حضرت شیخ حسن طاہر دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ راجی حامد شاہ کے مرید تھے سید نور بن حامد شاہ کی مجالس سے بھی فیض پایا تھا آپ کے والد شیخ طاہر ملتان سے چل کر دہلی آئے اور دینی علوم حاصل کرنے لگے ایک عرصہ تک بہار چلے گئے اور وہاں رہ کر شیخ بدہ حقانی کے مدرسہ میں پڑھتے رہے شیخ حسن بہار میں ہی پیدا ہوئے ہوش سنبھالا تو دینی علوم میں مصروف ہوگئے اور ساتھ ساتھ ہی معرفت کی منازل طے کرتے رہے اور درویشوں کی صحبت میں رہنے لگے
ان دنوں آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم ایک بزرگ سے پڑھنا شروع کی آپ کے والد فصوص کے اسرار سے بیگانہ بھی تھے اور خلاف بھی تھے ایک دن والد نے آپ سے توحید و جودی کے موضوع پر گفتگو کی آپ نے ظاہری علوم کی روشنی میں اس مسئلہ پر بات کی جس سے آپ کو اطمینان ہوگیا اس دن کے بعد آپ نے فصوص کی مخالفت چھوڑدی انہی دنوں شیخ راجی حامد شاہ کی مشیخیت کی شہرت سارے ہندوستان میں پھیلی تھی۔ شیخ طاہر حسن آپ کو دیکھنے گئے پہلی ملاقات میں ہی آپ مرید ہوگئے علمائے کرام میں سے جو شخص سب سے پہلے آپ کے حلقہ ارادت میں آیا حضرت شیخ حسن طاہر تھے آپ اگرچہ جونپور کے مشائخ میں سے تھے مگر سلطان سکندر لودھی لہ درخواست پر جونپور سے دہلی آئے۔
سلطان سکندر کا ایک بھائی آپ کا مرید تھا۔ اس کے دماغ میں ہمیشہ سلطنت حاصل کرنے کی کشمکش تھی ایک روز آہپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اصرار کرنے لگا کہ میرے لیے سلطنت دہلی کی دعافرمائیں حضرے شیخ نے اسے اس ارادے سے روکا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے بھائی کو امورِ سلطنت دئیے ہیں تم اس کی سلطنت میں رہ کر خدمت خلق کرو۔ یہ بات سلطان سکندر نے سنی تو وہ آپ کا مزید معتقد ہوگیا۔ آپ کو نہایت احترام سے اپنے شاہی قلعہ کے قریب کوشک بجی منڈل جو سلطان محمد تغلق کے قلعہ میں ہی ٹھہریا۔ آپ تادم وفات وہاں ہی قیام فرما رہے۔
اخبار الاخیار اور معارج الولائیت کے مولفین نے آپ کا یوم وفات چوبیس ربیع الاول ۹۰۹ھ لکھا ہے علم سلوک و توحید میں آپ کی ایک کتاب مفتاح الفیض بڑی گراں قدر ہے۔
شد ز دنیا چو در بہشت بریں
حسن آن محسن جہاں مرحوم
ہر دو تاریک رحلتش سرور
زیب فیض است قطب حق مخدوم
۹۰۹ھ ۹۰۹ھ
آپ راجی حامد شاہ کے مریدوں میں سے تھے اور راجی سید نور کے خلیفہ تھے، آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ طاہر تھا وہ ملتان سے بہار گئے اور عرصہ دراز تک شیخ بڈہ حقانی سے تعلیم حاصل کرتے رہے، بہار ہی میں شیخ حسن طاہر پیدا ہوئے، شیخ حسن کو جوانی ہی کے زمانہ میں طلب حق کا درد دامن گیر تھا، اس لیے درویشوں ہی کی صحبت میں رہے۔
آپ نے اسی زمانے میں فصوص الحکم ایک بزرگ سے شروع کی اور آپ کے والد صاحب فصوص الحکم کے مخالف تھے، انہوں نے ایک دن مسئلہ توحید کے متعلق آپ سے دریافت کیا تو آپ نے اس مسئلہ کو علمائے ظاہر کی طرح ایسی وضاحت سے بیان کیا کہ آپ کے والد صاحب کے بھی چند اشکال ختم ہوگئے اس کے بعد پھر آپ کو فصوص الحکم کے پڑھنے سے منع نہ فرماتے، اسی زمانے میں راجی حامد شاہ کی بزرگی اور ولایت کی عام و خاص میں شہرت ہوگئی تھی، شیخ حسن بھی امتحان کی غرض سےان کے پاس گئے اور پہلی ہی ملاقات میں اُن کے معتقد ہوگئے
زہرہ آنم کہ بایں جاذبہ شوق
رخسار ترابینم و بے تاب و نگردم
علماء میں سے آپ ہی پہلے عالِم ہیں جو سید راجی شاہ کے مرید ہوئے تھے، اور وہ جونپور کے مشائخ میں سے تھے، سلطان سکندر کے زمانے میں اسی کی خواہش سے ادھر آئے تھے۔
سلطان سکندر کا ایک بھائی جس پر سلطنت کے حصول کا جنون سوار تھا وہ آپ کا مرید تھا، اسی خیال کو لے کر وہ ایک دن آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا، کہ حضرت دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ دہلی کی حکومت مجھے عنایت فرمائے، آپ نے اس کو اس خام خیالی سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے تمہارے ایک بھائی کو سلطنت عطافرمائی ہے تم اس سے کوئی اختلاف و حسد وغیرہ نہ کرو بلکہ اس کے تابع ہوکر رہو، جب اس بات کی اطلاع سلطان سکندر کو ہوئی تو وہ آپ کی کرامت و دیانت کا معتقد ہوکر حاضر ہوا، وہ اس سے پہلے ہی دہلی کے مشائخ سے ملنا چاہتا تھا مگر اس بات نے اس کے اشتیاق ملاقات میں سونے پر سہاگے کا کام کیا۔
آپ ابتداً جونپور سے آگرہ تشریف لائے اور ایک عرصہ تک یہاں اقامت پذیر رہے اس کے بعد دہلی چلے گئے اور وہاں جے منڈل میں جس کا حصار و گنبد سلطان محمد تغلق نے تعمیر کرایا تھا مع اہل وعیال رہنے لگے اور یہیں آپ نے 24؍ ربیع الاول 909ھ میں وفات پائی، آپ کی اور آپ کی اکثر اولاد کی قبریں یہیں ہیں۔
طریقہ سلوک اور علم توحید پر آپ نے متعدد کتابیں لکھی ہیں، ان کتابوں میں سے ایک کتاب مفتاح الفیض ہے اس میں لکھتے ہیں۔
سُوال: سلوک کیا ہے اور سالک کیا ہے؟ تزکیہ قلب و نفس کیا ہے، اسی طرح تخلیہ سر اور تخلیہ روح کیا ہے، منزِل و جذبہ کیا ہیں، مقصد کہاں ہے اور وصول کہاں ہے، شریعت، طریقت، حقیقت کیا چیز ہے اور ان کا مقام کیا ہے؟
جواب: سلوک کے معنی لغت میں چلنا ہے اور حسی طور پر چلنے کے معنی ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا اور یہاں سلوک سے معنی چلنا مراد ہے اور اسی انتقال کو مرتبہ نفس میں تزکیہ کہتے ہیں۔ اور تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ حیوانی اوصاف کو ترک کرکے ملائکہ کے اوصاف سے متصف ہوجانا اور نفس امارہ کو نفس لوامہ اور مطمنہ کے تابع کردینا۔ دل کے سلوک کو تصفیہ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے دل کو دنیا کی تمام فکروں اور رنج وغم کے زنگار سے صاف رکھا جائے۔ تخلیہ سریہ ہے کہ اپنے سر میں کسی ماسوی اللہ کی کوئی خواہش نہ رکھے اور اللہ کے علاوہ خواہ وہ جنت ہی کیوں نہ ہو کوئی خیال نہ کرے اور اپنے سر کی نگہداشت کرے یعنی اپنے دماغ میں غیر اللہ کا تصور تک نہ آنے دے اور اگر اچانک ماسوی اللہ کا کوئی خیال و تصور آبھی جائے تو فوراً اس کو نکال کر پھینک دے۔ تجلی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذوق و شوق اور اسرار و انوار کے ذریعہ روح کو پاک و صاف اور ان اوصاف سے مزین رکھے،حقیقت سلوک سے مراد یہ ہے کہ حیوانی اور انسانی جملہ اوصاف سے نکل کر خدائی اوصاف اور اخلاق کو اپنالیے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے، تغلقوا باخلاق اللہ۔
حضرت قطب عالم نے اپنے رسالہ مہمات میں شریعت، طریقت اور حقیقت کے متعلق لکھا ہے کہ شریعت نام ہے اتباع و فرنبرداری کا اور طریقت کہتے ہیں تمام سے انقطاع کرنے اور حقیقت اطلاع اور خبر داری کو کہتے ہیں۔
غرضیکہ شریعت نام ہے انقیاد کا: طریقت نام ہے اپنے نفس پر تنقید کرنے کا اور حقیقت نام ہے اتحاد کا جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ شریعت درمیانہ روی اور اعتدال کو کہتے ہیں، اور طریقت اپنے کو چھوڑ دینا، اور حقیقت دوست سے مل جانے کو کہتے ہیں یعنی بطیّب خاطر فرمانبرداری کرنا شریعت ہے، غیر سے بیزاری طریقت ہے دوست سے برخورداری کرنا حقیقت ہے۔
شریع غنا ہے اور طریقت فنا ہوجانے کو کہتے ہیں اور حقیقت بقاء کو کہتے ہیں، سالک ابتداً اچھی کیفیت رکھتا ہے، درمیان میں معاد کی عقل پیدا ہوجاتی ہے اور آخر کار وہ اللہ کا نور پہچانتا ہے، اللہ تک پہنچنے کے لیےکوئی راستہ اور منزل نہیں ہے کیونکہ راستہ تو ہمیشہ دوچیزوں کے درمیان ہونا ہے اور جب سالک اور اللہ عَزَوَّجَل کے درمیان دوری ہی نہیں تو نہ راستہ کی ضرورت ہے اور نہ منزِل کی۔
منصور حلاج سے لوگوں نے دریافت کیا تھا کہ راستہ کیاہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ راستہ دوچیزوں کے درمیان والی چیز کو کہتے ہیں اور اللہ تک پہنچنے کے لیے بے انتہا منزلیں ہیں کیونکہ اس کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں اور مطلب یہ ہے کہ انسان کو وحدت حقیقی تک رسائی ہو اور شرک و احساس غیریت سے نفرت ہوجائے اور جذبہ کے معنی خاص رَحَمت کے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے (اے اللہ میں تجھ سے اس رَحَمت کا طلب گار ہوں جس سے میرا دل راہ راست پر آجائے)اسی کا نام فیض حق بھی ہے (اور اس جذبہ کی اتنی قدرو قیمت ہے کہ) ایک جذبہ حق، جنون اور انسانوں کے عمل کے مساوی ہوتا ہے۔
یک ذرہ عنایت تو اے بندہ نواز
تیرے رب کی بعض ایام میں کچھ خصوصی رَحمتیں ہوتی ہیں انہیں ضرور حاصل کیا کرو۔
تو مستحق نظر شو کمال و قابل فیض
کہ منقطع نشو و فیض ہرگز ازفیاض
اوراسی کی طرف آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشارہ فرمایا کہ (یمن کی طرف سے مجھے نفس الرحمان کی خوشبو محسوس ہوتی ہے)
مرد باید کہ بوئے داند برد!
ورنہ عالم پر از نسیم صبا است
دریں دیار ازاں سرخوشم کہ گاہ گاہے
نسیم بوئے توام زیں دیارمے آید!
یہ کبھی دائمی تجلی اور فیض حق ہی کی طرف اشارہ ہے، جذبہ حق اور وصولی الی الحق کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تخیلات اور غیریت سے انقطاع اور علیحدگی اختیار کرلی جائے اور وجود مطلق کی ذات میں جہل و علم کو مرتفع اور ختم کردے۔
اخبار الاخیار