آپ حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی قدس سرہ کے خلیفہ تھے بچپن میں اپنے والد مکرم کے ساتھ حضرت خواجہ محبوب الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوئے۔ حضرت خواجہ کے وصال کے بعد آپ کے خلفائے کرام سے استفادہ کیا مولانا برہان الدین غریب، شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کے علاوہ دوسرے خلفاء سے ۔۔۔۔
آپ حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی قدس سرہ کے خلیفہ تھے بچپن میں اپنے والد مکرم کے ساتھ حضرت خواجہ محبوب الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوئے۔ حضرت خواجہ کے وصال کے بعد آپ کے خلفائے کرام سے استفادہ کیا مولانا برہان الدین غریب، شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کے علاوہ دوسرے خلفاء سے سلوک چشتیہ میں تربیت پائی حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کے ملفوظات میں ایک کتاب بحرالمجالس ترتیب دی یہ کتاب ۷۵۰ھ سے ۷۶۰ھ کی مجالس کے احوال پر مشتمل ہے۔ آپ بڑے کامل شاعر اور سخنور تھے۔ اگرچہ آپ قلندری سلوک کے بھی واقف تھے مگر قلندرانہ زندگی بسر نہیں کی تھی۔
ایک دن آپ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ حضرت خواجہ محبوب الٰہی دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت خواجہ نے دستر خوان بچھایا تو آپ نے ایک روٹی کے دو حصے کرکے ایک حصہ آپ کو دیا، شیخ حمید نے یہ روٹی کھانے کی بجائے اپنے پاس رکھ لیا ور باپ کے ساتھ باہر نکل آئے، باہر چند قلندر بیٹھے تھے، انہوں نے کہا شیخ زادے ہمیں کچھ دو، ہم نے روزہ افطار کرنا ہے، آپ نے فرمایا میرے پاس تو کچھ نہیں قلندروں نے کہا تمہارے پاس آدھی روٹی ہے یہ ہمیں دے دو، قلندروں کے اس کشف پر شیخ حمید بڑے حیران ہوئےا ور وہ روٹی انہیں دے دی، قلندروں نے روٹی بانٹ کر روزہ افطار کیا، آپ کے والد نے فرمایا حمید تم نے یہ کیا کیا، حضرت کی عطا کردہ روٹی ان قلندروں کو دے دی، یہ تو ایسی نعمت تھی کہ سات پشتوں تک کام آتی تھی والد گرامی شیخ حمید کو پکڑ کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں واپس لے گئے اور صورت حال سے آگاہ کیا، آپ نے مسکرا کر فرمایا چلو درویشوں کا حق درویشوں کو پہنچا دیا، پھر آپ شیخ حمید کے والد کو مولانا تاج الدین نے فرمایا فکر نہ کرو تمہارا یہ بیٹا بلند قدر قلندر بنے گا۔ اس دن سے مولانا حمید کا خطاب حمید قلندر رکھا گیا۔
آپ کی وفات ۷۶۸ھ کو ہوئی تھی۔
چوں حمید از لطف و افضال خدا
رفت از دنیا در جنت رسید
شاہ عالیشان بگو سالِ وصال
ہم بخواں سرور شہ عرفاں حمید