حضرت شیخ جمال الدین (جماد جمالی)
آپ علمی و عملی کمالات کے جامع تھے والد کا نام رشید الدین جمال تھا ہزاروں طلبہ روزانہ آپ سے مستفید ہوتے تھے ، آپ کا قیام ساموئی کے مقام پر خانقاہ میں تھا۔
جام تماچی اور جام صلا ح الدین جیسے شہزادے شب و روز آپ کی چوکھٹ پر جبیں سائی کو اپنے لیے باعث عزت و افتخار سمجھتے تھے اور آپ کے آستانہ پر جاروب کشی کو اپنا معمول بنارکھا تھا ، بعض حاسدوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی اور یہ بے پر کی اڑادی کہ جام تماچی حضرت کی خدمت میں اس لیے حاضر رہتا ہے کہ آپ کی وساطت سے حکومت پر قابض ہوجائے، جام جو نہ جوان دونوں شہزادوں کا باپ تھا جب اس نے یہ خبر سنی تو اس کے دل میں وہم پیدا ہوا اس نے دنوں شہزادوں کا باپ تھا جب اس نے یہ خبر سنی تو اس کے دل میں وہم پیدا ہوا اس نے دونوں شہزادوں کی خاموشی سے دہلی بھیج کر قید کرادیا ، اور خود حکومت کے مزے لوٹنے لگا۔ جب کافی دن بعد حضرت کو اپنے آستانہ کے پرانے جاروب کشوں کا خیال آیا تودریافت فرمایا مگر کسی ان کے حال زار کی خبر نہ تھی تفتیش و تحقیق کے بعد اصل واقعات معلوم ہوئے تو حضرت پر جلال کی کیفیت طاری ہو گئی اور سندھی زبان میں یہ شعر پڑھا۔
جو ٹو مٹ اٹو، جام تماچی آء
ساجھی اجھ پیئی، تو سین تنوراء
جب جام جو نہ کو معلوم ہوا کہ حضرت نے جام تماچی سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا ہے وہ توخاموشی سے آپ کی محفل میں آکر طلبہ کی صف میں بیٹھ گیا شیخ صاحب اپنی خانقاہ میں تھے آپ کی سعادت تھی کہ چہرے پر نقاب ڈالے رکھتے تھے اور اسی حالت میں طلبہ کو درس دیتے تھے ، جام جونہ نے گستاخا نہ انداز میں کہا بزرگوں اور درویشوں کا امور سلطنت سے کیا تعلق ؟ آپ نے جلال کی حالت میں فرمایا کہ زمین کا یہ خطہ ہمارےسپرد کیا گیا ہے، اور ہم نے اس متاع گراں بار کا بار اس کتے کی گردن میں ڈال دیا ہے (جام تماچی کی طرف اشارہ تھا) جام جونہ یہ سن کر دلگیر ہوا اور چلا گیا ؟ اسی رات حضرت نے جام تماچی کو خواب میں قید خانے سے باہر آنے اور وطن پہنچنے کا حکم دیا، جام تماچی خواب سے رات کے وقت ہی بیدار ہوگیا، اور یقین کیا کہ اباس کو رہائی سے کوئی روک نہیں سکتا ، وہ جیل کے مقفل دروازہ کی طرف بڑھا تو دروازہ حضرت کی کرامت سے خود بخود کھل گیا، پھر جیل کے جس دروازہ کی طرف بڑھتا وہ کھل جاتا، یہاں تک کہ شہر سے باہر نکل آیا صبح جب حاکم دہلی کو خبر ہوئی تو اس نے سپاہی دوڑائے، بالآخر دور سے انہوں نے جام تماچی کو پہچان کر گھوڑے اسی سمت دوڑائے جب قریب پہنچے تو ایسا گرد اڑا کہ تاریکی چھا گئی اور سپاہی ایک دوسرے کو پہچاننے سے قاصرے ہوگئے اور جب اندھیراچھٹا تو و ہ سب دہلی کی حدود ہی میں تھے اور جام تماچی اور جام صلاح الدین سندھ کی طرف روانہ ہوگئے، جب کیبران کے مقام پر پہنچے تو اس علاقہ کے درویش نوح کیبر بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے، اسی اثناء میں ایک شخص ان کے ریوڑ میں گھس آیا اس کو دیکھ کروہ بے ساختہ کہنے لگے تو جام تماچی کے حکم سے میر گلہ سے نکل جا دونوں بھائی درویش کی یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے اور اس کے قریب آئے اور اس سے اس کی بات کا مطلب دریافت کرنے لگے انہوں نے درویش سے کہا حاکم وقت تو جام جونہ ہے، اور جام تماچی دہلی میں قید ہے پھر حکم جام تماچی کا کس طرح چل سکتا ہے درویش بولے کہ یہ سب کچھ تو مجھے معلوم نہیں البتہ دوتین روز سے کیا چرند اور کیا پرند سب کی زبان پر یہی ہے کہ ‘‘حکم حکم جام تماچی است ’’یہ حضرا ت درویش سے اس بشارت کو سن کر حد درجہ مسرور و محفوظ ہوئے، اور پھر تمام ماجرا درویش سے کہہ سنایا ، دو تین دن بعد ساموئی کے پاس دریا کے قریب پہنچے جام صاح الدین نے جام تماچی کو وہیں چھوڑا اور خود کشتی میں سوار ہوکر ساموئی پہنچے اور حضرت کی خانقاہ میں حاضر ہوکر قدم بوسی کی تمام احوال کہہ سنائے، نیز جام تماچی کے اصلاح کے لیے درخواست کی حضرت نے اپنے مصلے سےایک دھاگہ نکال کردیا اور فرمایا کہ اس دھاگہ کو ایک لکڑی کے سرے پر باندھ کر جام تماچی سے سرے کے پاس بلند کردو، چناں چہ ایساہی کیا گیا ، خدا کی قدرت کہ ہزار ہا جھنڈے فضا میں بلند ہوگئے اور ہاتف غیبی سے غلغلہ بلند ہوا کہ ‘‘دور دور خلافت جام تماچی است’’ جام جونہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور سن کر بوکھلا گیا فوراًٍ قصر حکومت خالی دیکھ کر جام تماچی پورے کروفر کے ساتھ دریا عبور کر کے ساموئی میں داخل ہوا سب سے پہلے حضرت کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہو کر قدم بوس ہوا، پھر تخت حکومت پر متمکن ہواکسی نے خوب کہا ہے:
کار نہ این گنبد گردان کند
ہرچہ کند ہمت مردان کند
عقیدت مندی کا عالم یہ تھا کہ بارگاہ شیخ میں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوا کہ حضور حکومت آپ نے عطا کی ہے تو اب حدود حکومت بھی خود ہی متعین فرما دیں، حضرت نے فرمایا کہ یہاں سے کند کلائی تک اور وہاں سے کندی ابارہ تک، نیز حکم دیا تمام زمین لوگوں میں تقسیم کردی جائے اور جو محاصل ہوں ان سے ساموئی کے پہاڑ پر مسجد بنائی جائے اور اس کا نام مکلی رکھا جائے ، پھر آپ نے دریافت کیا آج کل مردوں کو کہا ں دفن کیا جاتا ہے، جام نے کہا کہ پیر آری (پیر پٹھہ) کے قریب ، فرمایا کہ اب مکلی میں دفن کردیں ، جام تماچی نے شیخ کے حسب الحکم مسجد بنائی اور مردوں کو مکلی پر دفن کرنے کا حکم دیا ، شیخ کا مزار کوہ مکلی پراب تک موجود ہے۔
مکلی کی مسجد کاسن تعمیر ۷۹۲ھ۔۷۹۳ھ/۱۳۸۹ء۔۱۳۹۰ءہے۔
مکلی کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک پاک دامن ، خدا رسیدہ خاتون جس کانام مکلی تھا مسجد کی محراب کے زیر سایہ مدفون ہیں ان کی وجہ سے شیخ حماد نے مسجد کو مسجد مکلی کے نام سے موسود کیا تھا، پھر رفتہ رفتہ قبرستان کا بھی یہی نام پڑگیا۔
تحفہ الطاہرین، میں آپ کا ذکر زیر عنوان ، شیخ جمال المعروف جمال درویش کیا گیاہے۔
(حدیقۃالاولیاء ص ۵۸۔۵۹۔۶۰، دائرہ المعارف اسلامیہ ص ۴۷۸۔ وتحفۃالطاہرین ص ۲۷ و تاریخ سندھ ، از عجاز الحق قدوسی ،ج۲ حاشیہ ص ۳۱۹)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )