حضرت شیخ بہاؤالدین عمر علیہ الرحمۃ
آپ شیخ محمد ؑ شاہ کے بھانجے اور مرید ہیں۔میں نے بعض اکابر سے سنا ہے۔وہ کہتے تھے معلوم نہیں کہ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے اصحاب کے سلسلہ میں کوئی ان کا ہم پلہ ہوا ہے۔بچپن سے مجذوب تھے۔جذبہ کے آثار ان پر ظاہر تھے۔نماز ادا کرنے کے وقت کس ی کو پاس بٹھا لیا کرتے تھےکہ رکعت کے شمار کی،ان کو اطلاع دے دیا کرے۔کیونکہ وہ خودبخود یاد نہ رکھ سکتے تھے۔ایک شروع میں نہایت پیاس کی وجہ سے جو اس گروہ کو ہوتی ہے۔اپنے ماموں شیخ محمد شاہ سے مقصود کے نہ پانے کی بابت باتیں کرتے تھے۔ان کے ماموں نے یہ شعر پڑھا۔
اگر نالد کے نالد کہ یارے در سفر دارد تو بارے انرچہ مے نالی کہ یارے دل بغل داری
آپ کی یہ عادت تھی کہ جب جامع مسجد میں حاضر ہوتے،حکام اور خاص لوگوں سے مسلمانوں کے مقاصد کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ان کا اکثر وقت اس میں گذرتا۔ان کے ایک مہربان دوست نے اس کی بابت سوال کیا کہ مسجد میں ان باتوں کا ذکر کیوں ہوتا ہے؟ آپ نے جواب دیا،اگر میں چپ بیٹھا رہوں،اور باتوں میں مشغول نہ رہوں،تو میں مغلوب ،ہلاک ہوجاتا ہوں۔میرے حواس باختہ ہوجاتے ہیں،نہ کان سنتے ہیں،نہ آنکھیں دیکھتی ہیں۔ایک دن ایک درویش آفتاب طلوع کے وقت ان کے پاس آیا۔آپ زانو پر سر رکھے ہوئے،مراقبہ میں تھے۔سر اٹھا کرفرمایا،کوئی ایسا شخص بھی ہوگا کہ صبح کے نماز ادا کرنے کے بعد اس وقت تک خدائے تعالی کی عبارت پچاس ہزار سال تک کر چکا ہو۔اس بات ایسا معلوم ہوتا ہے کہاس وقت زمانہ کے لیے ان کی نسبت بسط واقع ہوا تھا،اور پچاس ہزار سال گذر گئے تھے۔جس کو عبارت میں صرف کیا تھا۔آپ دائمی روزہ دار تھے۔مخدومی مولانا سعد الدین کاشفری رحمتہ اللہ علیہ حکایت بیان کرتے ہیں کہ آپ کو جنگل میں ایک مرض ہوگیا۔ہر چند ساتھی مبالغہ کرتے تھے ،لیکن آپ نے افطار نہ کیا۔مین نے ایک دن دیکھا کہ مردان غیب کی ایک جماعت آپ کےمکان کی طرف جارہی تھی۔جب دروازہ پر پہنچے،تو اندر نہ آئے اور پھر گئے۔میں نے اس قصہ کو ان سے بیان کیا۔انہوں نے کہا،ہاں وہ قطب تھے۔ان کے اصحاب جب ان کے دروازہ پر پہنچے۔میں نے پاؤں لمبے کیے ہوئے تھے۔یہ جان کر واپس چلے گئے،تو میں نے اپنے پاؤں جمع کرلیے۔تب وہ واپس آگئےاور میرے پاس بیٹھ گئے فاتحہ پڑھی ۔مولانا فرماتے تھے کہ اسی دن سے اس کی صحت کے آثار ہونے لگے۔اس بات کی حاجت نہ رہی کہ وہ افطار کریں۔اس فقیر کو ان کا یہ شعر یاد ہے۔جبکہ بعض فقراہکو توجہ کی ہمیشگی اور مطلوب حقیقی کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ترغیب دلا رہے تھے۔
دلا رامے کہ داری دل دروبند دگرنہ چشم ازہمہ عالم فروبند
آپ بروز منگل ۲۹ ربیع الاول ۸۵۷ھ میں فوت ہوئے۔علیہ الرحمتہ المغفرۃ۔جب آپ نے وفات پائی۔ان کے بڑے فرزند اور تمام نے موضع چفارہ کے اسی مکان میں جہاں کہ وہ دن کو بیٹھا کرتے تھے۔ان کی قبر کھودنے کے لیے مشغول ہوئے،لیکن سلطان وقت نے التماس کی کہ ان قبر شہر کے نزدیک ہو۔سب نے قبول کرلیا،اور جب سلطان ان کے جنازہ پر حاضر ہوئے،تو ان کے جنازہ کو راستہ میں اپنے کندھے پر اٹھا کر لے گیا،اور ہرات کی عیدگاہ کے شمال کی جانب دفن کیا۔بڑا گنبد بنا دیا،جو اب تک مشہور معروف ہے۔یزار وینبرک یعنی اس کی زیارت اور برکت حاصل کی جاتی ہے۔
شیخ بہاؤالدین عمر علیہ الرحمۃ
آپ شیخ محمد ؑ شاہ کے بھانجے اور مرید ہیں۔میں نے بعض اکابر سے سنا ہے۔وہ کہتے تھے معلوم نہیں کہ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے اصحاب کے سلسلہ میں کوئی ان کا ہم پلہ ہوا ہے۔بچپن سے مجذوب تھے۔جذبہ کے آثار ان پر ظاہر تھے۔نماز ادا کرنے کے وقت کس ی کو پاس بٹھا لیا کرتے تھےکہ رکعت کے شمار کی،ان کو اطلاع دے دیا کرے۔کیونکہ وہ خودبخود یاد نہ رکھ سکتے تھے۔ایک شروع میں نہایت پیاس کی وجہ سے جو اس گروہ کو ہوتی ہے۔اپنے ماموں شیخ محمد شاہ سے مقصود کے نہ پانے کی بابت باتیں کرتے تھے۔ان کے ماموں نے یہ شعر پڑھا۔
اگر نالد کے نالد کہ یارے در سفر دارد تو بارے انرچہ مے نالی کہ یارے دل بغل داری
آپ کی یہ عادت تھی کہ جب جامع مسجد میں حاضر ہوتے،حکام اور خاص لوگوں سے مسلمانوں کے مقاصد کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ان کا اکثر وقت اس میں گذرتا۔ان کے ایک مہربان دوست نے اس کی بابت سوال کیا کہ مسجد میں ان باتوں کا ذکر کیوں ہوتا ہے؟ آپ نے جواب دیا،اگر میں چپ بیٹھا رہوں،اور باتوں میں مشغول نہ رہوں،تو میں مغلوب ،ہلاک ہوجاتا ہوں۔میرے حواس باختہ ہوجاتے ہیں،نہ کان سنتے ہیں،نہ آنکھیں دیکھتی ہیں۔ایک دن ایک درویش آفتاب طلوع کے وقت ان کے پاس آیا۔آپ زانو پر سر رکھے ہوئے،مراقبہ میں تھے۔سر اٹھا کرفرمایا،کوئی ایسا شخص بھی ہوگا کہ صبح کے نماز ادا کرنے کے بعد اس وقت تک خدائے تعالی کی عبارت پچاس ہزار سال تک کر چکا ہو۔اس بات ایسا معلوم ہوتا ہے کہاس وقت زمانہ کے لیے ان کی نسبت بسط واقع ہوا تھا،اور پچاس ہزار سال گذر گئے تھے۔جس کو عبارت میں صرف کیا تھا۔آپ دائمی روزہ دار تھے۔مخدومی مولانا سعد الدین کاشفری رحمتہ اللہ علیہ حکایت بیان کرتے ہیں کہ آپ کو جنگل میں ایک مرض ہوگیا۔ہر چند ساتھی مبالغہ کرتے تھے ،لیکن آپ نے افطار نہ کیا۔مین نے ایک دن دیکھا کہ مردان غیب کی ایک جماعت آپ کےمکان کی طرف جارہی تھی۔جب دروازہ پر پہنچے،تو اندر نہ آئے اور پھر گئے۔میں نے اس قصہ کو ان سے بیان کیا۔انہوں نے کہا،ہاں وہ قطب تھے۔ان کے اصحاب جب ان کے دروازہ پر پہنچے۔میں نے پاؤں لمبے کیے ہوئے تھے۔یہ جان کر واپس چلے گئے،تو میں نے اپنے پاؤں جمع کرلیے۔تب وہ واپس آگئےاور میرے پاس بیٹھ گئے فاتحہ پڑھی ۔مولانا فرماتے تھے کہ اسی دن سے اس کی صحت کے آثار ہونے لگے۔اس بات کی حاجت نہ رہی کہ وہ افطار کریں۔اس فقیر کو ان کا یہ شعر یاد ہے۔جبکہ بعض فقراہکو توجہ کی ہمیشگی اور مطلوب حقیقی کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ترغیب دلا رہے تھے۔
دلا رامے کہ داری دل دروبند دگرنہ چشم ازہمہ عالم فروبند
آپ بروز منگل ۲۹ ربیع الاول ۸۵۷ھ میں فوت ہوئے۔علیہ الرحمتہ المغفرۃ۔جب آپ نے وفات پائی۔ان کے بڑے فرزند اور تمام نے موضع چفارہ کے اسی مکان میں جہاں کہ وہ دن کو بیٹھا کرتے تھے۔ان کی قبر کھودنے کے لیے مشغول ہوئے،لیکن سلطان وقت نے التماس کی کہ ان قبر شہر کے نزدیک ہو۔سب نے قبول کرلیا،اور جب سلطان ان کے جنازہ پر حاضر ہوئے،تو ان کے جنازہ کو راستہ میں اپنے کندھے پر اٹھا کر لے گیا،اور ہرات کی عیدگاہ کے شمال کی جانب دفن کیا۔بڑا گنبد بنا دیا،جو اب تک مشہور معروف ہے۔یزار وینبرک یعنی اس کی زیارت اور برکت حاصل کی جاتی ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)