حضرت شیخ احمد نہروانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ قاضی حمیدالدین ناگوری کے مشہور خلیفہ تھے۔ بڑے بلند پایہ بزرگ اور اسرارِ حقیقت کے واقف تھے، حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کسی کو بہت کم پسند فرمایا کرتے تھے مگر حضرت شیخ نہروانی کے متعلق فرمایا کرتے کہ شیخ احمد نہروانی صوفیوں کے منبع ہیں، شیخ نظام الدین اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ جس مجلس سماع میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا انتقال ہوا اُس میں شیخ احمد نہروانی بھی موجود تھے، شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ احمد نہروانی بافندگی کرتے تھے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کام کے دوران ہی اُن پر ایسی کیفیت طاری ہوتی کہ اپنے آپ ہی غائب ہوجاتے، کام سے دستبردار ہوجاتے لیکن خود بخود کپڑے بنتے جاتے۔
ایک دن قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ احمد نہروانی کو ملنے کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت شیخ کھڈی پر بیٹھے کپڑا بن رہے تھے اپنے پیر و مرشد سے وہاں ہی ملاقات ہوئی وداع کے وقت قاضی حمیدالدین نے فرمایا ’’احمد اصل کام چھوڑ کر کب تک اس کام میں لگے رہو گے تمہیں کوئی اچھا کام کرنا چاہیے یہ کام اللہ کے بندوں کا نہیں ہے اسے چھوڑ و اور اپنا کام کرو جو تمہارے کسی کام آئے، اس کام سے تو بے کار ی بہتر ہے‘‘۔ قاضی حمیدالدین رخصت ہوئے تو حضرت شیخ احمد اٹھے اور ایک موٹی سی لکڑی کو ہاتھ میں لیا تاکہ میخ کو ٹھونک سکیں کیونکہ اُس میخ سے آپ کی کھڈی کی رسیاں ڈھیلی پڑ گئی تھیں جونہی آپ نے وہ لکڑی میخ پر ماری تو آپ کے ہاتھ پر آلگی ہاتھ ٹوٹ گیا اور اس کام سے بے کار ہوگئے اور اب دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے لگے، آپ کی وفات چھ سو اکسٹھ ہجری میں ہوئی۔
شیخ احمد چوں ز دنیا رخت بست
داخل فردوس شد آں جنتی
سالِ ترحیلش چو گفتم از خرد
گشت احمد مرشد دین منجلی
۶۶۱ھ
------------------------------------------
آپ قاضی حمیدالدین محمد بن عطا، ناگوری کے مریدِ خاص کامل بزرگ تھے اور باعتبار پیشہ کے جولاہے تھے، شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا فرمایا کرتے تھے، اگر کوئی شیخ احمد نہروانی کے مشغول بحق ہونے کا اندازہ لگائے تو دس صوفیوں کے اشغال بالذکر سے کم نہ پائے گا، سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء نے فرمایا جس مجلس سماع میں بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کو خاص واقعہ پیش آیا اس مجلس میں شیخ احمد نہروانی بھی موجود تھے۔
شیخ نصیرالدین محمود چراغ آپ کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ شیخ احمد نہروانی کو کبھی کبھی کرگھے پر کام کرتے وقت حالت وجد طاری ہوجاتی تھی اور اس وجہ سے آپ کپڑا بننا چھوڑ دیتے تھے، لیکن کرگھا چلتا رہتا اور کپڑا خود بخود تیار ہوتا رہتا، ایک دفعہ قاضی حمیدالدین ناگوری (جن کے حالات پہلے گزر چکے) آپ کے ہاں بغرض ملاقات تشریف لائے اور جاتے وقت فرمانے لگے شیخ احمد کب تک اس کام میں لگے رہو گے؟ یہ فرماکر قاضی صاحب تو تشریف لے گئے اور شیخ احمد نہروانی ان میخوں کو کسنے کے لیے اُٹھے جو ڈھیلی پڑ گئی تھیں، ابھی ایک میخ کسنا ہی چاہتے تھے کہ آپ کا ہاتھ ٹوٹ گیا جس پر شیخ احمد نہروانی نے ہندی زبان میں فرمایا کہ پیر قاضی حمیدالدین نے میرا ہاتھ توڑ دیا۔
اس واقعہ کے بعد آپ نے جولاہوں کا پیشہ ترک فرمادیا اور مکمل طور پر یاد الٰہی عزوجل میں مصروف و مشغول ہوگئے، آپ کا مزار بدایوں میں ہے۔
(اخبار الاخیار)
حضرت شیخ احمدنہروانی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ احمدنہروانی اس مجلس سماع میں موجودتھےکہ جس میں قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی (رحمتہ اللہ علیہ )نے وصال فرمایا۔
بیعت و خلافت:
آپ حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری کے مریدہیں۔
پیشہ:
آپ بافندگی کاکام کرتے تھے۔
زندگی میں کایاپلٹ:
آپ کے پیرومرشدحضرت قاضی حمیدالدین ناگوری ایک مرتبہ آپ کے مکان پرتشریف لائے، آپ اپناکام کررہے تھے،اپنےپیرومرشدکی تعظیم بجالائے۔حضرت قاضی جب چلنے لگےتوانہوں نے آپ سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ۱؎
"احمد!یہ کام کب تک کرتے رہوگے"۔
حضرت قاضی صاحب کےتشریف لےجانے کے بعدآپ کاہاتھ میخ پر اتفاقاًجالگا،ہاتھ ٹوٹ گیا، آپ مسکرائےاورفرمایا۔
"اس بوڑھے(قاضی حمیدالدین)نےمیراہاتھ توڑڈال"۔
اس دن سے آپ نے بافندگی کاکام چھوڑ دیا۔دنیاکوترک کرکےیادالٰہی میں مشغول ہوئے۔
وفات:
آپ نے ۶۶۱ھ میں وفات پائی،مزاربدایوں میں ہے۔۲؎
سیرت:
حضرت بہاؤالدین زکریاملتانی(رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں )کہ۔
"اگراحمد کی مشغولی وزن کی جائے تودس صوفیوں کی مشغولی کے برابرہوگی"۔
کرامت:
کبھی کبھی ایساہوتاتھاکہ آپ اپناکام کرتے کرتےازخودرفتہ ہوجاتے تھے،آپ کام بندکردیتے تھے لیکن کپڑابغیرآپ کی امدادکے بنتاجاتاتھا۔
حواشی
ا؎اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)ص۹۳
۲؎اخبارالاخیار(اُردوترجمہ)ص۹۳
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)