شیخ الہندحضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: شیخ سلیم چشتی۔لقب: عرب میں آپ کو "شیخ الہند"کےلقب سےپکاراجاتاہے۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ سلیم الدین بن بہاءالدین بن شیخ سلطان بن شیخ آدم بن شیخ موسیٰ بن شیخ مودودبن شیخ بدرالدین بن شیخ فریدالدین مسعودگنج شکررحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔ آپ حضرت بابافریدالدین گنج شکررکی اولادسےہیں۔آپ کی والدہ کانام بی بی احد ہے۔آپ کےآباؤاجداداجودھن سےہجرت کرکےلدھیانہ آئے،کچھ عرصہ لدھیانہ میں رہے،پھر دہلی میں سکونت اختیارکی،آپ کےوالدین دہلی سےترک سکونت کرکےفتح پورسیکری میں رہنےلگے۔
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت 897ھ،مطابق1492ء کو دہلی کےاس وقت کے محلہسرائےعلاءالدین زندہ پیرمیں ہوئی۔(اخبار الاخیار:656/سفینۃ الاولیاء:241/چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:133)
بچپن کی کرامت:آپ نےپیداہوتےہی سجدہ کیا۔آپ کی پیشانی میں دھان کاایک دانہ چبھ گیا۔اس کانشان پیشانی پرتمام عمررہا۔ایک بار اس واقعہ کاذکرکرتےہوئےآپ نےفرمایاکہ دھان کےدانےچبھنے سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔اس کو نکالناچاہا،لیکن اس خیال سے نہیں نکالاکہ لوگوں میں اس بات کا چرچاہوگا۔
تحصیلِ علم:ابھی آپ کم سن ہی تھےکہ والدین کاسایہ سرسےاٹھ گیا۔آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے بڑےبھائی کےزیرِ سایہ ہوئی۔آپ کےبڑےبھائی شیخ موسیٰ نےآپ کی تربیت پرخصوصی توجہ دی۔سنِ بلوغ پرپہنچ کرآپ نے تحصیلِ علم کےلئےسفرکاارادہ کیا،اپنےبڑے بھائی سےاجازت مانگی،آپ کےبڑےبھائی نے آپ کواجازت نہیں دی اورکہاکہ میری اولاد نہیں ہے،اور میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا ہے،لہذا تمھاری جدائی برداشت نہیں ہوگی۔یہ سن کرآپ نےاپنےبڑے بھائی سےکہاکہ ناامیدنہ ہوناچاہیے،آپ کےہاں انشاء اللہ لڑکاپیداہوگااور تمھارا گھرروشن ہوگا،چنانچہ ایساہی ہوا،نومہینےکےبعدشیخ موسیٰ کےہاں لڑکاپیداہوا۔
پھرآپ نے برادر اکبر کی اجازت ورضامندی سے مزید تحصیل علم کےلئےفتح پورسیکری سےسرہندتشریف لائےاورملک العلماء شیخ مجدالدین سےعلوم ظاہری کی تکمیل کی، جس زمانےمیں آپ کاقیام سرہندمیں تھا،آپ کبھی کبھی قصبہ بدالی جاتےاورحضرت شیخ زین العابدین چشتی کےمزارسےفیوض و برکات حاصل کرتے۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:209)۔آپ کوتمام علوم کےجامع تھے۔
بیعت و خلافت:سیروسیاحت کےدوران آپ بہت سےبزرگوں اوردرویشوں سےملےاوران سے فیوض و برکات حاصل کئے،حضرت شیخ ابراہیم چشتی کےدست حق پرست پرآپ بیعت ہوئےاوران سے خرقہ خلافت پایا۔
سیرت وخصائص: سید الاولیاء،سندا لاتقیاء،رئیس الصوفیاء،جامع الکمالات،عارف بااللہ،واصل باللہ،متصرف الامور،نادرالوجود،صاحب الیقین حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی رحمۃا للہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کمالات علمیہ وروحانیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔حضرت شیخ الاسلام فریدالدین مسعود گنج شکر سے خاندانی تعلق تھا۔آپ حضرت گنج شکر کے روحانی کمالات کے پرتوِجمیل تھے۔آپ کےتصرفات وکرامات کاشہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔آپ کوہ سیکری کےبیابان جنگلات وغاروں میں اقامت گزیں ہوتے،لیکن اس کےباوجود مخلوق خداکا ایک جم غفیر آپ کی خدمت میں حاضر رہتا۔آپ نےاس جنگل کواپنی عبادت ریاضت کی برکت سےمخلوق خدا کی دلوں کی تسکین بنادیا تھا۔جہاں بھی آپ تشریف لےجاتےآپ کی ذات مرجعِ خلائق بن جاتی،جب آپ حرمین طیبین تشریف لےگئےتوعرب شریف میں’’شیخ الہند‘‘ کےلقب سےملقب ہوئے۔تمام عمر صوم وصال رکھتے،بےانتہا عبادت وریاضت گزارتھے۔آپ کی مشقتیں دیکھ کر حضرت بابافرید گنج شکر کے مجاہدات شاقہ کی یاد تازہ ہوجاتی۔ابتدائی ایام جوانی میں مجاہدین جیسا لباس زیبتن فرماتے۔(اخبار الاخیار:656)
آپ صاحب علم وفضل،جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے،زہدوتقویٰ،ریاضت،مجاہدات،ترک وتجرید،تحمل،بردباری میں یگانہ عصرتھے،جب تک آپ بہت کمزوروضعیف نہ ہوگئے،آپ نےطے کے روزے نہیں چھوڑے،آپ کوپراناسرکہ اورٹھنڈی ترکاریاں بہت مرغوب تھیں،ٹھنڈے پانی سےروزانہ غسل فرماتےتھے،کیسی ہی سردی ہو،آپ کےلباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، جاڑےکےموسم میں بھی باریک کرتازیب تن فرماتےتھے،نمازاول وقت پڑھتےتھے۔آپ کی نشست گاہ بالکل امیروں اور حاکموں کی طرح تھی۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سےجوخلاف شریعت ہیںطاقت سے روکتےتھے،جب آپ محفل میں رونق افروز ہوتےتوہرشخص پر نگاہ رکھتے،کسی کوڈانٹتے،کسی کو نصیحت فرماتےاورکسی کو تعلیم وتلقین فرماتے۔(اخبارا لاخیار:657/تذکرہ اولیائے پاک وہند:210)
تعلیم سے فراغت کےبعد1525ء کوحج کےلئے تشریف لےگئے۔مکہ معظمہ ومدینہ کےعلاوہ بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے ہوئے،ہندوستان فتح پور سیکری تشریف لائے۔یہاں خانقاہ تعمیر کرائی،کنوئیں کھدوائے،اور تلقین وارشاد میں مصروف ہوگئے۔حضرت سلیم چشتی نے24 حج کیے تھے۔جب آخری مرتبہ حج کےلیے تشریف لےگئے توچار سال مکہ میں اور چار سال مدینہ منورہ میں گزارے۔حج کےایام مکے میں اور میلاد کےایام مدینے میں گزارتے تھے۔(چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:134)
سلاطین سے تعلقات:علاوہ امراء کےسلاطین بھی آپ کےمعتقدتھے۔خواص خاں جوامرائےکبارمیں تھا،آپ سے بہت عقیدت رکھتاتھا،کئی بادشاہ آپ کےمعتقد تھے۔شیرشاہ، سلیم شاہ(جہانگیر) اوراکبرآپ سےارادت وعقیدت رکھتےتھےاوربہت خلوص،محبت اورعزت اورتعظیم و تکریم سےآپ سے پیش آتےتھے۔
جہانگیر بادشاہ کی پیدائش آپ کی دعا کی بدولت ہوئی:شہنشاہ اکبرکا کوئی لڑکانہ تھا،آپ سے دعاکاطالب ہوا،آپ نےمراقبہ کیااورشہنشاہ اکبرسے کہا:’’افسوسکہ تیری تقدیرمیں بیٹانہیں ہے‘‘۔شہنشاہ اکبرنےیہ سن کرآپ سےعرض کیا۔چونکہ میری تقدیرمیں بیٹانہیں ہے،اسی لئےتوآپ سےعرض کیاہے،آپ دعاکیجئے۔(یعنی اگر تقدیر میں ہوتا تو ویسے ہی مل جاتا،آپ کی بارگاہ میں آنے کا کیافائدہ؟)۔آپ شہنشاہ اکبرکےاس جواب سےخوش ہوئے،تھوڑی دیرمراقبہ کیااورپھرفرمایا۔"اس ملک میں راجپوتوں کی حکومت بہت عرصہ تک رہےگی۔اچھاکلاپنی بیگم کومیری بیوی کے پاس بھیج دینا"۔دوسرےدن جب بادشاہ کی بیگم آپ کےیہاں آئی توآپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کورانی کی پشت سے پشت ملاکربیٹھنےکاحکم دیا،جب آپ کی اہلیہ محترمہ رانی کی پشت سے پشت ملاکربیٹھیں توآپ نےاپنی چادر دونوں پرڈال دی،پھراپنی اہلیہ محترمہ سےفرمایاکہ اپناہونےوالافرزندرانی کودےدو۔جب بادشاہ بیگم کےلڑکاپیداہواتواس لڑکےکانام آپ نےاپنےنام پر"سلیم"رکھا،شہزادہ سلیم آپ کو "شیخوبابا"کہاکرتاتھا،شہزادہ سلیم اپنےوالدشہنشاہ اکبرکےانتقال کےبعدتخت وتاج کامالک ہوااور "جہاں گیر"کےلقب سےمشہورہوا۔اکبر نےشہر فتح پور آپ کی عقیدت میں تعمیر کرایا تھا۔اس وقت اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی۔اِس وقت بھی اس کی اکثر تعمیرات اپنی خوبصورتی ،اور فن تعمیر کا شاہکار ہنے کی وجہ سے عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔
ایک مرتبہ کاواقعہ ہےکہ آپ حجرے سےنمازکےلئےمسجدجارہےتھے، ایک فقیرکودیکھاکہ سورہاتھا،آپ نےاس کوجگایااوراس سےفرمایا۔"فقیروں کوکسی سےلڑنانہیں چاہیے"۔وہ فقیریہ سن کر شرمندہ ہوااوراقرارکیاکہ واقعی وہ خواب میں لڑرہاتھا۔آپ نےفتح پورسیکری کےلوگوں سےشاہی عمارت تعمیرہونےسےپندرہ سال قبل فرمایاتھاکہ لوگوں کوچاہیےکہ مکانات کشادہ بنالیں،ورنہ پھرجگہ نہیں ملےگی۔
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 29/رمضان المبارک 979ھ مطابق ماہ فروری 1572ء کوہوا۔آپ کا عالی شان مزارفتح پورسیکری میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اولیائے پاک وہند۔اخبار الاخیار۔چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر۔