سلسلۂ قادریہ کے مشائخ عظام اور اولیائے ذوی الاحترام سے ہیں۔ حضرت شاہ لطیف[1] برّی قادری سہروردی قدس سرہٗ کے نامور مرید خلیفہ تھے۔ علم و فضل و زہدو تقویٰ تھے اپنے معاصرین میں ممتاز تھے۔ اپنے مرشد کی وفات کے بعد عراق و عجم کی سیاحت کو نکلے۔ پہلے نجفِ اشرف پہنچے۔ دو سال تک حضرت علی کے مزار اقدس پر اعتکاف کیا۔ وہاں سے کربلا آئے۔ حضرت حسین کے مزار پر تین ماہ حاضری دیتے رہے وہاں سے مکہ معظمہ آئے۔ مناسکِ حج ادا کیے۔ یہاں سے مدینہ منورہآئے روضۂ رسول اکرمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ پھرمشہد مقدس آئے۔ حضرت علی رضا امام ہشتم اثنا عشری کے مزار پر حاضری دی۔ یہاں سے بشارت پائی کہ ایک مرد حق فلاں پہاڑ کی غار میں بیٹھا ہوا ہے جو سلسلۂ قادریہ ہی سے منسلک ہے اُس کے پاس جاؤ اور اپنا حصّہ لو جو اگرچہ وہ مرد مجذوب ہے مگر پیر روشن ضمیر ہے۔ چنانچہ یہ اشارۂ غیبی پاتے ہی آپ وہاں پہنچے دیکھا کہ غار میں ایک مرد دیرینہ سال مراقبہ میں بیٹھا ہوا ہے۔ سوائے اس کے اور کوئی غار میں نہیں۔ اس کے چند خادم باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ شیخ نے اس بزرگ کا حال اُن سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ہر روز ایک مرتبہ مراقبہ سے سر اٹھاتا ہے اور حاضرین پر نظر ڈالتا ہے لیکن ایک روز اس کی نظر میں تاثیرِ جلالی ہوتی ہے اور دوسرے روز تاثیرِ جمالی۔ آج نظرِ جلالی کا دن ہے۔ اس نظر کی کوئی شخص تاب نہیں لاسکتا۔ چنانچہ آپ نے اس روز توقف کیا۔ دوسرے روز علی الصبح غار میں پہنچے اور مجذوب کی نظرِ فیض اثر سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ ۹۸۳ھ میں وفات پائی۔ روضۂ پاک چینوٹ کے علاقہ میں ہے۔
رفت روحش باوج چرخ بریں |
|
کرد رحلت چو از زمین بہلول |
[1]۔ بزرگان پنجاب میں بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں۔ صاحبِ فضل و کمال اور خوارق و کرامات تھے۔ بڑے عابدہ زاہدو گوشہ نشین تھے۔ اکثر حالتِ استغراق و جذب و سکر میں رہا کرتے تھے۔ نعمتِ باطنی حضرت جمال اللہ حیات المیر فرزند پنجم سیّد عبدالرزاق خلف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم سے پائی تھی۔ حضرت جمال اللہ کو حیات المیر زندہ پیر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ حضرت غوثیہ کو یہ پوتے بڑے محبوب تھے اور آپ نے ان کے لیے عمرِ جاوید کی دعا مانگی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ چنانچہ وہ آج تک زندہ ہیں اور دریارِ سمر قند کی کسی جانب سکونت رکھتے ہیں۔ اکثر اولیائے کرام نے آپ سے اخذِ فیض کیا ہے۔ حضرت شاہ لطیف برّی نے ان کے علاوہ شیخ نصیرالدین قریشی ملتانی سے بھی فیض حاصل کیا ہے۔ اسی لیے بعض تذکرہ نویسوں نے انھیں اور شیخ بہلول دریائی کو مشائخ سہروردیہ میں شمار کیا ہے۔ ۹۶۲ھ میں وفات پائی۔