حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: داؤد۔کنیت: ابو سلیمان۔ لقب: طائی۔سلسلۂ نسب: ابو سلیمان داؤد بن نصیرطائی۔آپ کا خاندانی تعلق مشہور عرب سخی حاتم طائی کےخاندان سے ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 21؍صفرالمظفر 47ھ کو شام میں ہوئی۔لیکن آپ کی زندگی کوفہ میں گزری۔(اردو دائرہ معارف اسلامیہ)
تحصیلِ علم: جس زمانے میں آپ نے آنکھ کھولی اس وقت علوم کے سلاطین موجود تھے۔صحابۂ کرام کے چشمۂ صافی سےتشنگانِ علم و عرفان اپنی علمی پیاس بجھارہےتھے۔بڑے آئمہ کرام حیات تھے۔تو حضرت داؤد طائی کو علم حاصل کرنے کا خوب موقع میسر ہوا۔ہر شہر و علاقے میں علوم ِ نبویہ کے وارثین نے مسندیں بچھا رکھیں تھیں۔ابتدائی علوم حاصل کرنےکےبعد علم ِ حدیث کی تحصیل کےلئے امام اعمش، ابنِ ابی لیلیٰ، اور عبدالملک بن عمیر وغیرہ کی خدمت میں پہنچے۔ان سےروایت و کتابت کی۔علم ِ حدیث کے آئمہ میں شمار ہونے لگے۔پھر آپ سے ایک جماعت نے حدیثیں روایت کی ہیں۔ان میں سےایک نام مشہور محدث اسماعیل بن علیہ کا بھی ہے۔
علم الحدیث میں مہارت حاصل کرنےکےبعدخلیفہ مہدی کےزمانے میں بغداد تشریف لائے،یہاں کے شیوخ سےاخذِ فیض کیا۔پھر کوفہ واپس آئے اورامام الآئمہ سراج الامہ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلسِ درس میں شامل ہوگئے۔بیس سال تک حضرت امام صاحب کی خدمت میں رہ کر علمِ فقہ و اصولِ فقہ پر مہارت حاصل کی۔ولید بن عقبہ الشیبانی فرماتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہ کےحلقۂ درس میں بلند آواز سے بحث کرنے والا داؤد طائی کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔پھر یہ خلوت نشینی اختیار کرکےعبادت میں مشغول ہوگئے‘‘۔
بیعت و خلافت: آپنےعظیم مشائخ کی صحبت اختیار کی۔جن میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ،حضرت فضیل بن عیاض،اور حضرت ابراہیم بن ادھم وغیرہ کثیر مشائخِ کرام ہیں۔آپ حضرت خواجہ حبیب راعی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئے۔(کشف المحجوب:240)۔حضرت حبیب راعی حضرت حسن بصری کے مرید تھے۔اسی طرح حضرت امام اعظم نےآپ کی خصوصی تربیت فرمائی تھی۔ابتداء ہی سے انہیں دنیا سے نفرت تھی۔جب حضرت امام صاحب نےآپ کی یہ کیفیت ملاحظہ فرمائی تو ارشاد فرمایا: آپ دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشیں ہوجائیں۔چنانچہ آپ گوشہ نشیں ہوگئے۔اگر تصوف و طریقت اورمعرفت میں امام ِ اعظم کا مرتبہ دیکھنا ہوتو حضرت داؤد طائی کو دیکھ لیں۔ حضرت محارب بن دثار فرماتے ہیں: اگر حضرت داؤد طائی سابقہ امتوں میں سے ہوتے تو اللہ ﷻ آپ کے زہد تقویٰ کی خبر ہمیں قرآن میں ضرور دیتا۔(الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ؛ جلد اول؛ص:278)۔جب شاگرد کا یہ مقام ہے،تو استاذ کا کیا مقام ہوگا۔امام ِ اعظم صرف شریعت کے امام نہیں تھے۔بلکہ طریقت کے بھی امام تھے۔
سیرت و خصائص: عارف باللہ،واصل باللہ،امام الاولیاء،سندالفقہاء، سید الاتقیاء،زُہد الانبیاء،وارثِ علومِ مصطفیٰ، فیض یافتہ امام الہدیٰ،فقیہ، محدث، عالم،عامل،عارف،زاہد، حضرت خواجہ داؤد طائی۔آپاپنےوقت کے عظیم محدث،جید فقیہ،اور بےمثل صوفی تھے۔بیس سال امام اعظم کی خدمت میں رہ کر علمی کمال حاصل کیا۔اور اس درجے پر فائز ہوئے کہ امام صاحب کےاصحاب میں سے کسی کو آپ پر تقدم حاصل نہ تھا۔یہاں تک کہ جب صاحبین(حضرت امام محمد اور حضرت امام یوسف) کا کسی مسئلے میں اختلاف ہوجاتاتو وہ آپ کو اپنا مُنصف مقرر کرتے۔آپ کادستورتھا کہ جب صاحبین آپ کےپاس تشریف لاتےتو آپ امام محمد کی طرف منہ اور امام ابو یوسف کی طرف پیٹھ کرلیتے،اور فرماتے کہ ہمارے استاد صاحب نےتازیانے کھاکھاکر اپنے آپ کو ہلاک کرالیا۔مگر عہدۂ قضا قبول نہ فرمایا،اور امام ابو یوسف نےاپنے استاد کےخلاف کیا۔اگر امام محمد کا قول درست ہوتا تو فرماتے امام محمد کا قول ٹھیک ہے۔اور اگر امام ابویوسف کا قول ٹھیک ہوتا تو اس طرح فرماتے کہ ان کا قول درست ہے۔اور ان کا نام اپنی زبان پر نہ لاتے۔(حدائق الحنفیہ:137)۔
عرض کیا گیا کہ یہ دونوں حضرات اپنے زمانے کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں مگر آپ ایک سے محبت فرماتے ہیں،اور دوسرے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔آپ نے فرمایا کہ امام محمد بن حسن نےدنیاوی نعمتوں کو ترک کرکےمنصبِ علم کو پسند فرمایا ہے،اور میں ان کی عزت ان کےعلم کی وجہ سے کرتا ہوں۔اور امام ابو یوسف نےعلم کےسبب عہدۂ قضا حاصل کیا ہے۔(کشف المحجوب: 241)۔(یہ حضرت کا تقویٰ تھا۔حضرت امام ابو یوسفنے فقہِ حنفی کی بہت خدمت فرمائی ہے۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہےکہ اپنے وقت کا امام،اور بہت بڑا فقیہ، اُس وقت اگر سرکاری عہدۂ و منصب قبول کرلیتاتھا تو الفقر فخری کے وارث فقراء اس سےنظر پھیر لیتےتھے۔بادشاہ و وزراء ان کی نظر میں کتنی حقیر ہوں گے۔تونسویؔ غفرلہ)
حضرت داتا علی ہجویری فرماتے ہیں: حضرت داؤد طائی اہل تصوف میں سید السادات تھے۔اپنے زمانے کےبےمثل صوفی اور امام اعظم کےشاگردتھے۔ آپ کو علوم ِ عقلیہ و نقلیہ سےوافر حصہ ملا،اورفن فقہ میں فقیہ الفقہاء مشہورتھے۔حکومت و ریاست چھوڑ کر آپ نے گوشہ نشینی اختیار فرمائی۔آپ کا زہد و ورع خصوصیت سے مشہور ہے۔آپ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔حضرت معروف کرخی فرماتے ہیں: کہ میں نے حضرت داؤد طائی جیسا مستغنی عن الدنیا نہیں دیکھا۔ان کی نظر میں تمام دنیا اور اہل دنیا کی کچھ حیثیت ہی نہیں تھی۔(کشف المحجوب: 241)۔ حضرت داؤد طائینے چالیس سال تک اس حال میں روزہ رکھا کہ گھر والوں کو خبر تک نہ ہوئی۔آپ صبح گھرسےاپنا کھانا ساتھ لےجاتے،اورراستے میں اسےصدقہ کردیتے۔(گھر والے یہ سمجھتے کہ کھالیا ہوگا)رات کو واپس آتے۔(الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ؛ جلد اول؛ص:278)اسی طرح آپکے بارے میں منقول ہے کہ آپ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جتنا وقت لقمے بنانے میں صرف ہوتا ہے،اتنی دیر میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہوں‘‘۔(تذکرۃ الاولیاء؛ ج1؛ص:201 )۔ایک دن ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ کی چھت میں ایک شہتیر ٹوٹا ہوا ہے فرمایا : اے بھتیجے! میں نے بیس سال سے مکان کی چھت کی طرف نہیں دیکھا۔(احیاء العلوم:112)
جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوا ،تو اَسی(80) درہم اور ایک مکان ورثہ میں ملا۔ وہ درہم عمر بھر کے لیے کافی ہوئے، اور مکان کے ایک کمرے میں بیٹھا کرتے جب وہ گر گیا، دوسرے میں بیٹھنا شروع کیا ۔ جب وہ اس قابل نہ رہا تو اور درجے میں بیٹھ گئے۔ادھر ان کی روح نے پرواز کیا۔ ادھر بعض صالحین نے خواب میں دیکھا کہ داؤد طائی نہایت خوشی کے ساتھ ہشاش بشاش دوڑے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی آپ کو اس حالت میں نہ دیکھاتھا۔پوچھاکیاہے،کیوں دوڑےجاتےہو!فرمایا:ابھی جیل خانہ سےچھوٹاہوں۔خبرپائی کہ وہی وقتِ انتقال کا تھا۔(الرسالۃالقشیریۃ،ص35، ملخّصاً ؍ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت:467)۔جب آپ کے پاس دس درہم باقی رہ گئے تو امام ابو یوسف نےآپ کی والدہ سےپوچھا کہ آپ کس قدر روزانہ خرچ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک درہم۔امام صاحب نے اس کا حساب کرلیا،اور جس دن وہ روپیہ تمام ہوا تو آپ نےبعد نماز فجر کےاپنے مصاحبین سے فرمایا کہ داؤد کی خبر لاؤ۔ایک آدمی گیا اور یہ خبر لایا کہ وہ آج صبح فوت ہوگئے۔(حدائق الحنفیہ:138)
جس رات میں ان کی وفات ہوئی بہت سےمشائخ نے اس رات میں یہ خواب دیکھا کہ جنت میں خوب زینت کی جارہی ہے اور ہرطرف نور ہی نور پھیلا ہوا ہے۔ تو مشائخ نے خواب ہی میں پوچھا کہ یہ کون سی رات ہے تو آواز آئی کہ اس رات میں حضرت داؤد طائی کی وفات ہوگئی ہے۔ ہر طرف فرشتوں کا ہجوم ، یہ آرائش اور چہل پہل ان کی روح کی آمد کے لیے ہے۔ (احیاء العلوم؛ج4؛ص:433)
تاریخِ وصال: ایک قول کمطابق آپ 19؍ذوالقعدہ 162ھ ،اوردوسرےقول کےمطابق 8؍ربیع الاول 165ھ کو واصل باللہ ہوئے۔یہی صحیح ہے۔