حضرت شیخ عصمت اللہ نوشاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت حافظ برخوردار کے پسرِ پنجم تھے۔ نہایت بزرگ، عالم و فاضل، فقیرِ کامل، متقی اورعارفِ کامل تھے۔ زہدو اتقا اور عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ تحصیلِ علوم حافظ محمد تقی سے کی تھی۔ ابتداء میں شیخ رحیم داد فرزندِ شاہ سلیمان کی خدمت میں بھی رہے اور فوائدِ عظیم حاصل کیے، اس کے بعد شیخ پیر محمد سچیار قاضی رضی الدین و سیّد شاہ محمد خلفائے حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کی خدمت میں حاضر رہ کر اخذِ فیض کیا۔ آخر میں حضرت شیخ عبدالرحمٰن المعروف بہ پاک رحمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تکمیلِ سلوک کی۔ صاحبِ حال و قال و وجد و سماع تھے۔ طبع عالی پر جذب و استغراق بے حد غالب تھا۔ حالتِ سُکر میں جس پہ نظر ڈالتے تھے وُہ مست و بے ہوش ہوجاتا تھا۔ کشفِ صریح کا یہ عالم تھا کہ گھر میں بیٹھے ہوئے بتادیتے تھے کہ حضرت شیخ فلاں جگہ پر اور فلاں کام کر رہے ہیں۔ حالتِ وجد میں کئی دفعہ بالا خانہ سے گِر کر صحن میں آپڑے مگر کوئی گزند نہ پہنچا۔ جب آپ کے کشف و کرامات کی مشہوری اقصائے عالم میں ہُوئی تو حضرت شاہ محمد غوث (لاہوری) خلف حضرت سید حسن پشاوری آپ کے فضل و کمال کا شہرہ سُن کر حاضرِ خدمت ہوئے اور اکتسابِ فیض کیا ور مردِ کامل ہوئے۔ شیخ محمد عظیم آپ کے فرزند اور شیخ ابوسعید جو آپ کے برادر زادہ اور داماد بھی تھے۔ اس قدر کامل و مکمّل ہوئے کہ ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپ کے دُوسرے بھتیجے شیخ سلطان محمد نے بھی آپ ہی کی توجّہ سے سلوک و معرفت میں درجۂ کمال حاصل کیا تھا۔ آپ پر حالتِ جذب و سُکر اس درجہ طاری رہا کرتی تھی کہ کئی کئی روز بغیر کھائے پیے گزر جاتے تھے حتّٰی کہ بارہ(۱۲) سال تک کُچھ نہ کھایا۔ آپ کے ہمشیر زادہ شیخ عبدالجلیل نے بھی آپ ہی کی نظرِ فیض اثر سے عرفان میں مرتبۂ بلند پایا تھا اور ایسی حالتِ جذب حاصل ہوئی تھی کہ سالہا سال تک طعام کا لقمہ گلے سے نیچے نہ اُترا، اِن پر بھی حالتِ استغراق اکثر و بیشتر طاری رہتی تھی۔ آخری عمر میں کشمیر چلے گئے تھے وہیں وفات پائی۔ شیخ محمد حیات صاحبِ تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں کہ ایک روز میں حاضرِ خدمت تھا، میرے دل میں خیال گزرا کہ شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہٗ جب کسی کچّے گھڑے پر نظر ڈالتے تھے تو وُہ پک جاتا تھا اور اگر پکّے پر نظر ڈالتے تو وُہ ٹوٹ جاتا۔ کیا واقعی یہ بات درست ہے۔ آپ اُسی وقت نورِ باطن سے میرے خیال سے آگاہ ہوگئے۔ فرمایا: ہاں کیوں نہیں، اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہوتے ہیں جن کی نظر میں یہ تاثیر ہے اُسی وقت گردن اٹھا کر سامنے شیشے کی طرف دیکھا جو طاق پر پڑا تھا، اسی وقت ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا۔
آپ کی وفات بارھویں(۱۲) رجب مطابق انیسوی(۱۹) چیت سوموار کے دن شام کے وقت نماز کی حالت میں ظہور میں آئی کہ دو(۲) رکعت نماز قیام کی حالت میں پڑھی، تیسری رکعت کے سجدہ میں وفات پائی، آپ کا سالِ وفات ۱۱۳۷ھ ہے۔ آپ کے تین صاحبزادے تھے: اوّل شیخ شیر محمد جو آپ کے بعد مسند سجادگی پر قائم ہُوئے۔ دُوسرے شیخ گل محمد جواسم بامسمیّٰ تھے۔ تیسرے شیخ محمد عظیم المراتب تھے۔
حضرت شیخ عصمت اللہ کو شیخ عبدالرحمٰن کی طرف سے ’’امیر حمزہ پہلوان نوشاہ ثانی‘‘ کا خطاب مِلا تھا۔ ؎
ز عالم شد در خُلدِ معلیّٰ
ز دل جستم چو سالِ ارتحالش
جناب شیخ صادق عصمت اللہ
خود فرمود ’’عاشق عصمت اللہ‘‘
۱۱۳۷ھ