آپ شیخ سراج الدین رضی عثمان قدس سرہ کے خلیفہ اعظم تھے۔ ابتدائی زندگی میں بہت خوشحال دنیا دار علماء وقت اور اکابر زمان کی حیثیت سے رہتے تھے مگر جب سلسلہ نظامیہ میں داخل ہوئے تو سب شان و شوکت چھوڑ کر صرف یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ جن دنوں حضرت شیخ سراج الدین رضی حضرت خواجہ محبوب الٰہی سے خرقۂ خلافت پاکر جدا ہونے لگے تو آپ نے آپ کی خدمت میں استدعا کی کہ یہاں ایک عالم دین اور دانش ور مفکر ہے جس سے ہمیں تاب بحث و مناظرہ نہیں ہے مگر وہ عام طور پر مسائل دینیہ پر گفتگو کرنے آجاتاہے آپ نے فرمایافکر نہ کرو وہ ایک دن آپ کا مرید ہوجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں کہ علاء الدین صحیح النسب قریشی تھے۔ آپ کا نسب نامہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے کہتے ہیں کہ شیخ رضی سراج قدس سرہ کے یہاں آنے سے پہلے بڑے متکبرانہ انداز میں رہا کرتے تھے اور دولت و احتشام میں گزر کیا کرتے تھے آپ کی یہ بود و باش اور جاہ و جلال کی خبریں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کو پہنچیں تو آپ نے غصے میں فرمایا کہ میرا پیر گنج شکر ہے اور وہ مصری کا خزانہ ہے مگر تکبر کی بوتک نہیں یہ شخص اپنے آپ کو گنج شکر سے بھی اعلیٰ اور برتر خیال کرتا ہے یا اللہ اس کی زبان کو لگام دے کہتے ہیں یہ بات کہتے ہی علاء الدین کی زباں گنگ ہوگئی لیکن جب سراج الدین رضی سے بیعت ہوئے تو زبان کھل گئی اور پھر پے درپے زہد و تقویٰ سے بلند مقامات پر پہنچے کہتے ہیں، حضرت اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ اپنی سلطنت کو خیر باد کہہ کر حضرت خضر علیہ السلام کی راہنمائی سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بہت سے مدارج حاصل کیے آپ کے فرزند اور سجادہ نشین نور الدین قطب عالم آپ کی توجہ سے قطب عالم بنے شیخ نصیرالدین مانک پوری آپ کے فیض سے ہی مقامات عالی کو پہنچے، وہ آپ کے ہی مرید تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی برکت سے انہیں ابدالوں میں بلند رتبہ کردیا۔
اخبارالاخیار میں ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ جن دنوں شیخ علاء الدین حضرت شیخ سراج الدین افی قدس سرہ کی خدمت میں سرفراز ہوئے اور دنیاوی خواہشات اور مال و منال سے دستبرداری کا اعلان کیا، وت وہ اپنے پیر و مرشد کے سفر میں ہم سفر رہتے، درویشوں کے لیے طعام پکاکر ساتھ ہوتا، یہ گرم گرم دیگچہ حضرت شیخ علاء الدین سر پر رکھ لیتے اور حضرت کے ساتھ ساتھ چلتے، اس دیگچے کی گرمی سے آپ کے سر کے بال جھڑگئے تھے، حضرت شیخ افی اکثر اوقات ان مقامات سے بھی گزرے جہاں شیخ علاء الدین کے رشتہ دار بڑی شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن آپ ننگے پاؤں اپنے شیخ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے، مگر اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو اس شان و شوکت میں دیکھ کر حضرت علاء الدین پر کوئی دنیاوی تاثر نہ ہوتا اور آپ خوش خوش یہ خدمت سر انجام دیتے رہتے۔
ایک بار حضرت شیخ علاء الدین قدس سرہ کی خانقاہ پر چند قلندر آ پہنچے ان کے پاس ایک بلی تھی جو وہاں آکر گم ہوگئی اور کہیں چلی گئی قلندروں نے حضرت کو کہا کہ آپ کی خانقاہ میں ہماری بلی گم ہوگئی ہے، اسے کہیں سے تلاش کرکے ہمیں دو، آپ نے فرمایا میں کہاں سے تلاش کروں ایک قلندر نے کہا ’’شاخ آہو‘‘ سے تلاش کرو، مگر ہمیں لاکر دو، آپ نے فرمایا تمہیں تو شاخ آہو ہرن کے سینگ سے ہی سزا ملے گی ایک اور قلندر آگے بڑھا اس نے بد زبانی شروع کردی اور کہنے لگا ہماری بلی تو دینی پڑے گی ہم اپنی بلی کہاں سے لائیں کیا ہم اپنے خصیوں سے لائیں آپ نے فرمایا ہاں تمہیں تو تمہارے خصیوں سے ہی ملے گی جب قلندر خانقاہ سے روانہ ہوئے تو سامنے سے ایک طاقتور بیل آ رہا تھا اور جس قلندر نے شاخ آہو سے بلی لانے کو کہا تھا اسے اپنے سینگوں پر اٹھایا اور زمین پر دے مارا اور ہلاک کردیا، جس نے خصیوں سے بلی لانے کو کہا تھا اس کے خصیے اس قدر سوج گئے کہ وہ اسی وقت مرگیا، یہ دونوں قلندر اپنی گستاخی کی سزا کو پہنچ گئے۔
شیخ علاء الدین قدس سرہ کی خانقاہ کا خرچ بہت زیادہ تھا ہزاروں روپیہ روز لوگوں کے کھانے پر خرچ ہوجاتا تھا۔ جو مسافر حاجت مند مقامی یا غیر مقامی آتا، اسے کھانا ملتا، جب یہ خبر بادشاہِ وقت کو ملی تو سخت حیران ہوا کہ ایک درویش اس قدر خرچ کہاں سے کرتا ہے میری سلطنت کا سارا مال شیخ علاء الدین کے دو روزہ خرچ سے بھی کم ہے ایسے فضول خرچ آدمی کو شہر میں رکھنا اچھا نہیں، چنانچہ اس نے حکم دیا کہ شہر سے باہر سنار گاؤں میں سکونت کرلیں چنانچہ حضرت شیخ شہر چھوڑ کر دو سال تک موضع سنار میں قیام پذیر ہوگئے اور اپنے خادموں کو کہہ دیا کہ جس قدر ہمارا خرچ شہر میں ہوتا تھا اس سے دگنا شروع کردو، تاکہ دنیا دار فقیروں کی زندگی پر چلتے رہیں، ظاہری طور پر شیخ کے پاس مال و دولت تو نہ تھا صرف والد کی میراث سے دو باغ ملے تھے۔ ان سے آٹھ ہزار روپیہ آنا تھا، یہ باغ بھی ایک سائل کو بخش دیے لنگر پر جس قدر صرف ہوتا تھا وہ خزانۂ غیب سے آتا تھا۔
اخبارالاخیار شجرۂ چشتیہ اور معارج الولایت کے مولفین نے آپ کی وفات یکم رجب ۸۰۰ھ لکھی ہے، آپ کا مزار پندوہ میں ہے۔
بفردوس معلی شد علاء الدین جواز عالم
برویش زینت تازہ بگلزار جناں آمد
ولی رہبر علاء الحق والدین است تار بخش
دگر والی علاء الحق والملت عیاں آمد
۸۰۰ھ