آپ بڑے تارک الدنیا ولی اللہ تھے، مزدوری کرکے گذر بسر کرتے تھے، جب حج کی غرض سے مکہ معظمہ گئے تو کلہاڑی درانتی اور ایک رمبا بھی اپنے ہمراہ لیتے گئے، راستہ میں لکڑیاں اور گھاس بیچ کر وقت گزارتے تھے اور بھیک وغیرہ نہ مانگتے، نیز کسی سے تحفہ اور نذرانہ بھی قبول نہ فرماتے تھے، اپنے کو بزرگ نہ سمجھتے بلکہ ۔۔۔۔
آپ بڑے تارک الدنیا ولی اللہ تھے، مزدوری کرکے گذر بسر کرتے تھے، جب حج کی غرض سے مکہ معظمہ گئے تو کلہاڑی درانتی اور ایک رمبا بھی اپنے ہمراہ لیتے گئے، راستہ میں لکڑیاں اور گھاس بیچ کر وقت گزارتے تھے اور بھیک وغیرہ نہ مانگتے، نیز کسی سے تحفہ اور نذرانہ بھی قبول نہ فرماتے تھے، اپنے کو بزرگ نہ سمجھتے بلکہ ایک عام آدمی کی مانند رہتے تھے۔
کہتے ہیں کہ آپ سید زادہ تھے لیکن لوگوں پر کبھی ظاہر نہ کرتے کہ میں سید ہوں، عالم خاں نامی میواتی آپ کا مرید تھا اس نے متعدد بار درخواست کی حضرت اگر اجازت ہوتو آپ کے لیے ایک مکان اور خانقاہ بنوادوں مگر آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا اور اجازت نہ دی بلکہ یوں فرماتے کہ شیخ محمد ترک واقعی ولی اللہ ہیں تم جو عمارت میرے لیے بنوانا چاہتے ہو اس سے ان کا روضہ بنادو، ابتداً شیخ محمد ترک کا مقبرہ اور اس کی چار دیواری بہت پسند تھی لیکن عالم خاں میواتی نے اس پر ایک عظیم الشان گُنبد بنوایا جو اب تک موجود ہے۔
ملا محمد نارنولی شیخ حمزہ دھرسوی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے دادا اور شیخ صدرالدین کھرولی اور شیخ علم الدین حاجی یہ تینوں بزرگ حج کے لیے روانہ ہوئے جب سمندر عبور کرنے کے لیے سمندر کے کنارے پہنچتے تو ملاحوں نے کہاکہ جو اپنے کمزور رشتہ داروں کو چھوڑآیاہے وہ واپس چلاجائے اور اُن کے ساتھ صلہ رحمی کرے، ہم اسے نہیں لے جائیں گے، چنانچہ شیخ علم الدین نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی کلہاڑی، درانتی اور رمبا نکالا اور کہا کہ دیکھو یہ میرے متعلقین ہیں جو میرے ہمراہ ہیں، یہ بات سن کر ملاح ہنسنے لگے اور آپ کو کشتی میں سوار کرلیا، اور باقی دونوں ساتھی اپنے گھر لوٹ آئے، آپ کا مقبرہ شہر نارنول کے باہر دھرسورجانےوالی سڑک کے نزدیک ہے۔
اخبار الاخیار