حضرت شیخ جمال الدین لور علیہ الرحمۃٰ
شیخ نجیب الدین کہتے ہیں کہ جب کوئی مجھے کہتا کہ لوری غریب اس شہر میں آیا ہے۔اس کا نام جمال الدین ہے۔وہ قوی جزبہ رکھتا ہے۔مسجد جامع میں رہتا ہے۔ت میں مسجد جامع میں گیا۔دیکھا کہ بڑے جذبہ والا ہےاور پورا استغرا ۔۔۔۔
حضرت شیخ جمال الدین لور علیہ الرحمۃٰ
شیخ نجیب الدین کہتے ہیں کہ جب کوئی مجھے کہتا کہ لوری غریب اس شہر میں آیا ہے۔اس کا نام جمال الدین ہے۔وہ قوی جزبہ رکھتا ہے۔مسجد جامع میں رہتا ہے۔ت میں مسجد جامع میں گیا۔دیکھا کہ بڑے جذبہ والا ہےاور پورا استغراق رکھتا ہےاور اس کی دونوں آنکھیں،اس کے اثر سے دوخون پیالہ کی ظرح تھیں۔میں آگے گیا اور سلام کہا۔جواب دیا کہ مجھ کو سفید سیاہ کرنے والوں سے کام نہیں۔یعنی مجھ کو فقہا اور لکھنے والوں سے مطلب نہیں۔ایک شخص حاضر تھا۔اس نے کہا،یہ حضرت تو صوفی ہیں۔میں اس کے سامنے بیٹھ گیا اور اس کے حالات کی بابت سوال کیا۔کہا،ایک مرس لور اور امی ہوں۔کچھ نہیں جانتا۔میں گھوڑوں سے بہت رغبت رکھتا تھا۔ایک روز صبح کے وقت گھوڑوں کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔اتفاقاً مجھ پر حال کشف ہوگیااور جذبہ ظاہر ہوا۔تکبر کا حجاب مجھ سے اٹھا دیا گیا۔میں بے ہوش کر گر پڑا۔گھوڑوں کے پاؤں میں لوٹتا تھا۔جب مجھے ہوش آیا تو توحید کا بھید ظاہر ہو گیا تھا۔شیخ نجیب الدین بھی کہتے ہیں کہ وہہمیشہ شطحیات کہا کرتا تھا۔(ظاہری شریعت کے برخلاف باتیں کرنا،جیسے منصور کا انا الحق کہناوغیرہ)چنانچہ علما اور صلحاء کی ایک جماعت اس پر انکار کرنے لگیاور ان کو کافر کہنے لگی۔اسکی تکفیر کافتوی لکھ دیا اور اتابک ابو بکر کے پاس جو اس وقت شیراز کا بادشاہ تھا،لے گئے۔عرض کیا،لور کے قتل کی اجازت ہوجائے۔اتابک نے کہا،اگر دو اور شخص شیراز میں ہیں،تکفیر کا فتوی دے دیں تو میں اجازت دے دوں گا۔ایک تو شیخ نجیب الدین بر غش اور ایک شیخ معین الدین کہ اس وقت بزرگ تھے۔میں نے اس پر لکھ دیا کہ وہ مجذوب ہےاور مغلوب الحال،اس کا قتل کرنا جائز نہیں اور شیخ معین الدین نے بھی یہی لکھا۔تب اتابک نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں ایک دن وضو کر رہا تھااور جمال الدین دیکھ رہے تھے ۔جب میں نے منہ پر پانی ڈالا تو کہا ،ارفع المحدث یعنی میں حدث کو دور کرتا ہوں۔اس نے کہا،کوئی حدث ابقی رہتا ہے،جو تم یہ کہتے ہوں۔یوں کہو،ارفع المحدث یعنی رفع کرتا ہوں مخلوق و تعینات کو۔
(نفحاتُ الاُنس)