حضرت شیخ غلام غوث سندھی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
یہ دونوں بزرگ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے اولیائے کاملین سے گزرے ہیں۔ صاحبِ علم و فضل تھے۔ خوارق و کرامات میں درجۂ بلند پر فائز تھے۔ سیّد غلام غوث مرشد اور شاہ حاکم مرید تھے سب سے پہلے اِن کے دادا سیّد ظہورالدین بخاری اوچ سے لاہور میں آکر موضع علی پور جو لاہور سے چار میل کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے اقامت پذیر ہوئے تھے راؤ گھاسی لسپر علی راؤ جو عہدِ اکبری میں ایک امیرِ کبیر شخص تھا وُہ اِن کا مرید ہُوا۔ سیّد محمد غوث اور شاہ حاکم عہدِ جہانگیری و شاہجہانی میں بڑے پایہ کے مستجاب الدعوات بزرگ گزرے ہیں۔ خصوصاً حصولِ اولاد کے لیے اکثر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر التجائے دعا ہوا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کی شرفِ قبولیت بخشتا تھا۔ چنانچہ امرائے شاہ جہانی سے ایک شخص نظام الدین نامی حضرت شاہ حاکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عطائے فرزند کی دعا کے لیے التجا کی۔ آپ نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا اور اسے لڑکا عطا فرمایا۔
شاہ حاکم نے ایک ہزار چالیس میں اور سیّد غلام غوث نے ایک ہزار پینتالیس میں وفات پائی۔ بے شمار لوگ ان بزرگوں کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے مزار علی پور میں زیارت گاہِ خلق ہیں اور تاحال ان کے مزار سے ظہورِ کرامت ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے بڑا تصرف ان حضرات کا یہ ہے کہ خانقاہ کے درختوں سے کوئی شخص لکڑی نہیں کاٹ سکتا۔ چنانچہ رنجیت سنگھ کے عہد میں علی پور راجہ دھیان سنگھ وزیرِ سلطنت کی جاگیر میں داخل تھا۔ چنانچہ راجہ کے ملازمین میں سے ایک شخص نے مسواک کی ضرورت کے لیے کچھ لکڑی تراشی تو اسی وقت درخت سے خون ٹپکنا شروع ہوگیا اور کاٹنے والا مرضِ تپ میں مبتلا ہوگیا دو روز بعد مزار پر حاضر ہوکر تائب ہُوا اور تکلیف سے نجات پائی۔ چنانچہ سیّد قطب الدین اور دیگر معتبر حضرات کی زبانی یہ ہمیشہ سُنا گیا ہے کہ وفات سے دو سو سال بعد دریائے راوی سیّد محمد غوث کے مزار کے بہت قریب آگیا اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں مزارات منہدم نہ ہوجائیں۔ چنانچہ نتھوشاہ اور ان کی اولاد و افرادِ خاندان نے ان بزرگوں کی لاشوں کو نکال کر دوسری جگہ دفن کردیا۔ لاشیں تین حضرات کی نکالی گئیں۔ اوّل سیّد غلام غوث کی، دوم آپ کے فرزند سید صدرالدین کی، سوم ان کے فرزند سیّد عوض علی کی۔ جب یہ تینوں لاشیں مدفون سے نکالی گئیں تو وہ بالکل ترو تازہ تھیں اور مٹی نے ان پر کوئی تصرف نہیں کیا تھا۔
قطعۂ تاریخِ وفات:
غلامِ غوث قطب ہر دو عالم |
ولیِ پاک حق آگاہ ذیجاہ |
|
حضرت شاہ حاکم کی تایخ وفات ’’مکمل شیخ‘‘ 1045ھ سے حاصل ہوتی ہے۔
(خزینۃ الاصفیا قادریہ)