حضرت امام احمد بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
المعروف ابی نعیم اصبہانی محدث (مصنف حلیۃ اولیاء)
ولادت ۳۳۶ھ/وفات ۴۳۰ھ
اسمِ گرامی احمد کنیت ابو نعیم سلسلۂ نسب یہ ہے احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن وائل بن مہران۔ آپ کی ولادت رجب ۳۳۶ھ میں بمقام اصفہان ہوئی۔ ابو نعیم اگر چہ عجمی نژاد تھے مگر آپ کے جد اعلیٰ مہران کو خاندان نبوت سے شرف ولاء حاصل تھا جس کی برکت نے آپ کے خاندان میں علم و عمل کو فروغ دیا آپ کے والد عبداللہ زبردست عالم تھے انہوں نے فرزندار جمند کو کم عمری ہی سے تحصیل علم اور سماع حدیث کے مشغلہ سے وابستہ کر دیا تھا۔ شوق علم دیکھ کر مشائخ عمدہ نے بطریق تبرک آپ کو سند حدیث عنایت فرمائی۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں ’’اجازلہ مشائخ الدنیا سنۃ نیف واربعین وثلاث مائۃ ولہ ست سنین‘‘ ۳۴۰ھ کے بعد جب آپ کی عمر صرف چھ سال تھی دنیا کے سربر آوردہ اور عظیم مشائخ نے آپ کو اجازت سے نوازا‘‘۔ (تذکرہ ج ۳ ص۲۷۵)
شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں: (سند اجازت مرحمت فرمانے والوں میں) ابوالعباس اصم، خیثمہ بن سلیمان طرابلسی، جعفر خلدی اور شیخ عبداللہ بن عمر بن شوذب بھی ہیں۔ اور یہ (ابو نعیم) اس خصوصیت کے ساتھ منفرد ہیں۔ (بستان المحدثین ص ۷۳)
آپ نے شیخ ابو محمد بن فارس سے ۳۴۴ھ میں پڑھنا شروع کیا طلب علم کا شوق اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اصفہان کے علاوہ کوفہ، بصرہ، بغداد، خراسان، شام، واسط، نیشاپور، مکہ، مدینہ کا سفر کیا اور وہاں کے اساطین حدیث سے اپنے دامن کو مالا مال کیا ان کے مشہور اساتذہ و شیوخ حسب ذیل ہیں:
ابو محمد بن فارس، اس کے بعد ابو احمد عسال، احمد بن معبد سمسار، احمد بن بندار عشار، احمد بن محمد قصار، عبداللہ بن حسن بن بندار، ابو بکر بن ہیثم بندار، ابو بحر بن کوثر، ابو بکر بن خلاد نصیبی، حبیب قزاز، ابو بکر جعابی، ابو القاسم طبری، ابو بکر آجری، ابو علی بن صواف، ابراہیم بن عبداللہ بن ابی العزائم کوفی، عبداللہ بن جعفر جابری، احمد بن حسن مکی، فاروق خطابی، ابوالشیخ بن حبان خراسان اور عراق کے بہت سے ائمہ سے حدیث کا سماع کیا تھا۔ (تذکرہ ج ۳ ص ۲۷۵)
علم و فضل:
فطری مناسبت علم قوتِ حفظ و ضبط اور بیکراں ذوق و شوق نے امام ابو نعیم کو اپنے وقت کا جلیل القدر محدث بنا دیا تھا لوگوں نے آپ کو الحافظ المشھود، الحافظ الکبیر من اکابر الحافاظ الثقات کے القاب سے نوازا ہے۔ وقت کے ائمہ فن نے آپ کی جلالت شان فی الحدیث کاول کھول کر اعتراف کیا ہے۔
*حافظ ذہبی: ’’الحافظ الکبیر محدث العصر الصوفی‘‘ آپ صوفی باصفا، بہت بڑے حافظ حدیث اور اپنے زمانہ کے محدث اعظم ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۳ ص۲۷۵)
*خطیب بغدادی: ’’لم ار احداً اطلق علیہ اسم الحفظ غیر ابی نعیم وابی حازم العدوی‘‘ میں نے حافظ ابو نعیم اصفہانی اور ابو حازم عدوی کے سوا کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس پر بجا طور پر حافظ کا اطلاق کیا جائے۔ (ایضاّص ۲۷۶)
*ابن مردوبہ: ’’کان ابو نعیم فی وقتہ مرحولا علیہِ لم یکن فی افق من الآفاق احد احفظ منہ ولا اسند منہ‘‘ حافظ ابو نعیم کی طرف استفادہ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ دنیا کے کسی حصہ میں اس وقت ان سے بڑا حافظ حدیث کو ئی نہیں تھا اور نہ ان سے زیادہ عالی سند کوئی آدمی موجود تھا۔ (ایضاّص ۲۷۶)
*حمزہ بن عباس علوی: ’’کان اصحاب الحدیث یقولون بقی الحافظ اربع عشرۃ بلا نظیر لا یوجد شرقا ولا غربا اعلیٰ اسناداًمنہ ولا احفظ منہ‘‘ محدثین کہا کرتے تھے کہ حافظ ابو نعیم کا چودہ سال تک کوئی نظیر نہیں تھا۔ مشرق و مغرب میں نہ ان سے بڑا کوئی حافظ حدیث تھا اور نہ کسی کے پاس ان سے اعلیٰ سند تھی۔ (ایضاّص ۲۷۶)
*ابن نجار: ’’وہ محدثین کے سرتاج اور اعلام دین میں تھے حدیث کی جمع ورادیت کی طرح اس کی معرفت و درایت میں بھی شہرت و امتیاز رکھتے تھے‘‘۔
*ابن سکھی: ’’وہ حفظ و ضبط میں مرتبۂ کمال پر فائز تھے‘‘۔ (طبقات الشافعیہ ج ۳ ص ۸)
حلقۂ درس:
امام ابو نعیم کے علمی کمالات اور غیر معمولی تجرفن نے ان کی ذات کو مرجع خلائق بنا دیا تھا دور دور سے تشنگان علم نبوت کھنچ کھنچ کر ان کے حلقۂ درس میں شامل ہوا کرتے تھے ان کے گرد طلبہ کا ہجوم ہر وقت رہتا۔ اصاغر واکابر سبھی ان کی بارگاہ سے فیض باب ہوتے تھے۔ ابن مردویہ کا بیان ہے: ’’کان ابو نعیم فی وقتہ مرحولا الیہ…… کان حافظ الدنیا قد اجتمعوا عندہ وکل یوم نوبۃ واحد منھم یقرأ مایریدہ الی قریب الظھر فاذا قام الی دارہ ربما کان یقرأ علیہ فی الطریق جزء لم یکن لہ غذا سوی التسمیع والتصنیف‘‘ حافظ ابو نعیم کی طرف استفادہ کے لیے آنے والوں کا تانتا بندا رہتا تھا۔ دنیا کے حافظ حدیث آپ کے پاس جمع رہتے تھے ان میں سے رہ روز ایک ایک آدمی کی پڑھنے کی باری ہوتی تھی۔ وہ ظہر سے تھوڑی دیر پہلے تک جو چاہتا پڑھتا۔ بعض اوقات گھر کو جاتے ہوئے راستہ میں طالب علم ان سے پڑھتے جاتے جس سے آپ گھبراتے نہیں تھے کیوں کہ حدیث پڑھانا اور کتابیں تصنیف کرنا آپ کی غذا تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۳ ص ۲۷۶)
*حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ’’ورحلہ الحافظ الی بابہ العلمہ وحفظہ وعلو اسنادہ‘‘ دنیا کے کونے کونے سے حفاظ حدیث آپ کے حفظ، علمی شہرت اور علو اسناد کی وجہ سے آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ (ایضاّص ۲۷۵)
آپ سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے چند اہم تلامذہ کے نام یہ ہیں:
ابو بکر خطیب، ابو بکر بن علی ذکوانی، ابو سعید مالینی، ابو صالح مؤذن، ابو علی ذحشنی، ابو الفضل احمد الحداد، ابو علی حسن بن احمد حداد، سلیمان ابراہیم، قاضی عبدالسلام بن احمد کوشیار بن لیالیروز جیلی، ابو بکر محمد بن ابراہیم عطار، ابو منصور محمد بن عبداللہ شروطی، ابو سعید محمد بن محمد مطرز، ہبۃ اللہ بن محمد شیرازی، یوسف بن تفکری۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۳ ص ۲۷۵)
دیگر علوم وفنون:
حدیث کے علاوہ فقہ اور تصوف میں بھی کافی ورک تھا مسلکاّ وہ شافعی تھے تصوف و سلوک سے ان کی دلچسپی موروثی تھی ان کے نانا محمد بن یوسف بلند پایہ صوفی بزرگ تھے تصوف میں امام ابو نعیم کے کمال کی سند ان کی کتاب حلیلۃ الاولیاء ہے۔
تصانیف:
امام ابو نعیم باکمال مصنف تھے انہوں نے بہت سی گراں مایہ کتابیں لکھی ہیں جن میں چند کے نام یہ ہیں۔ کتاب معرفۃ الصحابہ، کتاب دلائل النبوۃ دو جلد، کتاب المستخرج علی البخاری، کتاب المستخرج علی مسلم، کتاب تاریخ اصفہان ، صفۃ الجنۃ، کتاب الطب، کتاب المعتقد۔ (تذکرہ ج ۳ ص ۲۷۶)
اس کے علاوہ مزید کتابیں ہیں کتاب الاربعین، تثبیت الرویا، کتاب حرمۃ المساجد، رسائل مختصرۃ، ریاختہ المتعلمین، طرق حدیث، عمل الیوم واہللیلۃ، کتاب الفتن، کتاب فضائل الخلفاء، کتاب فضائل الصحابہ، فضلا لسواک، کتاب فضل عالم العفیف، کتابا لفوائد، مختصر الاستیعاب، کتاب معجم الشیوخ ۳ جلد، کتاب معجم الصحابہ، کتاب علوم الحدیث، کتاب المستخرج علی التوحید، کتاب المہدی۔
دلائل النبوۃ:
امام ابو نعیم کی مطبعہ کتابوں میں اس کتاب کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس کتاب میں وہ تمام واقعات و مرویات سنداً بیان کیے گئے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے خصائص و کامالت اور فضائل و مکارم نیز دلائل نبوت اور معجزات وغیرہ سے متعلق ہیں پہلے قرآن مجید کی روشنی میں رسول اکرم ﷺ کے اوصاف و خصوصیات بیان کیے گئے ہیں اور تائید میں روایات بھی پیش کی گئی ہیں پھر آپ کے حسب و نسب کی فضیلت اور قدیم کتابوں اور انبیاء سابقین کے صحیفوں میں آپ کے بارے میں جو پشین گوئیاں ہے ان کو ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد آپ کی ولادت سے وفات تک کے تمام حیرت انگیز واقعات اور معجزات اور آپ کی پیشین گوئیوں اور امور نوعیت وغیرہ بھی بیان کر دی ہے اور بعض شبہات و اشکالات کو بھی رفع کیا ہے آخر میں بعض مشہور بعض جلیل القدر انبیاء کے خاص اور اہم معجزات کا تذکرہ کرنے کے بعد دیکھایا گیا کہ حضور ﷺ کو بھی اسی نویت کے معجزات عطا کیے گئےتھے۔
حلیۃ الاولیاء:
یہ کتاب امام ابو نعیم کی سب سے بے نظیر کتاب ہے صاحب کشف الظنون نے عمدہ اور معتبر کتاب بتایا ہے۔
حافظ سبقی نے اسے عدیم النظیر کتاب بتایا ہے وہ کہتے ہیں ’’ولم یصنف مثل کتابہ حلیۃ الاولیاء‘‘ آج تک ایسی کتاب نہیں لکھی گئی۔ (تذکرہ ج ۳ ۲۷۵) مصنف کی زندگی میں اس کو شہرت اور غیر معمولی حسن قبول و اعتبار حاصل وہگیا تھا اسی زمانہ میں جب نیشاپور پہونچی تو لوگوں نے چار سو دینار میں خریدا۔ (ایضاّ)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں ان کی ناور و عجیب کتابوں میں سے حلیۃ الاولیاء ایسی نادر کتاب ہے جس کی نظیر اسلام میں نصیب نہیں ہوئی۔ (بستان المحدثین ص ۷۴)
حافظ ابن کثیر کا بیان ہے۔ اس سے مصنف کی وسعت نظر ان کے شیوخ کی کثرت اور مخارج و طرق حدیث سے پوری واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
طبقات صوفیہ میں یہ نہایت اہم اور عمدہ کتاب ہے اس موضوع پر اس سے قبل کوئی کتاب ایسی بہتر و جامع نہیں لکھی گئی تھی۔ علامہ ابن جوزی نے اپنی مشہور کتاب صفوۃ الصفوۃ کی بنیاد اسی پر رکھی۔
حلیۃ الاولیاء میں ان صحابۂ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور مابعد کے ائمہ اعلام کا تذکرہ ہے جو زہد تقویٰ اور معرفت و سلوک میں ممتاز تھے ان بزرگوں کے فضائل و مناقب اور ان کے واقعات و حکایات جمع کر کے تصوف میں ان کا مرتبہ واضح کیا گیا ہے۔ اور ان سے مروی حدیثیں اور ان کے عارفانہ اقوال و ملفوظات بھی درج کیے گئے ہیں۔
وفات:
۲۰/ محرم الحرام ۴۳۰ھ میں ۹۴ /سال کی عمر پاکر داعئ اجل کو لبیک کہا۔