مقبرہ شیخ عنایت اللہ و محمد صالح کمبوہ رحمتہ اللہ علیہ لاہور
شیخ محمد صالح رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے استاد کی وفات پر صرف کثیر سے مذکو رہ مقبرہ بنوایا تھا اور جب آپ نے وفات پائی تو خود بھی اپنے استاد کے پہلو میں اسی گنبد میں دفن ہوئے، کسی زمانہ میں اس کو گنبد کمبوہاں بھی کہا جاتا تھا، عمارت سنگ سرخ سے بنائی گئی تھی اور شکل ہشت پہلو ہے، سکھوں کے عہد میں اس کو بارود خانہ میں تبدیل کردیا گیا مگر انگر یزی عہد میں اس کو ایک انگر یز کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کچھ عرصہ یہ گنبد سیمو ر صاحب کی کوٹھی کہلا تا رہا جس میں بگھی خانہ اور با ورچی خانہ بنا دیا گیا،بعد ازاں اس کے ساتھ دو اور کمرے بناکر اس کوگرجے کی شکل دے دی گئی اور اب اسی کو ،سینٹ اینڈریو ز چرچ،کہتے ہیں۔
رائے بہادر کہنیا لال لکھتے ہیں کہ،سکھوں کے وقت دونوں سنگین قبریں جو سنگ سرخ کی تھیں گرادی گئیں نیز اس گنبد کے چار پہلو ؤں میں چار محرا بیں کلاں باہر کی سمت ہیں، جنوب کی طرف اوپر جانے کا زینہ بناہے اس گنبد کے قریب اور گنبد طو لانی و ضع کا بنا ہے جس میں ان دونوں کی اولاد کی قبریں تھیں جس کو بعد ازاں با روچی خانہ تبدیل کرلیا گیا۔
فا عبترہ ویا اولو الا بصار
عمل صالح، المشہو ر بادشاہ نامہ:
آپ نے عہد عا لمگیر ی کی تا ریخ، عمل صالح، کے نام سے تد وین کی تھی، اس میں شاہجہان کی ولا دت سے وفات تک حالات مند رج ہیں جو تاریخ عہد شاہجہا نی کا مستند اور بہترین ماخذ ہے کیونکہ مصنف نے تمام واقعات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا تھا، فارسی نثر میں بھی اس کتاب کا نہایت اونچا مقام ہے،جگہ جگہ فارسی زبان کو مسبع عبارت سے تحریر کیا گیا ہے۔
بہا ر سخن:
یہ بھی ملا صاحب کی نادر نایاب تصنیف ہے،اس کتاب کے چار حصے ہیں، پہلے حصہ میں بادشاہوں اور امرا کے مکا تیب ہیں، دوسرے حصہ کتاب میں مصنف کے ذاتی خطو ط ہیں،تیسرے حصہ میں جوکہ نہایت اہم حصہ ہے لاہور،دہلی اور آگرہ کی عما رات کا تذکرہ ہے ،چوتھے اور آخری حصہ میں عہد شاہجہان و عالمگیر ی کی تصا نیف پر تقا ریظ لکھی گئی ہیں، یہ حصہ خاصہ اہم ہے، کا نشی کاری کے اس دور میں جو عما رات ملا صاحب نے اور دوسرے امرائے کبا رنے لاہور کو عروس البلاد بنانے کےلیئے تیار کیں ان کی تفصیل اس کتاب میں ملتی ہے،اس عہد کے دو سرے مصنف چند ر بھان برہمن نے بھی اپنی کتاب،چہا ر چمن،میں لاہور کے باغات اور عما رات کا خصو صاً تذ کرہ کیا ہے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)