی وقلت اعرض بعد الاقبال و اخاف مع صحۃ محبتی اللہ تعالیٰ من افضال ففاضت عینائی من الدموع وسرت فی وجودی نشرہ الخضوع والشوخ واخذتنی حالۃ وجد کدت فیھا ان فارق نفسی بعد عنان غیبۃ حسی فلما انفصلت نطمت ارتجالا۔
انافی عنان ارادۃ المحبوب اجری لا مھالہ امی الی محض الھوی طوعا واما للضلالۃ
متی احب احبہ انا عبدہ فی کل خالقہ قمن اشارہ شھدت نفسک فینا وھی واحدۃ کثیر ۃ ذات اوصاف واسماء ونحن فیک شھدنا بعد کثیر تنا عینا بھا اتحد المرئی اوالرائی یعنی میں نے چکھا،اس مقام کو اور خدا کی تعریف ہے۔اس مقام کا حصول مجھ کو تین موقعوں پر ہوا۔پہلا موقع یہ تھا کہ میں فرنگ کی تلواروں سے خدا ان کو رسوا کرے،قتل ہونے کا تھا۔تب میں نے اپنے دل میں دیکھا تو اس کے نزدیک زندگی و موت میں کچھ فرق نہ دیکھا۔کیونکہ وہ خدائے تعالیٰ کے حکم سے بوجہ غلبہ محبت راضی تھا۔دوسرا موقع یہ تھا کہ میں دوبنے لگاتھا۔تب میں نے اپنے دل کو دیکھا تو پھر بھی زندگی موت میں خدا کے حکم کی رضامندی کی وجہ سے کوئی فرق نہ پایا۔تیسرا موقع یہ تھا کہ مجھ سے کہا گیا،صوفیوں کے طریق سے ڈرتے رہیو۔کیونکہ اس میں ایسے کام ہیں جس میں قدم پھسلتا ہے۔تب میں نے اپنے دل کو دیکھا تو اپے رب کے ساتھ رضا کی گرہ کو درست کرلیااور میں نے کہا کہ یہ کیا میں خدا کی طرف متوجہ ہو کہ کنارہ کروں گااور باوجود خدا کی سچی محبت کی گمراہی کے خوف سے ڈروں گا۔تب میری آنکھوں سے آنسوں نکل آئے اور میرے وجود میں خشوع خضوع کا نشہ سرایت کرگیااور وجد کی حالت میں پیدا ہوگئی۔قریب تھا کہ بےہوشی میں میری جان نکل جائے۔پھر جب مجھے ہوش آیاتو میں نے فوراًیہ نظم کہی۔یعنی میں محبوب کے ارادہ کی باگ میں ضرور چلتا ہوں یا محج محبت کی طرف سے خوشی سے اور یا گمراہی کی طرف جب میں اس کو درست بناتا ہوں تو اس حالت میں کہ میں اس کا ہر حال میں بندہ ہوں اور اس کے اشارات میں سے ہیں۔یعنی تیرے نفس نے ہم میں مشاہدہ کیا۔حالانکہ کہ وہ ایک ہے۔جس سے بہت سے اوصاف اور اسماء ہیں اور ہم تجھ میں دیکھتے ہیں۔اپنی کثرت کے بعد کہ جس میں دیکھی ہوئی،چیز اور دیکھنے والا ایک ہوجاتے ہیں۔شیخ عفیف الدین ۶۹۰ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)