حضرت شیخ حسین ساکن سکندرہ علیہ الرحمۃ
آپ شیخ صفی الدین سائی پوری کے اعاظم خلفاء میں سے ہیں۔ پہلے بڑے سرمایہ دار تھے۔ اور سخاوت کا جوہر کامل ان کے اندر موجود تھا۔ (بڑے سخی تھے) تیر اندازی، گھوڑ دوڑ، چوگان بازی اور فنونِ سپہ گری میں ایسا کمال رکھتے تھے کہ آپ ک ان کمالات سے بادشاہِ وقت اور امراء و عمائد بھی آگاہ تھے اچانک عنایت الہی کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوا اور ان کو دنیا کی آلائش سے پاک کر دیا۔ بنام دنیاوی مال و متاع سے دست بردار ہو گئے۔ ان پر ایک وحشت طاری ہو گئی۔ اور اس حالت میں ایک دن اور ایک رات ایک درخت پر گذاری۔ اور پرندہ کی طرح جو اپنے سر کو پروں میں چھپا لیتا ہے۔ استغراق کے عالم میں سر گفندہ بیٹھے رہے۔ اسی حالت میں کشش محبت کی کمند نے حرمینِ شریفین کی جانب انہیں کھینچا۔ اور وہ اس سعادتِ عظمیٰ کے حصول میں کامیاب ہوئے (شرفِ حج سے بہر مند ہوئے) ایک رات سیّد کائناتﷺ کی عالمِ خواب میں زیارت ہوئی۔ سرکارِاقدسﷺ نے ارشاد فرمایا۔
""ہندوستان واپس جانا چاہئے اور سائی پور میں تمہیں شیخ صفی الدین کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہئے شیخ حسین کہتے ہیں کہ جب میں سائی پور پہنچا۔ میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ کیا اچھا ہو کہ شیخ مجھے خود خلوت میں طلب فرمائیں۔ اور بغیر میرے عرض کیے ہوئے سرِ مبارک سے کلاہ اتار کر مجھے عنایت فرمائیں۔ اور کوئی جگہ میری عبادت کے لیے مخصوص فرما دیں۔ جب میں سعادت کی دہلیز تک پہنچا تو شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے خادم سے فرمایا۔ شیخ حسین نامی ایک شخص دروازہ پر کھڑا ہے۔ اس سے کہو کہ اندر جائے۔ خادم باہر آیا اس نے آواز لگائی کہ شیخ حسین کون ہے؟ میں قلندروں کی طرح فقراء کا بستر اٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔ میں نے کہا کہ میرا نام حسین ہے لیکن میں شیخ نہیں ہوں۔ خادم واپس چلاگیا اور اس نے عرض کیا۔ ارشاد فرمایا وہی ہے خادم واپس آیا اور مجھ کو خدمتِ اقدس میں۔ شیخ انتہائی مہربانی کے ساتھ متوجہ ہوئے۔ اور کلاہ خاص پہنائی اور خانقاہِ ملائک پناہ میں جگہ دی۔ میں نے خانقاہ میں دو چلّے کھینچے۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ سکندرہ میں جاؤ۔ اور وہاں خلقِ خدا کی رہنمائی کرو۔ آپ پچاس سال تک گوشہ نشین رہے۔ اور کسی مخلوق کے دروازہ پر فقر کی آبرو نہیں گنوائی۔ (یعنی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا)۔ راقم الحروف آزاد بلگرامی مولف مآثر الکرام، شیخ صفی قدس سرہٗ کے ساتھ "شیخ حسین" کی ملاقات کا حال "صاحب گلزارِ ابرار" کی روایت کے مطابق عبارت کی تبدیلی اور معنی کے تحفظ کے ساتھ یعنی بعینہٖ تحریر کرتا ہے۔ سر سید الواحد "سنابل" میں کہتے ہیں۔"
"حضرت محذومی قدس سرہٗ کو جب ہدایت الہی کے جذبہ اور بے پایاں الطاف کی کشش نے دستگیری کو تو ان کی باطنی خواہشات اور دنیاوی لذات سرد پڑ گئیں۔ امارت و ثروت اور دنیا کی دولت سب کو ٹھکرا دیا۔ اور حضرت ابراہیم [1]ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح فقر و فاقہ کو اپنا رفیق بنا لیا۔ اور اس فقر پر جو امیری کے بعد حاصل ہوا " اسی طرح راضی اور شکر گذار رہے جیسے دوسرے اپنے اس امارات پر مطمئن اور مسرور ہوتے ہیں جو فقر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے ان کو امیری کی حالت میں دیکھا تھا۔ وہ لوگ جب حالتِ فرق و بے سامانی پر ان کی مسرّت دیکھتے تو تعجب کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ وہ امیری اور دولت اور وہ رعب و شوکت اور وہ پہلوانی اور بہادری، تیر اندازی کی صفت اور میدان بازی کا پیشہ اور وہ بذل و عطاء ان سب کو ٹھکرا کر (چھوڑ کر) یہ شخص اس بے سرو سامانی پر خوش ہے حضرت مخدوم بعض لوگوں کو جواب دیتے تھے۔ کہ اگر خدا غریب نواز نہ ہوتا تو ان تلخیوں سے مجھے کون نجات دلاتا۔ اور صبر و قناعت کے درجہ تک کون پہنچاتا۔ اور بعض کو جواب دیتے کہ اے دوستو! اللہ تعالیٰ کا شکر اس حالت میں مجھ پر بہت زیادہ واجب ہے کہ میرا نام امیروں کی کتاب سے نکال کر فقیروں اور مسکینوں کے رسالہ میں لکھ دیا ہے۔ اور پیرانِ طریقت کے سلسلہ میں شامل کر دیا ہے کہ الدنیا ملعونۃ وما فیھا الا ذکر اللہ (دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سوائے ذکر الہی کے سب ملعون ہے)۔ غرض یہ کہ مرد کو چاہئے کہ فقراء کے راستہ میں قدم کو مضبوط رکھے اور فاقہ اور بے سرو سامانی کی سختی سے نہ گھبرائے
چیست دنیا خاکدانِ کہند و دیرانۂ |
غصّہ جائے محنت آبادئِ ملامت خانۂ |
حضرت مخدوم کی عمر شریف جب اختتام کو پہنچنے والی ہوئی تو آخری دنوں میں کبھی کبھی ارشاد فرماتے تھے کہ میری یہ تمنا ہے کہ موت کے وقت کوئی "خوش الحان" اس آیت کریمہ کو "گوری" اور "جت سری" راگوں میں جوہندی راگوں میں سے ہیں پڑھے۔ آیت کریمہ یہ ہے۔
"رب قد اٰتیتنی من الملک وعلّمتنی من تاویل الاحادیث فاطرالسّموات و الارض انت ولیتی فی الدنیا والاٰخرۃ توفنی مسلماً والحقنی بالصالحین"
یہاں تک کہ توفنی مسلماً والحقنی بالصالحین پر میرا دم نکل جائے۔ (مولف "گلزارا برار" کا بیان ختم ہوا)۔ اور یہ ابھی اسی سلسلہ کی بات ہے کہ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین دہلوی قدس سرہٗ کو "راگ پور بی" بہت پسند تھا۔ ایک مرتبہ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے پوچھا کہ حضور پوربی کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ اور خوش ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں! میثاق کے دن الست بربکم کی صدا میں نے اسی راگ میں سنی تھی۔
بیان کیا گیا ہے کہ جب شیخ مخدوم کی وفات کا وقت قریب آیا تو "مسجد کوری" کے میدان میں قیام فرما ہوئے۔ اور وہاں عمارت کی بنیاد ڈالی۔ دوستوں کے ساتھ رخصتی گفتگو فرمائی۔ لوگ حیرت زدہ ہوئے۔ جب تعمیر مکمل ہو چکی تو کشادہ پیشانی کے ساتھ جان شیریں جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔
[1]ابراہیم ابن ادہم ابن منصور ابو الاسحاق ۱۶۱ھ۔ ۷۷۸ء) القمیمی و بلخی بڑے دیندار لوگوں میں سے تھے۔ ان کے حالات اور علماء کبار سے اخذِ علم کے واقعات مشہور ہیں۔ ان کے حالات میں اختلاف ہے۔
کسی نے کچھ کہا ہے اور کسی نے کچھ کہا ہے۔ مکتبہ ظاہر یہ دمشق کی، سیرۃ السلطان ابراہیم ابن ادہم "میں قصیدہ عامیہ" اور سلمی طبقات الصوفیہ " میں سجدہ علیٰ کو رعمامہ والی حدیث جو حضرت ابنِعباس سے مروی ہے ان سے روایت کی گئی ہے ملاحظہ کیجئے ان کے حالات کے لیے (حلیۃ الاولیاء طبقات شطرانی، رسالہ قشیریہ صفوۃ الصفوہ، شذرات، فوات الوفیات، مرآۃ الجنان، تاریخ کبیر، تہذیب البدایہ والنہایہ۔)