حضرت شیخ عزالدین محمود الکاشی علیہ الرحمۃ
آپ نے عوارف کا ترجمہ کیا ہےاور قصیدہ تائیہ فارضیتہ کی شرح لکھی ہے۔ان دونوں کتابوں میں بہت سے بلند حقائق اور عمدہ معارف درج کیے ہیں۔قصیدہ کی مختصر مفید شرح لکھی ہے۔اپنے علم عرفان ذوق وجدان کے مطابق بغیر کسی شرح کے دیکھنے کے اس کے مشکلات کو حل کیا ہے۔چنانچہ اس کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ولم ارجع فی املایہ الی مطالعۃ الشرح کیلا یر تسم منہ فی قلبی رسوم واثار تسد باب الفتوح و تشبت باذیال الروح فاتلو الغیر واحد وحذوہ فی السیر ودابی فی التحریر تفریح القلب من مظان الریب وتوحید وجھہ تلقاء مدین الغیب استنزالا للفیض الجدید واستفتامالا بواب المزیدیعنی میں نے اس کی تصنیف میں کسی شرح کے مطالعہ کی طرف رجوع نہیں کیا۔تاکہ میرے دل پر اس شرح سے اوروں کے رسوم و آثار نفس پذیر نہ ہو جائیں کہ جن سے فتوح کا دروازہ بند ہوجائے۔یعنی امور غیبہ بند ہوجائیں اور روح کو مقید کردیں۔پھر میں دوسروں کا تابع ہو جاؤں اور سیر میں ان کے قدم بقدم چلوں۔میری عادت لکھنے میں یہ ہے کہ دل کو ایسی چیز سے خوش کروں کہ جس میں شک کا گمان نہ ہواور اپنے دل کی توجہ کو شہرستان غیب کی طرف متوجہ کروں اور اس توجہ سے نئےفیض کے اتر آنے کو اور زیادتی دروازوں کی کشادگی طلب کروں۔انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو اجازت نامہ یوں لکھ دیاہے۔وانا اروی الکتاب یعنی عوارف المعارف عن شیخی ومولا ئی نورالدین عبدالصمد بن الشیخ علی الا صفھان ومن الشیخ العالم ظھیر الدین عبدالرحمن بن علی بن برغش وھما عن شیخا الامام العالم العارف نجیب الدین بن برغش الشیرازی وھو عن شیخہ قطب الاولیاء وسیدالعارفین مصنف الکتاب رحمتہ اللہ وعلیھم اجمعین ولی فی کشف حقایقہ وبیان معضلانہ طریق خاص فی الرویۃ عن مصنفہ واسطۃ وھوانی رایتہ گی مبشرۃ وقرات علیہ کتابۃ المذکور فنبھی علی حقایقہ ودقائقہ واللہ الموفق من یشاء وھو علی کل شیئی قدیر۔یعنی میں روایت کرتاہوں،کتاب"عوارف المعارف" کو اپنے شیخ اورمولانا نور الدین عبدالصمد بن شیخ علی اسفہانی شیخ اور شیخ عالم ظہیر الدین عبدالرحمٰن بن علی بن برغش اور ان دونوں نے اپنے شیخ امام عالم ۔عارف نجیب بن برغش شیرازی سے ۔انہوں اپنے شیخ قطب الاولیاء سیدالعارفین مصنف کتاب رحمتہ اللہ و علیہم اجمعین سے اور مجھے اس کے مشکلات کے حل و بیان میں ایک خاص طریق ہے۔مصنف کی روایت سے بلاواسطہ اوروہ یوں ہے کہ میں نے خواب میں ان کو دیکھااور ان کے سامنے ان کی کتاب مذکور کو پڑھا۔تب آپ نے مجھے اس کے حقائق و دقائق پر آگاہ کیااور اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے۔جس کو چاہتا اور جس چیز کی چاہتا ہے۔وہی شب شئے پر قادر ہے۔یہ چند رباعیاں ان کے معارف سے ہیں ۔جو لکھی جاتی ہے۔رباعی۔
دل گفت مرا علم لدنی ہوس است تعلیم مکن گرت بدیں و ستریں است
گفتم کہ الف گفت دگر گفتمبیچ درخانہ اگر کس است یک حرف بس است
رباعی
اے عکس رخ تو وادہ نور بصرم تادر رخ تو بنور تو مے نگرم
گفتی منگر بغیر ما آخر کو غیراز تو کسی کہ آید اندر نظرم
رباعی
اے دوست میان من جدائی تاکے چون من تو ام ایں توئی و مائی تاکے
اغبرت تو مجال غیرے چو نماند پس در نظر ایں غیر نمائی تاکے
اور یہ دو قطعہ بھی انہی ں کی ہیں۔
کثرت چو نیک درنگری عین و حدت است مارا شکے نماند دریں گرتر اشک است
درہر عدوز روئے حقیقت چوبنگری گر صور تش بہ بینی فرد مادہ ء یک است
تاتوئی درمیانہ خالی نیست چہرہ وحدت ازنقاب شکے
گر حجاب خودت براندازی عشق ومعشوق و عاشق است یکے
(نفحاتُ الاُنس)