حضرت شیخ حسام الدین حسن بن محمدؑ بن الحسن بن اخی ترک علیہ الرحمۃ
جب شیخ صلاح الدین انتقال فرما گئے،تو مولانا کی خدمت کی مہربانی اور ان کی خلافت چپلی حسام الدین کی طرف منتقل ہو گئی،اور عشق بازی کی بنیاد ان سے رکھی ۔مثنوی کی نظم کا باعث وہ ہوئے۔کیونکہ جب چپلی حسام الدین نے اصحاب کا ملان خاطر الہٰی نامہ حکیم سنائی اور منطق الطیر شیخ عطار اور ان کے مصیبت نامہ کی طرف دیکھا ،تو مولانا سے درخواست کی کہ غزلیات کے اسرار ہوگئے ہیں،اگر ایسی کتاب جس کی طرز الہٰی نامہ سنائی یا منطق الطیر کی ہو،نظم کی جائے۔تاکہ دوستوں کے لیے یادگار رہے،تو نہایت مہربانی ہوگی۔مولانا نے اسی وقت اپنے دستار کے سرے سے ایک کاغذ چپلی کے ہاتھ میں دیا۔جس پر اٹھارہ بیت اول مثنوی کے لکھے ہوئے تھے۔اس شعر سے۔
بشنواز نے چون حکایت میکند از جدا نہا شکایت میکند
لے کر اس شعر تک۔
پس سخن کو تاہ بایدوالسلام
بعد ازاں مولانا نے فرمایا۔پہلے اس سے کہ تمہارے دل سے یہ خواہش پیدا ہو۔عالم غیب سے میرے دل میں یہ بات القا کی گئی تھی کہ اس قسم کی کتاب نظم کی جائے۔تب پورے اہتمام سے مثنوی کی نظم شروع کردی۔کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ اول شب سے طلوع فجر تک مولانا تصنیف کرتے اور شپلی حسام الدین لکھتے جاتے تھے،اور اس کے مجموعہ کو بلند آواز سے مولانا کی خدمت میں پڑھتے تھے۔جب پہلی جلد ختم ہو چکی،تو چپلی حسام الدین کی بیوی فوت ہوگئیں اور اسی درمیان میں سستی آگئی۔دو سال کے بعد چپلی حسام الدین نے مولانا کی خدمت میں بڑی عاجزی سے بقیہ مثنوی کے پورا کرنے کے لیے درخواست کی ۔چنانچہ دوسری جلد کے شروع میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔
مدتے ایں مثنوی تاخیر شد مھلتے بایست تا خوں شیر شد
بعد ازاں آخر تک مولانا فرماتے تھے ،اور چپلی حسام الدین لکھتے جاتے تھے۔ایک دن چپلی حسام الدین نے کہا کہ جس وقت اصحاب مثنوی مخدومی کو پڑھتے ہیں،اور اہل حضور اس کے نور میں مستغرق ہوجاتے ہیں،تو میں دیکھتا ہوں کہ ایک غیبی جماعت ہاتھوں میں تلواریں لئے ہوئی،دور باش کرتی ہوئی،حاضر ہوتی ہے۔جو شخص اخلاص سے اس کو نہیں سنتے۔ان کے ایمان کی جڑوں اور دین کی شاخوں کے کاٹتے ہیں،اور کشا ں کشاں دوزخ کے گڑھے میں لے جاتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے،جیسا کہ تم نے دیکھا ہے۔
دشمن ایں حرم ایندم در نظر شد مثل سرنگوں اندر سقر
اے حسام الدین تو دیدی حال او حق عوذت پاسخ افعال او
(نفحاتُ الاُنس)