حضرت شیخ ابراہیم مجذوب علیہ الرحمۃ
آپ وہی ہیں"جن کا ذکر شیخ نجیب الدین علی برغش کے حالات میں گزرا ہے کہ وہ عجیب دیوانہ تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ چند روز کچھ نہیں کھاتا اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک ہی دفعہ سوسیر کھا جاتا ہے۔اس کے حالات و کرامات عجیب بیان کرتے تھے۔مجھے ان کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔میں نے اس سے کہا"آایک دن باہم مل کر رہیں۔وہ ایک بار بھی مانتا نہ تھا۔آخر ایک دن میں نے اس کو بازار میں دیکھا۔جاڑے کا موسم تھا۔کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ ایک جگہ ہم مل کر رہیں"لیکن یہ شرط ہے کہ آج کی رات بازار کی مسجد میں رہیں۔پھر اس کے ساتھ مسجد میں گیا۔میں نے کہا"کھانا لاؤں؟ کہا"میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔پھر وہ چلاگیا۔بارش پڑنی شروع ہوئی پر نالے بہ نکلے۔جب مغرب اور عشاء کی نماز ہم نے پڑھ لی اور لوگ مسجد سے باہر چلے گئے۔تب میں اور وہ تنہا مسجد میں رہ گئے۔اس وقت کہا کہ میں بھوکا ہوں"کچھ کھانا لاؤ کہ میں کھاؤں۔اندھیری رات تھی اور برف پڑ رہی تھی۔بارش ہو رہی تھی۔میں نے چند دینار زر جو کہ میرے پاس تھے۔اس کو دئیے اور کہا اس وقت معاف رکھو۔کیونکہ ظاہر ہے عذر ہے۔اس زر سے کل کو غذا لےلینا۔وہ زر تو لے لیا اور تھوڑی دیر صبر کیا،لیکن پھر یہ کہا کہ میں بھوکا ہوں،اٹھ اور کچھ لا کہ میں کھاؤں۔میرا گھر مسجد دور تھا،لیکن اس مسجد کے قریب میرا ایک رشتہ دار مال دار تھا۔میں اس کے گھر گیا اور جب میں سن چکا تھا کہ وہ بہت کھانا کھاتا ہے۔میں نے کہا،ایک جماعت میری مہمان آگئی ہے اور یہ میں نے اس معنی میں کہا کہ ہر شخص حقیقت میں ایک جماعت ہے۔کیونکہ اس میں لطائف ہیں۔یعنی نفس،قلب،روح وغیرہ۔انہوں نے کہا،دیر ہوگئی اور کھانا پختہ نہیں رہا۔ان کے خدمت گار تھے۔ہر ایک کے سر پر ایک بھرا ہوا،طشت کچے چاول کا اور بعض طشت کچے باقلا اور بعض پنیر اور بعض چنے وگیہوں اور ایک دنبہ قدید(بھنا ہوا گوشت)میرے ساتھ مسجد میں لائے اور کہاکہ خود پکالو۔میں نے یہ سب طشت اس کے سامنے رکھ دئیےاور دل میں تخمینہ کیا تو وہ سب پچاس سیر وزن تھا۔میں نے کہا،صبر کر کہ اس کو پکالو۔کہا، میں ویسے ہی کھاؤں گا۔سب کو کچا کھا گیا۔ایک گھڑی صبر کیا۔ایک سائل کی آوازآئی جو مانگتا پھرتا تھا۔مسجد سے باہر دوڑا اور جو کچھ اس نے جمع کیا تھا،اس سے لے لیا۔دس سیر کے قدر روٹیوں کے ٹکڑے اور کھانا تھا۔مسجد میں لے آیا اور سب کھا گیا۔جب آدھی رات گزری تو مجھ سے کہا،اٹھ اور مسجد کے گوشہ میں جاکر سو رہو۔کیونکہ تم نے مجھ سے بڑی تکلیف اٹھائی ہے،اگر کوئی حرکت کی یا ہلا تو تجھے ہلاک کر ڈالوں گا۔میں مسجد کے گوشہ میں جا کر سو رہااور یہ طاقت نہ رکھتا تھاکہ حرکت کروں۔چنانچہ اگر مجھے کہیں کھجلی ہوتی تو کھجلنے کی حرکت نہ کرتا۔اس مسجد میں ایک بڑا پتھر رکھا ہوا تھا۔ہر دم اٹھاتا اور اس پتھر کو پکڑتااور میرے سرہانے لاتا اور اپنے آپ کو کہ اس پتھر سے اس کو ماروں گااور ہلاک کردوں گا۔پھر آپ ہی کہتا کہ یہ جائز نہیں۔کیونکہ اس کا باپ بوڑھا ہے۔کل کو روئے گا۔اس پتھر کو پھر وہیں جا کر رکھ دیتا۔چند دفعہ ایسا ہی کیا۔مجھ کوڈر کے مارے نیند نہ آئی تھی،لیکن اپنے آپ کو ایساظاہر کیا کہ میں سوتا ہوں۔پھر کہنے لگا،میں جانتا ہوں کہ تم نہیں سوتے ہو۔تجھ کو بہت تکلیگ دیتا ہوں۔اب می ننے تم کو خدا کے لیے معاف کیا۔میں مسجد کے چھت پر جاتا ہوں۔تاکہ تو آرام سے سورہے۔پھر وہ چھت چلا گیا۔میں ڈر تا وہا گیا اور ہجر کا درازہ باہر سے بند کر دیااور سو رہا۔اس کے کھانے کی آواز آتی تھی۔میں نے تعجب کیا کہ وہ کیا کھاتا ہے۔کیونکہ مجھے معلوم تھاکہ اندر کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔جب صبح کو باہر نکلا اور چلا گیا تو میں حجرہ میں گیا۔دیکھا تو کتابوں کی تمام جلدیں کھا گیا تھا۔
(نفحاتُ الاُنس)