حضرت شیخ حماد شیرہ فروش علیہ الرحمۃٰ
آپ شیخ محی الدین عبدالقادر ؒ کے شیخوں میں سے ہیں۔آپ امی تھے۔ان پر معروف و اسرار کے دروازے کھل گئے۔جن سے بڑے مشائخ کے پیشوا بن گئے۔شیخ عبدالقادر ؒ جوان تھے اور شیخ حمادی کی صحبت میں رہتے تھے۔ایک دن پورے ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں بیٹھے تھے۔جب اٹھے اور باہر گئے تو شیخ حماد فرمانے لگے کہ اس عجمی کا ایسا قدم ہے کہ اپنے وقت میں تمام اولیاء کی گردن پر ہوگا اور ضرور ان کو حکم ہوگاکہ یہ لفظ کہیں قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ یعنی میرا قدم تمام ولی اللہ کی گردن پر ہے۔یہ ضرور کہے گا اور تمام اولیاء گردن جھکائیں گے۔شیخ حماد ماہ رمضان ۵۲۵ھ میں فوت ہوئے۔شام کے علما میں سے ایک عالم جن کا نام عبداللہ ہے۔کہتے ہیں کہ میں علم کی طلب میں بغداد گیااور ابن سقا اس وقت میں میرا رفیق تھا۔مدرسہ نظامیہ بغداد میں ہم عبادت میں مشغول تھےاوربزرگوں کی زیارت کرتے تھے۔اس وقت بغداد میں ایک عزیز تھا۔جس کو لوگ غوث کہتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہجب ہو چاہتے ہیں،پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں،ظاہر پوجاتے ہیں۔پھر میں اور ابن سقا اور شیخ عبدالقادر اور وہ ابھی جوان تھے۔ہم تینوں غوث کی زیارت کو گئے۔ابن سقا نے راستہ میں کہا،میں ان سے وہ مسئلہ پوچھوں گا۔دیکھو کیا جواب دیتے ہیں۔شیخ عبدالقادر نے کہا،معاذ اللہ کہ میں ان سے کچھ پوچھوں۔میں تو ان کے پاس اس لیےجاتا ہوں کہ ان کی زیارت کی برکت حاصل کروں۔جب ہم ان کے مکان پر آئے تو ان کو اپنی جگہ پرنہ دیکھا۔ایک گھڑی تک ہم وہاں بیٹھے رہے۔دیکھا تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔تب وہ ابن سقا کی طرف غصہ سے دیکھنے لگےاور کہا،ابن سقا تم پر افسوس۔مجھ سے ایسا مسئلہ پوچھتے ہو جس کا جواب مجھے نہ آتا ہو۔مسئلہ یہ ہے۔اس کا جواب اس کا یہ ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جلد تیرے کفر کی آگ بھڑک مارے گی۔پھر میری طرف دیکھا اور کہا ،اے عبداللہ مجھ سے مسئلہ پوچھتے ہو کہ میں کیا جواب دیتا ہوں۔وہ مسئلہ یہ ہے اور جواب یہ ہے۔تجھ کو دنیا دونوں کانوں تک گھیرے لے گی۔کیونکہ مت نے میری بے ادبی کی ہے۔اس کے بعد شیخ عبدالقادر کی طرف دیکھا اور ان کو اپنے پاس بٹھایا۔عزت کی اور کہا،اے عبدالقادر تم نے اپنے ادب کی وجہ سے خدا اور اس کے رسولؑ کو خوش کیا۔گویا میں تم کو دیکھ رہا ہون کہ بغداد کے منبر پر کھڑا ہےاور کہتا ہے۔قدمی ھذھ علی رقبۃ کل ولی اللہ یعنی یہ میرا قدم تمام ولی اللہ کی گردن پر ہےاور تمہارے وقت کے سب اولیاء کود یکھتا ہوں کہ سب نے اپنی گردن نیچے کی ہوئی ہے،تمہاری بزرگی کی وجہ سے۔پھر اسی وقت غائب ہوگیا۔اس کے بعد ہم نے ان کو کبھی نہیں دیکھا۔جو کچھ شیخ عبدالقادر کی نسبت کہا تھا،ویسا ہی ہوااور ابن سقا علم کی تحصیل میں بہت مشغول ہوا اور ہمعصروں سے بڑھ گیا۔خلیفہ نے اس کو ملک روم کی سفارت پر بھیجا۔روم کے بادشاہ نے علمائے نصاریٰ کو اس کے مناظر کے لیے حکم دیا۔اس نے سب کو الزام دیا اور ساکت کردیا۔بادشاہ کی نگاہ میں اس کی عزت ہوگئی۔اس بادشاہ کی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔وہ اس پر عاشق ہوگیا۔اس کی نسبت کے لیے بادشاہ سے درخواست کی۔اس شرط پر کہ عیسائی ہو جاؤ۔اس نے قبول کرلیا۔لڑکی اس کو دے دی۔تب ابن سقا نے غوث کے کلام کو یاد کیا اور جان لیا کہ جو کچھ اس کو پہنچا۔اسی کے سبب پہنچا"لیکن جب میں دمشق میں پہنچا تو نور الدین شہید نے مجھ کو اوقاف کا متولی ہونے پر مجبور کیا۔پھر دنیا نے میری طرف منہ کیا۔جوبات کہ غوث نے کہی تھی"وہ پوری ہوئی۔
ایک دن شیخ عبدالقادراپنی سرائے میں وعظ فرمارہےتھے۔عام مشائخ قریباً پچاس موجود تھے۔منجملہ ان کے شیخ علیہیئتی"شیخبقائن بطو"شیخ ابو سعید قیلوئی"شیخ ابو النجیب سہروردی"شیخ جاگر قضیب البان موصلی"شیخ ابو مسعود وغیرہ بڑے بڑے مشائخ تھے۔شیخ بات کہہ رہے تھے۔اثنائے کلام میں کہا۔قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ شیخ علی ہیئتی منبر پر چڑھےاور شیخ کے قدم مبارک کو پکڑ کر اپنی گردن پر رکھ لیا اور شیخ کے دامن کے تلے آگئے۔باقی تمام مشائخ نے اپنی گردنیں جھکا دیں۔شیخ ابو سعید قیلوی کہتے ہیں کہ جب شیخ عبد القادر نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہکہا تو حق تعالٰی نے ان کے دل پر تجلی کی اور رسولﷺ نے ملائکہ مقربین کے ایک گروہ کے ہاتھ سے اولیاء مقدمین و متاخرین کی موجودگی میں وہاں حاضرتھے"زندے اپنے جسموں سے اور مردے اپنی روحوں سے خلعت پہنادی۔ملائکہ اور رجال الغیب نے ان کی مجلس کو درمیان میں لے لیا تھا اور کئی صفیں ہوا میں کھڑی تھیں۔زمین پر کوئی ولی نہ تھا"مگر یہ کہ سب نے اپنی گردن کو نیچا کیا ہوا تھا۔بعضے کہتے ہیں کہ عجم کے ایک ولی نے تواضع نہ کی۔تب اس کا حال بگڑگیا۔(وہ شیخ صنعا تھے کہ کو کافرہ پر عاشق ہو گئے تھے)۔
(نفحاتُ الاُنس)