حضرت شیخ حافظ بہاؤ الدین عمر ابروہی علیہ الرحمۃ
آپ اخی علی کے مریدوں میں سے ہیں۔کہتےہیں کہ وہ چھوٹی عمر کے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہوگئے تھے۔جب کچھ ان کو تمیز آئی،تو ان کے رشتہ داروں نےان کو درزی کی دکان پر بھیج دیا کہ درزی گری سیکھو۔ان دنوں میں مولانا رضی الدین علی مایانی ؒ کہ شیخ عبداللہ خرجستانی کے مریدوں اور خضر علیہ السلام کے یاروں میں تھے۔ابروہ میں پہنچے اور پوچھا کہ عمر کا لڑکا کہا ہے؟لوگوں نے کہا کہ وہ درزیوں کے پاس ہے۔مولانا نے فرمایا،جو شخص درزیوں کے پاس جائے گا۔زیان میں رہے گا۔اس کو بلاؤ،بلایا گیا۔مولانا اس کو طوس میں لے گئے۔ایک نیک بخت حافظ کے سپرد کیا کہ اس کو قرآن حفظ کرائے۔مالانا کچھ عرصہ کے بعد پھر وہاں تشریف لے گئے۔شیخ حافظ کو دیکھا،اور خفا ہو کر اس کے استاد سے پوچھا کہ تم فرزند عمر کو غالباً اسی کھانے میں سے دیتے ہو ،جو خود کھاتے ہو۔اس نے کہا، حضرت کیا کروں،اور میرے پاس کچھ نہیں ہوتا۔مولانا نے فرمایا اس کے ساتھ ابروہ میں جاؤ اور وہیں رہو،جب تک کہ یہ قرآن حفظ کرلے۔انہوں ایسا ہی کیا۔شیخ حافظ کہتے ہیں کہ جب شروع شروع میں مجھے سلوک کی راہ میں خدا کی خواہش پیدا ہوئی،تو نیشاپور میں مولانا شمس الدین خلیفہ ارشاد میں مشغول تھے،اور شیخ علی ایک ویرانہ گاؤں میں تھے۔جس ولایت میں کہ کسی بزرگ کا نام سنتا تھا،متردد ہوتا تھا کہ کہاں جاؤں۔میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک مکان بڑا بلند ہے ۔اس کی اونچی عمارت ہے۔وہاں پر ایک جماعت خانہ ہے،جو نہایت عمدہ اور پاک ہے۔اس کے سامنے ایک چھجہ ہے ۔اس پر ایک پردہ لٹکتا ہے ۔اس جماعت خانہ میں بہت لوگ ہیں۔اس چھجہ میں بھی بڑے بزرگوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے۔مولانا چمس الدین خلیفہ اس چھجہ کے کنارے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔اس جماعت کے درمیان ایک تاج لٹک رہا ہے۔مولانا کہتے ہیں کہ یہ تاج جس کے سر پر پورا آئے گا،ہم اسی کے حوالہ کردیں گے۔ہر شخص آتا تھا اور امتحان کرتا تھا،لیکن کسی کے سر پر برابر نہیں اترتا تھا۔میں ایک گوشہ میں کھڑا ہوا تماشہ دیکھ رہا تھا۔اتفاقاً مولانا نے میری طرف دیکھا،اور کہا،بیٹا تم بھی آگے آؤ۔میں نے چاہا کے آگے بڑھوں۔اتفاقاً میں نے دیکھا کہ وہ پردہ جو چھجہ میں پڑا ہوا تھا۔سرکا اور اس کے پیچھے سے ایک شخص رعب داب سے باہر نکلا۔مجھ کو پکڑ کر علی اخی کی گود میں رکھ دیا،اور فرمایا کہ اس لڑکے کو لو اور دوددھ دو۔اس خواب کی ہیبت سے مجھے جاگ آگئی۔میں نے دل میں کہا مجھ کو علی اخی کی خدمت سپرد ہوئی ہے۔ا ن کی خدمت میں حاضر ہوا۔جب ان کی نظر مجھ پرپڑی۔فرمانے لگے،حافظ مدت کے بعف دودھ لے کر آئے ہو۔میں نے بیعت کا ہاتھ انہیں دیا،توجہ کی تلقین حاصل کی۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب میں عرب کے سفر میں بغداد تک پہنچا،تو شیخ نور الدین عبدالرحمٰن اسفراینیؒ کی خانقاہ میں جا اترا۔اس وقت ان کا پوتا شیخ نور الدین عبدالرحمٰن شیخ الاسلام بغداد کا تھا،اور اپنی جد بزرگوار کا خلیفہ تھا۔وداع کے وصیت کی کہ جب روضہ شریفہ حضرت رسالت پناہﷺکی زیارت کا تم کو شرف حاصل ہو۔تو میرا سلام نیاز حضور ﷺ کی خدمت میں پہچانا،اور یہ عرض کرنا ایک بوڑھا گناہ گار تیری امت کے گناہ گاروں میں عبدالرحمٰن بغدادی نے سلام عرض کیا۔جب میں شرف زیارت سے مشرف ہوا،اور اس کی شرائط ادا کرچکا،تو شیخ کی وصیت میرے دل میں آئی۔جس عبارت میں کہ انہوں نے فرمایا تھا۔اسی طرح میں نے عرض کیا۔حضرت رسالت پناہ ﷺ نے ناراضگی ظاہر فرمائی ،اور مجھے فرمایا کہ تم ایسا مت کہو۔کیونکہ انہوں نے نہایت تواضع سے ایسا کہا ہے۔وہ میری امت کے بڑے بزرگوں میں سے ہیں۔واپس آنے کے بعد میں نے شیخ سے یہ حال بیان کیا۔وہ سن کر بہت خوش ہوئے،اور مجھ کو دعائے خبر کہی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ولایت میں ایک دفعہ بڑی وبا پڑگئی۔چنانچہ اکثر لوگاپنی زندگی سے مایو س ہوگئے۔ایک دن رضی الدین مایانی موضع مایا ں سے ابردوہ میں تشریف لائے۔گاؤں کے باہر اترے،اور مجھے بلایا اور کہا کہ یہ حکم ہے،میرے ہمراہ آؤ۔شیخ محمد خالد رحمتہ اللہ کی قبر پر اسجیل گاؤں میں قرآن ختم کرو۔شاید کہ خدائے تعالی اس بلا کو دور کرے۔میں نے یہ حکم مان لیا،لیکن اس وجہ سے کہ ان دنوں میں ،خواجہ عبدالرحمٰن گہوارہ گر علیہ الرحمۃ کہ خدائے تعالی کے محبوب مجذوب تھے۔اسجیل گاؤں میں ایک پتھر کے سر پر کہ شیخ محمد ؑ خالد کے مزار کے دروازہ پر تھا۔بیٹھے رہتے اور بلند آواز باتیں کرتے رہتے تھے۔مولانا رضی الدین علی نہایت پابند شرع تھے۔میں متفکر تھا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ کوئی ایسا امر ہوجائے کہ لوگ بلا اور وبا کو پھر طلب کریں۔جب میں اسجیل کے نزدیک پہنچا ۔ایک شخص باہر نکلا ۔میں نے اس سے خواجہ کا حال پوچھا۔کہا،ابھی پتھر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔اتفاقاً کہا کہ فوج آتی ہے۔میں اس کے گلہ کا حریف نہیں ہوں۔وہاں سے اٹھا کر قریب ہی ایک خراس میں چلے گئے،اور ایک گڑ ھے میں چھپ گئے۔جب ہم گاؤں میں پہنچے ،اور زیارت گاہ میں آئے۔گاؤں کے لوگ جمع ہوئے۔اس وقت یہ خبر ملی کہ امیر علی بیگ جو کہ ولایت کا حاکم ہے،خواجہ کی زیارت کو آتا ہے۔گاؤں کے لوگوں نے مولانا سے کہا کہ خواجہ آپ کے سبب اس خراس میں چلے گئے ہیں،اگر علی بیگ اور کواجہ کو اس نے دیکھا ،تو ممکن ہے کہ ہم پر خفا ہوجائے۔مولانا کراس کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب خراس میں آئے تو فرمایا۔کیا مہمان کی یہی خاطر کیا کرتے ہیں؟جب خواجہ نے مولانا کی آواز سنی،تو اس گڑھے سے باہر نکل آئے،اور ایک دوسرے کے بغل گیر ہوئے۔خواجہ نے مولانا کے کان میں کچھ کہا۔مولانا رونے لگے۔عرسہ تک ویسے ہی کھڑے رہے۔ایک شخص نے مجھ کو کہا کہ امیر علی بیگ دروازہ پر کھڑا ہے،انتظار کر رہا ہے۔میں نے مولانا کو خبر دے۔مولانا نے فرمایا کہ امیر علی بیگ آپ کے منتظر ہیں۔خواجہ باہر نکلے۔امیر علی نے خواجہ سے ملاقات کی ۔خواجہ نے فرمایا۔مغلوک چلا جا کہ میں ایک مہمان رکھتا ہوں۔علی بیگ چلا گیا۔خواجہ نے اس کے پیچھے ایک نعرہ مارا کہ ہے نعولک دوڑتا ہے،وہ دوڑا جارہا تھا۔یہاں تک کہ خواجہ کی نظر سے گائب ہوگیا۔اس کے بعد خواجہ اور مولانا زیارت میں آئے،اور میں نے اس خوف سے کہ خواجہ اونچی آواز نہ بولیں۔مولانا سے عرض کیا کہ میں قرآن شریف کو ایک رات د ن میں ختم کر سکتا ہوں۔مولانا نے فرمایا کہ تین رات دن کا حکم ہے۔میں نے ختم شروع کیا۔تلاوت کے درمیان خواجہ نے اونچا بولنا شروع کیا۔مولانا نے ان کو چلا کر روکا۔پھر آخر تک خواجہ نے کوئی بات نہیں کی۔جب ختم پورا ہوا اور دا سے فارغ ہوئے،تو ایک دوسرے کو رخصت کیا۔حق سبحانہ تعالی نے اس بلا کو محض اپنی عنایت و رحمت سے دفع کردیا۔
(نفحاتُ الاُنس)