حضرت مکتوب شیخ کمال الدین عبدالرزاق کاشی علیہ الرحمۃ
تائید و توفیق کی امداد والے توحید و تحقیق کے انوار حضرت احدیث میں بظاہر اطہر اور اور باطن میں انور مولانا اعظم شیخ الاسلام اوضاع شرع کے حافظ ارباب طریق کے پیشواء حلال کے خیموں کے مقیم ۔جمال کے پردوں کے پردوں کے قوام درست کرنے والے علاؤالحق و الدین غوث الاسلام والمسلمین پے در پے رہو اور ترقی کے درجات مدارج تخلقوا باخلاق اللہ المتعالی میں رہو۔(یعنی خدائے برتر کے اخلاق کے عادی ہو جاؤ)مراسم دعا اور اخلاق کے پیش پہنچانے کے بعد طاہر کے یہ درویش آپ کا نام کبھی بے تعظیم نہیں لیتا،لیکن"کتاب عروہ"کو می ںنے دیکھا تو اس میں دو بحثیں اپنے اعتقاد کے مطابق نہ پائیں۔
اس کے بعد راستہ میں امیر اقبال کہتا تھا کہ شیخ علاؤ الدولہ محی الدین العربی کے طریقہ کو توحید میں پسند نہیں کرتے۔دعاگو نے کہا کہ میں جن جن مشائخ کبار کو دیکھا اور سنا ہے۔وہ اسی اعتقاد پر تھے۔میں نے جو کچھ عروہ میں پایا۔وہ اس طریقہ پر نہیں ہے۔اس نے مبالغہ کیا کہ تم کچھ اس بارے میں لکھو۔میں نے کہا،شاید ان کے موافق نہ ہو اور رنجیدہ ہوں۔اب یوں ظاہر کرتے ہیں کہ صرف اس ابت کے نقل کرنے سے آپ بڑے خفا ہوتے ہیں اور برا بھلا کہہ کر تک نویت پہنچاتے ہیں۔درویشی کے لحاظ سے میں نے یہ عجب بات پائی۔مھے کبھی آپ سے ملنے کا اتفاق نہ ہوااور صرف خبر سننے سے تکفیر کر دینا مناسب نہیں۔آپ یقیناً جانیں کہ جو کچھ میں لکھتا ہوں۔ازروئے تحقیق ہے ،نہ فنس درج کی وجہ سے ۔وفوق کل ذی علم علیم اور ہر ذی علم پر ایک زیادہ علم والا ہے۔پوشیدہ نہیں کہ جو امر قرآن سنت پر مبنی نہ ہو۔اس گروہ صوفیی کے نزدیک بے اعتبار ہے۔کیونکہ یہ لوگ شریعت کے مطابعت کرتے ہیں اور اس مطلب کی بنا دو آیتوں پر ہے۔سنز یھم ایا یتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق اولم یکف بربک انہ علی کل شئی شھید الا انھم فی مریۃ من لقاء ربھم الا انہ بکل شیئی محیط۔یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی آیات دکھائیں گے۔زمانہ میں اور ان کے اپنے نفسوں میں تاکہ ان کو روشن ہوجائے کہ وہی حق ہے۔کیا تیرا رب کافی نہیں کہ وہ ہر شے پر گواہ ہے؟یاد رکھو کہ وہ بے شک اپنے رب سے ملنے کے شک میں ہیں۔یادرہے کہ وہ بے شک ہر شے کا گھیر نے والا ہے۔لوگ تین قسم کے ہیں۔اول مرتبہ تو نفس کا ہے۔یہ گروہ دنیا دار ہے۔حواس کا متبع اور پردہ میں پڑا ہوا،خدا کا منکر ہے۔جب وہ خدا کو اور اس کی صفات کو نہیں پہچانتا۔اس لیے قرآن کو محمدﷺ کی باتیں کہتا ہے۔اس کو خدائے تعالی نے فرمایا ہے۔قال ارایتھم ان کان من عنداللہ ثم کفر تم بہ من اضل ھو فی شقاق بعید یعنی کہہ دے کہ یہ مجھے بتلاؤ،اگر یہ کلام خدا کی طرف سے ہوا۔پھر تم نے اس کا انکار کیا تو کون زیادہ گمراہ اس سے ہوگا۔جو کہ دور کی مخالفت میں پڑا ہے۔ان می ںسے اگر کوئی شخص ایمان لے آئے تو وہ دوزخ سے چھوٹ جائے گا۔دوسرا مرتبہ قلب کا ہےاور اس مقام کے لوگ پہلے مرتبہ سے ترقی پر ہیں۔ان کی عقلیں صاف ہوتی ہیں۔وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں کہ خدا کی آیات سے دلیل پکڑیں اور ان آیات کے تفکر میں کہ افعال و تصرفات خدائی ہیں۔
زمانہ کے مظاہرہ اور نفوس میں خدا کےاسماء صفات کی معرفت کو پہنچ چکے ہیں۔کیونکہ آثار کے افعال صفات ہیں اورصفات و اسماء مصادر اور افعال ہیں۔پس خدا کی علم و قدرت حکمت عقل کی آنکھ سے جو کہ ہوی کے آشوب سے خالی ہے۔دیکھتے ہیں،خدائے سمیع بصیر کے کلام کو انسانی نفوس اور اس جہان کے نفوس میں پاتے ہیں۔قرآن اور اس کی حقیقت کے اقراری ہوتے ہیں۔حتی یتبین لھم انہ الحق یعنی یہاں تک کہ ان کو یہ امر ظاہر ہوجاتا ہےکہ یہی حق ہے۔یہ گروہ اہل دلیل وبرہان ہے۔ان کے استدلال میں غلطی محال ہےاور جب قدس کے نور اور حضرت و حدیث کے اتصال سے جو کہ کثرت اسماء کا محل ہے۔ان کی عقلیں ایسی روشن ہوجاتی ہیں کہ بصیرت حاصل ہوجائےاور اسماء وصفات کی تجلیات میں بینا ہوجائیں۔ان کی صفات خدا کی صفات میں محو ہوجاتی ہیں۔جو کچھ پہلا گروہ جانتا ہے۔یہ گروہ اس کو دیکھتا ہے۔ہر دو قسم کا نفس ناطقہ دل کے نور سے پاک ہوجاتا ہے۔لیکن عقلمند اخلاق الہٰی کے عادی ہوتے ہیں اوربصیرت والے اس کے اثباب میں ہوتے ہیں۔پس ان کی بد خلقی محال ہوتی ہے۔ان سب کو اپنے مراتب میں مغدور رکھنا چاہیے۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ان میں سے ہوں گے۔تیسرا مرتبہ روح کا ہے۔اس مقام کے لوگ تجلی صفات کے مراتب سے گزر کر مشاہدہ کے مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں۔جمع اھدیث کے شہود کو پا لیتے ہیں اور خفی سے بھی گزر جاتے ہیں۔اسماء صفات کی تجلیات کے پردوں اور تعینات کی کثرت سے چھوٹ جاتے ہیں۔خدا کی درگاہ میں ان کا حال اس کے مصداق ہوتا ہے،اولم یکف بربک انہ علی کل شئی شھید اور یہ گروہ مخلوق کو خدا کا آئینہ دیکھتے ہیں یا خدا مخلوق کا آئینہ اور اس سے اوپر کا درجہ عین خدا کی احدیث میں فنا کا ہے اور مجوبان مطلق کو یہ فرمایا ہے،الا انھم فی مریۃ من لقا ء ربھم (ترجمعہ ان ہر دو آیات کا اوپر گزر چکا )اور اسماء وصفات کی تجلیات کے مقام میں رہنے والے ہر چند یقین کے سبب سے شک سے خلاصی پاگئے ہیں،لیکن ہمیشگی کی ملاقات اور مطلب،کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام سے قاصر ہیں۔یعنی جو چیز کہ زمین پر ہے۔وہ فانی ہے اور تیرے رب ذوالجلال کی ذات باقی رہے گی اور اس تنبیہ کے محتاج ہیں۔الا انہ بکل شئی محیط یعنی خبردار بے شک وہ ہر شے کو گھیرنے والا ہے۔اس حقیقت کے شہود اور اس آیت کے معنی پر کل شئی ھالک الا وجھہ یعنی ہر شئے ہلاک ہونے والی ہے،مگراسی کی ذات۔سوائے آخر گروہ کے اور کوئی کامیاب نہیں ہوااور اس درگاہ میں ھوالاول ھوالا خر ھوالظاہر ھوالباطن ظاہر ہے۔یعنی وہی اول ہے وہی آخر ہے،وہی ظاہر ہے،وہی باطن ہےاور ہر متعینات میں خدا کی ذات ظاہر ہےاور اس کے اسماء و تعینات کے وجود میں تنزہ ہے،فاینما تولو افثم وجہ اللہ یعنی جدھر تم منہ پھیرو ،ادھر ہی خدا کی ذات ہے۔ان کو محقق ہوچکا ہے۔
گرز خورشید بوم بے نیروست ازپے ضعف خود نہ ازپے اوست
اب اس احاطہ سے معلوم ہوتا ہے حق تعالی تمام تصنیفات سے منزہ ہےاور اس کا تعین ذات کے ساتھ اور اس کی احدیث نہیں۔تاکہ اس کا ثانی ہو۔جیسا کہ ثنائی رحمتہ اللہ نے کہا ہے۔رباعی
احدست وشمار ازو معزول صمدست و نیاز ازومخذول
آن احد نے کہ عقل داندو فہم وآن صمد نے کہ حس شنا سدو دہم
کیونکہ حس عقل و فہم وہم سب متعین ہیں اور متعین غیر متعین کو ہر گز گھیر نہیں سکتا۔واللہ اکبر ان یقیدہ الححجے تبعین فیکون اول اخر ھو واحد لا غیر ثانیہ ولا موجود ثم غیر مکاثر ھو اول اخر ھوالظاھر ھوباطن کل ولم یتکاثر یعنی اللہ تعالی بڑا بزرگ ہے۔اس سے کہ اس کو عقل کسی تعین سے گھیرے۔تاکہ وہ واحد ہو،وہ ایسا واحد ہےکہ کوئی اس کا ثانی نہیں اور یہاں سوائے کثرت کے موجود نہیں۔وہی اول ہے،وہی آخر ہے،وہی ظاہر ہے،وہی باطن ہے،وہ کل ہے کثیر نہیں۔بس جس شخص کا یہ مرتبہ ہوجائےتو حق تعالی اس کو تصنیفات کے مرتبہ سے مجرو کر دیتا ہے۔عقول کی قید سے چھڑا دیتاہے۔کشف و مشہود سے اس احاطہ تک پہنچ جایا کرتا ہے۔ورنہ جلال کے پردوں میں رہتا ہےاور ساقی کوثر امیر المومنین علی ؓ کے کلام میں ہے،الحقیقۃ کشف سجات الجلال من غیر اشارۃ یعنی حقیقت ہے کہ جلال کے انوار کا کشف بغیر اشارہ کے ہو جائے۔اس لیے کہ اگر حسلی یا عقلی اشارہ جمال مطلق کی تجلی کے وقت رہ جائےتو عین تعین طاہر ہوجائے اور جمال عین جلال ہوجائےاورشہود نفس پردہ میں ہوجائے،سبحان اللہ من لا یعرفہ الا ھو وحدہ یعنی پاک ہے وہ ذات کہ اس کو وسا اس اکیلےکے اور کوئی نہیں پہنچانتا۔انصاف یہ ہے کہ جو بحث عروہ میں اس مطب کی نفی کے لیے آپ نے فرمائی ہے۔اس کے دلائل مستقیم طریق اور برہان کے طرز پر نہیں ۔اسی لیے دانا لوگ کے معقول جانتے ہیں۔اس کو پسند نہیں کرتے۔خضر سرگشتہ کی تعریف جو لکھی ہے ۔میں نے شیخ الاسلام مولانا نظام الدین ہروی سلمہ اللہ تعالی سے پوچھا تھا۔فرمایا کہ یہ خضر ترکمان ہےاور نبرہ بیچارہ خضر ترجمان کا حال پوچھا کرتا تھااور جب شروع جوانی فضولیات اور شرعیات کی بحث سے فارغ ہواتھا اور ان بحثوں سے بحث اصول فقہ اصول کلام سے کچھ حقیقت نہ کھلی تو دل میں سوچا کہ بحث معقولات و علم الہٰی اور جو کچھ اس پر موقف ہے،لوگوں کو معرفت تک پہنچاتا ہےاور اس تردو س ےچھڑاتا ہے۔ایک مدت اس کی تحصیل میں گزری اور اس کا یاد کرنا۔یہان تک پہنچا کہ اس سے بہتر نہ ہوسکتا تھا،لیکن اس سے اس قدرت و حشت اضطراب اور پردہ پیدا ہوا کہ قرار نہیں آتا تھا۔معلوم ہوا کہ مطلوب کی معرفت عقل کے طریق سے بڑھ کر ہے۔کیونکہ ان علوم میں ہر چند حکما لوگ صورتوں اور حرام کی تشبیہ سے چھوٹ گئے ہیں۔لیکن ارواح سے تشبیہ دینےمیں پڑگئے ہیں۔یہاں تک کہ صوفیوں اور صاحبان ریاضت مجاہدہ کی صحبت اختیار کی اور خدا کی توفیق مددگار ہوئی۔۔ان باتوں سے شروع میں مولانا نور الدین عبدالصمد نظری قدس اللہ تعالی کی صحبت میسر ہوئی اور ان کی صحبت سے توحید کا یہی مطلب حاصل کیا۔آپ فصوص کشف شیخ یوسف ہمدانی کو بڑے معتبر لکھتے تھے۔اس کے بعد مولانا شمس الدین کیسی کی صحبت میں پہنچا ۔جب میں نے مولانا نور الدین سے سنا ہوا تھا کہ اس زمانہ میں ان جیسا معرفت کے طریق میں اور کوئی نہیں۔یہ رباعی انہیں کی ہے۔
ہر نقش کہ بر تختہ ہشتی پیداست آن صورت آنکس کان نقش آراست
دریائے کہن جو برزند موجے نو موجش خوانند دودر حقیقت دریا است
اور توحید میں یہی مطلب بیان کیا کرتے اور کہتے تھے کہ مجھ کو کئی چلوں کے بعد یہ ملطب معلوم ہوا۔اس وقت شیراز میں کوئی ایسا نہ تھاکہ اس کے ساتھ توحید کا یہ مطلب ذکر کریں۔شیخ ضیاءالدین ابوالحسن کو یہ مطلب حاصل نہ تھا۔میں ا س سے حیران تھا۔یہاں تک کہ فصوص یہاں تک پہنچے ۔جب میں نے اس کا مطلب کیا تو اس مطلب کو پایا۔خدا کا شکر کیا اس مطلب کا طریق موجود ہےاور بزرگ یہاں تک پہنچے ہیں اور اس کو حاصل کیا۔علی ہذا مولانا نورالدین ابر قوی و شیخ صدر الدین روزبھان بقلی،شیخ ظہیر الدین بز نحش مولانا اصیل الدین "شیخ ناصر الدین قطب الدین صاجزادگان ضیائ الدین ابوالحسن اور جماعت بزرگوں کی صحبت میں پہنچا ہوں۔یہ سب حضرات اس مطلب میں متفق تھے۔کوئی بھی باہم مخالف نہ تھا۔اب ایک شخص کے قول سے اس کے برخلاف قبول نہیں کرسکتا۔باوجود یہ کہ میں خوداس مقام تک نہیں پہنچا تھا۔ابھی تک دل قرار نہ پاتا تھا۔یہاں تک کہ بعد وفات شیخ الاسلام مولانا شیخنا نور الماتہ و الدین عبدالصمد نظری میرے مرشد کے جن پر تسلی ہوتی تھی۔قرار نہ پایاتھا۔سات ماہ تک ایسے جنگل میں کہ جس میں آبادی نہ تھی،خلوت بیٹھا اور کھانا نہایت کم کردیا۔یہاں تک کہ یہ مطلب کھل گیااور اس پر قرار آگیااور اطمینان ہوا۔والحمد للہ علیٰ ذالک خدا کا اس پر شکر ہے۔ہر چند اللہ تعالی نے فرمایا،فلا تز کو انفسکم یعنی تم اپنے نفس پاکیزہ ظاہر نہ کرو،لیکن یہ بھی فرمایا،اما بنعمت ربک فحدث یعنی اپنے رب کی نعمت کو بیان کر۔اس کے بعد بگداد میں شیخ بزرگوار شیخ نورالدین عبدالرحمٰن اسفراینی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچا۔انہوں نے انصاف کیا اور فرمایاکہ مجھ کو حق تعالی نے بغیر وقائع تاویل خواب کا علم بخشا ہے،اس سے بڑھ کر کسی مقام تک میں نہیں پہنچا۔صرف ان بخشوں سے جو کہ معقول کے طریق اور مستقیم راہ پر نہیں ہے۔اس معنی کو کہ جو کہ شہود میں آجاتا ہے۔ترک نہیں کر سکتےاور شیخ عبداللہ انصاری علیہ الرحمۃ کا بھی یہی کلام ہےاور تمام مقامات کے آخیر میں تیسرے درجہ میں توحید خالص تک پہنچا دیا ہے۔شیخ شہاب سہروردی کے کلام میں چند موقع پر اس کی تصریح کی ہے۔چنانچہ امام محقق جعفر صادق ؓ کے کلام کی شرح میں کہا ہے۔انی اکرایۃ حتی اسمع من قا یلھا یعنی میں بے شک آیت کو دوبارہ پڑھتا ہوں۔یہاں تک کہ اس کے قائل سے سنتا ہوں۔(یعنی خدائے تعالی سے)فرمایا کہ اس نے اپنی زبان اس مطلب میں موسیٰ علیہ الاسلام کے درخت کی طرح پائی کہ انی اناللہ یعنی میں بے شک اللہ ہوں۔اس سے سنا اور اگر متعین ہوتاتو دو صورتوں میں کیسے ظہور پاتا اور قرآن مجید میں وھو الذی فی السماء الہ وفی الارضالہ یعنی اللہ تعالی وہ ہے کہ آسمان میں بھی معبود ہےاور زمین میں بھی۔کیسے صادق آتا اور جو حدیث پیغمبرﷺ میں ہے۔لودلی احد کم حبلہ لھبط علی اللہ یعنی اگر تم میں سے کوئی رسا پھینکے تو وہ خداپر گرے۔کب درست ہوتا یا جو کچھ کہ عالم میں ہےشاہ رگ سے کیونکر زیادہ قریب ہوتا۔آکر اس معنی میں غور کرنا چاہیےکہ نص قرآن میں ثالث ثلثہ کفرہے۔لقد کفر الذین قالو ان اللہ ثالث ثلثہ یعنی بے شک وہ لوگ کافر ہوئے،جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی تین میں سے تیسرا ہےاور تین میں چوتھا صرف ایمان وتو حید ہے۔مایکون من نجوی ثلثۃ الا ھور ابعھم یعنی تین کی سرگوشی ہوتی ہےتو ان کا چوتھاوہ اللہ تعالی ہے اور اگر تین میں کہ تیسراہوتا تو متعین ہوتااوران سے ایک ہوتا،لیکن تین میں چوتھا یہ ہے کہ اپنے حقانی وجود کے ساتھ ہے۔ایک کا دوسرا ،دوسرے کا تیسرا،تیسرے کا چوتھا،چوتھے کا پانچواں ،پانچویں کا چھٹا۔یعنی ان اعداد کی حقیقت کا محقق اور سب کے ساتھ بغیر نزدیکی کے اور سب کا غیر ہےبغیر جدا ہونےکے جیسا کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ تعالی وجہ نے فرمایا۔ھو مع کل شئی لا بمقار یعنی وہ ہر شئے کے ساتھ ہے،لیکن نزدیک ہو کر نہیں اور ہر شئے کا غیر ہے،لیکن جدائی کے ساتھ نہیں۔یہ عاجز اس مدت میں کہ خواجہ بھان کی خدمت میں رہتا تھا۔ہر چند کے بعض لوگ طعن کرتے تھے۔خدا جانتا ہے۔اس کا یہ سبب تھا کہ ان کی استعداد میں مطلب یکاد زیتھا یضیئی ولو لم تمسسہ نار کا پاتا ہے۔یعنی قریب ہے کہ اس کا روغن زیتون روشن ہے۔اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئےاور اس پر پورابھروسہ رکھتا تھاکہ وہ مخالفوں کی باتوں سے حق سے نہ پھرے گااور دعا گو بھی اگر مشاہدہ میں معلوم نہ کرتااور اتنے بزروگوں کے اقوال اس مطلب میں موافق نہ پاتا تو اس بیان کو دوبارہ نہ لکھتا اور نہ بہت دلائل بیان کرتا۔جیسا کہ شرح فصوص وغیرہ کے شروع میں اتفاق ہوا ہے۔جب تک کہ اہل علم محقق جو سمجھدار ہوں۔آپ سے تقریر کریں۔تطویل ملال خاطر سے احتراز کیا۔ومن لم یصدق الجملۃ ھان علیہ ان لا یصدق التفصیل اور جو شخص مختصر کی تصدیق نہ کرے۔اس پر آسان ہے کہ تفصیل کی تصدیق نہ کرے۔حق تعالی سب کو اپنے جمال کی طرف ہدایت نصیب کرے۔وانا وایاکم تعلی ھدی اوفی ضلال مبین۔یعنی اور ہم یا تم البتہ ہدایت پر ہیں یا کھلے گمراہی میں۔واللہ الموافق والمعین اللہ تعالی توفیق دینے والا اور مددگار ہے۔
اس خط کا جواب جو شیخ رکن الدین علاؤالدولہ نے اس کی پشت پر لکھا اور کاشان مین بھیجا یہ ہے
قل اللہ ثم ذر ھم فی خو ضھم یلعبون یعنی کہہ دے اللہ پھر چھوڑا ان کو کہ وہ اپنے خوض میں کھیلتے رہیں۔بزرگان دین اور راہ یقین کے چلنے والےبالاتفاق کہتے ہیں۔خدا کی معرفت سے وہ شخص فائدہ اٹھاتا ہےکہ اچھا لقمہ اور صدق گفتار اپنا بچھونا بناتا ہےاور جب یہ دونوں امر مقصود ہیں تو ان بےہودہ باتوں سے کیا مطلب،لیکن میں نے جو کچھ کہ نورالدینعبدالرحمٰن اسفراینی قدس اللہ روحہ سے روایت کی ہے۔و ہ یہ ہے کہ میں بتیس سال ان کے شرف صحبت میں رہا ہوں۔ہر گز مطلب ان کی زبان پر نہیں آیا۔بلکہ ہمیشہ مصنیفات ابن العربی کے مطالعہ سے منع کیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ جب آپ نے سنا کہ مولانا نور الدین حکیم ،مولانا بدر الدین رحمہم اللہ تعالی بعض طلبہ کو فصوص کا درس دیتے ہیں تو آپ رات کو وہا ں گئے۔وہ نسخہ ان کے ہاتھ سے لے لیا اور بھار دیا اور پورے طور پر منع کردیا۔دوم جو کچھ میرے فرزند عزیز صاحب قرآن اعظم نے کہ خدائے تعالی اس کو توفیق کے لشکر سے مدد کرے اور اس کے دل کی آنکھ کو نور تحقیق سے ٹھنڈی کرے۔حوالہ دیا ہے۔ان کی مبارک زبان پر یہ جاری ہوا کہ میں اس اعتقاد اور معرفت سے بیزار ہوں۔اے عزیز میں اپنے خوش وقت میں اشارہ کے موافق "کتاب فتوحات"کا حاشیہ لکھ رہا تھا۔جب میں اس تسبیح تک پہنچا کہ انہوں نے کہا ہے"سبحان من اظھر الاشیاء وھوعینھا یعنی پاک ہے"وہ ذات کہ جس نے اشیاء کو پیدا کیااور وہ ان کا عین ہے۔اس پر میں نے یہ حا شیہ لکھا۔ان اللہ لا یستیحی من الحق ایھا الشیخ لوسمعت من احدانہ یقول فضلۃ الشیخ عن وجودالشیخ لا تسامحہ البتۃ بلالعاقل ان ینیب الہی اللہ ھذا ھذیان تب الی اللہ توبہ النصوحا للتنجومن ھذہ الور طۃ الوعرۃ التی یستنکف منھا الدھریون والطییعیون والیو نانیون واسلام علی من اتبع الھدی یعنی اللہ تعالی حیا سے شرماتا نہیں۔اے شیخ اگر تو سنے کہ وہ یوں کہتا ہےکہ شیخ کافضلہ عین وجود شیخ ہےتو البتہ اس میں درگزرنہ کرنا۔بلکہ اس پر غصہ ہونا۔پس کیسے لائق ہے،عقل مند کو کہ اس قسم کا ہذیان خدا کی طرف سے منسوب کرے۔خدا کی جناب میں خالص توبہ کرکے اس سخت بھنور سے نجات پائے۔جس سے دہریہ طبیعین یونانی کراہت کرتے ہیں اور سلام اس پر ہو جو کہ ہدایت کی اتباع کرتا ہے،لیکن آپ نے جو یہ لکھا ہےعروہ کے دلائل درست نہیں۔جب بات واقع کے مطابق ہوتو آپ خواہ منطقی دلائل کے مطابق ہو یا نہ ہو،پرواہ نہیں اور جب نفس کو کسی مسئلہ میں اطمینان ہوجائے اور واقع کے مطابق ہو اور اور شیطان اس پر اعتراض نہ کرے تو ہمیں کافی ہے۔والحمد علی المعارف التی ھی تطابق الواقع عقلاونقلا بحیث لایمکن للنفس تکذیبھا وللشیطان نشکیکھاوتطمئن القلوب علی وجوب وجودالحق ووحدانیۃ ونزاھتۃ ومن لم یومن بوجوب وجودہ فھو کافر حقیقی ومن لم یومن بو حدانیۃ فھو مشرک حقیقی ومن لم یومن بنزاھتہ من جمیع ما یختص بہ الممکن فھو ظالم حقیقی لانہ ینیب الیہ مالا یلیق بکمال قدسہ والظلم وضع الشئی فی غیر موضعہ ولذلک لعنھم اللہ فی محکم کتابہ قلولہ الا لعنۃ اللہ علی الظالمین سبحانہ وتعالی عما بصیفہ بہ الجا ھلون۔یعنی خدا کی تعریف ہے ۔ان معارف پر جو واقع کے مطابق ہیں۔ عقلاً نقلاً اس برح کہ نفس کو ان کی تکذیب اور شیطان کا شک میں ڈالنا ممکن نہیں۔دل خدا کے وجود اور اس کی توحید اورتنزیہ پر اطمینان پالیتے ہیںاور جو شخص کہ اس کے واجب الوجود ہونے کا منکر ہے،وہ حقیقی کافر ہےاور جو اس کی توحید کا منکر ہے۔وہ حقیقی مشرک ہےاور جو اسکی ایسی پاکیزگی پر جس کے ساتھ ممکن خاص ہے۔ایمان نہیں رکھتا تو وہ ظالم حقیقی ہے۔کیونکہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کرتا ہےکہ جو اس کے کمال قدس کے لائق نہیں اور ظلم اس کا نام ہے کہ شئے کو اس کو غیر محل میں رکھا جائے۔اس لیے خدا نے ان کو اپنی محکم کتاب سے لعنت کی ہے۔جیسے فرمایا ہے کہ لعنت ہو ظالموں پر ۔وہ اللہ تعالی ان ہاتھوں سے پاک ہے۔جن کے ساتھ جاہل لوگ اس کا وصف کرتے ہیں۔
فصل بالخیر
جب دوبارہ میں نے خط کا مطالعہ کیا تو کیشی کی رباعی پر نظر پڑی۔دل میں آیا کہ جو کچھ اس مقام میں واضح ہواہے اور اس سے خوش ہوا ہے۔کیونکہ اس کی حقیقت پر اطلاع حاصل کی ہے۔یہ ہے کہ چنداں شروع میں یہ ضعیف اس مقام میں پڑا تھااور مجھے وہ مقام خوش معلوم ہوا تھا"لیکن اس مقام سے گذرگیا۔یعنی جب مقام مکاشفہ کے شروع دوسط سے گذرگیا اور مکاشفہ کے مقام نہایت تک پہنچا تو اس کی غلطی اظہر من الشمس معلوم ہےئی اور اس مقام کے قطب میں یقین پیدا ہوگیا کہ جہاں شک کا دخل نہیں تھا۔پس اے عزیز میں سنتا ہوں کہ تمہارے اوقات عبادت کےپابند ہیں اور عمر آخر کو پہنچی ہے۔افسوس ہے کہ مکاشفہ کے شروع مقام میں اس طریق سے کہ بچوں کو کھلونوں سے فریب دیں کہ وہ مکتب میں جائے۔چند معارف کے ساتھ کہ جو ٹھیکریوں کی طرح ہیں بازر ہیں اور قرآن کی اکثر آیات بینات کو متشابہ کی چند آیات کی وجہ سے تاویل کریں۔چنانچہ یہ آیت محکم ہے۔قل انما انا بشر مثلکم یعنی کہہ دو کہ میں تم جیسا ایک بشرہوں اور ابن حسون اور آیات کی یہ تاویل کرتے ہیں اور آیت ومارمیت ولکن اللہ رمی یعنی آپ نے نہیں پھینکا۔جب پھینکا ہے"لیکن اللہ تعالٰی نے پھینکا ہے کو اپنا مقتدا بناتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ درمیت کہ یہ امر لوگوں کے سمجھانے کے لیے ہے۔تاکہ رسول اللہﷺ کی خصوصیت جان لیں۔فرمایاہے"جس طرح کہ بادشاہ اپنے مقرب کو کسی ملک میں بھیجے اور کہے کہ اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔اس کی زبان میری زبان ہے اور شیخ بھی مرید کو جب قوم کے ارشاد کے لیے بھیجتا ہے ۔ اس کی اجازت میں بھی لکھتا ہے کہ اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔غرضیکہ آیت سے اعراض کرنا۔یعنی بلامشتبہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔تمبھی اس کو دشمن سمجھو اور اس آیت سے شک کرنا"ھوالاول ھوالاخر ھوالظاھر ھوالباطن سے دلیل پکڑنا اور یہ نہ جاننا کہ اس کا مطلب یہ ہے"ھوالاول الازلی لینتھی الیہ سلسلۃ الا حتیاج فی الوجودفضلاعن شئی اخر وھوالاخر الایدی بایۃ الیہ یرجع الامر کلہ وھوالظاھر فی اثارہ الظاھرۃ بسبب افعالہ الصادرۃ عن صفاتہ الثانیۃ لذانہ وھوالباطن فی ذاتہ لاتدرکہ الابصار ولا یعرف ذاتہ الاھو وقد صح عن النبیﷺ انہ قال کل الناس فی ذات اللہ حمقی ای فی معرفۃ ذاتہ وقال علیہ السلام تفکروافی الاء اللہ ولاتفکر وافی ذات اللہ۔یعنی وہ اول ازلی ہے۔تاکہ اس کی طرف احتیاج وجود کا سلسلہ منتہی ہو اور شئے کا تو ذکر اور وہ ایسا آخرابدی ہے کہ جس کی طرف تمام امر لوٹتے ہیں اور وہ اپنے آثار ظاہرہ میں ظاہر ہے۔اپنے افعال کے سبب سےجو کہ اس کی ان صفات سے کہ اس کہ ذات کے لیے ثابت ہیں۔صادرہیں اور وہ اپنی ذات میں باطن ہے۔اس کو آنکھیں ادراک نہیں کرسکتیں اور اس کی ذات کو سوا اس کے اور کوئی نہیں پہچانتا۔
آنحضرتﷺ سے یہ حدیث صحیح ثابت ہوئی ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں"تمام لوگ خدا کی ذات میں احہق ہیں۔یعنی اس کی معرفت ذات میں اور فرمایا"علیہ السلام نے خدا کی نعمتوں میں فکر کرو اور خدا کی ذات میں فکر مت کرو۔ہم مطلب کی بات پر آتے ہیں۔جبکہ مقام مکاشفہ کے وسط میں اس معرفت کی طرح جو کہ کیشی کی رباعی میں پڑھاہے"حاصل ہوئی اور وہ یہ بھی تھی کہ حق تعالٰی دریا کی صورت میں نظر آیا کہمواجی ثبتی ماحی کی صفت سے موصوف تھا۔اس کو مخلوقات کی طرح دائرہ تھے۔بعضے فراخ بعضے تنگ بعض کا نعمت پانا"جو کہ اس کے لطف کے مظہرہیں۔دائرہ کی فراخی اور استقامت کے موافق تھے اور بعضے کہ قہر کے مظہرہیں۔ان کا درد دائرہ کی تنگی اور انحراف سے اور ثبتی صفت سے بعض کو ثابت کرتے ہیں اور ماحی صفت سے بعض کو محو کر دیتے ہیں۔مواجی صفت سےپھر دائروں کو نئے سرے سے پیدا کرتاہے۔یہاں تک کہ جب میں نے مکاشفہ کے نہایت مقام میں قدم رکھا تو حق الیقین کی ہو اچلی۔ہدایت اور وسط کے معارف کے سگونوں کو گرادیا۔حق الیقین کا پھل عین الیقین کے خلاف سے باہر نکلا۔اے میرے عزیز علم مجرو کہ جس کو اعتقاد جازم مطابق واقع کہتے ہیں۔شریعت کی نسبت رکھو اور مقام ہدایت کے مکاشفہ کے لیے علم الیقین اور مقام مکاشفہ کے وسط کے لیے عین الیقین مقام کی نہایت کے لیے حق الیقین چاہیئے۔حق الیقین کی حقیقت کہ جو مجرو یقین سے مقصودہے۔جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایاہے"واعبد ربک حتی یاتئک الیقین یعنی اپنے رب کی عبادت کر۔یہاں تک کہ تجھ کو یقین حاصل ہوجائے۔سو یہ درجہ مقام مکاشفہ کے درجات کے قطب کی طرف تعلق رکھتاہے اور جو شخص یہاں تک پہنچ جاتاہے۔جو کچھ کہتا ہے"وہ واقع کے مطابق ہوتا ہے اور یہ جو ظاہر کیا ہے کہ چلنے والوں کی منزل میں سب سے آخر مقامات توحید ہے"ایسا نہیں ہے۔بلکہ وہ اسویں۸۰ مقام میں پڑا ہے۔اخر مقامات المائۃ العبودیۃ اھوعو دالعبدالی بدایۃ حالہ من حیث الو لا الفتوح واوھا دائرامع الحق فی شیون تجلیانہ تمکنا۔یعنی سوواں(۱۰۰) مقام عبویت ہے۔وہ یہ کہ بندہ کا لوٹنا شروع حال کی طرف ولایت مفتوح کی وجہ سے حق کے ساتھ فکر لگانے والا اس کی تجلیات کے شیون کے ساتھ نمکن طور پر۔حضرت جنیدؒ سے پوچھا گیا۔مانھا یۃ ھذا الا مر قال الرجوع الی البدایۃ یعنی اس امر کی نہایت کیا ہے؟کہا،شرو ع کی طرف رجوع کرنا۔اے عزیز میں نےتو حید کی شروع اور وسط مقام میں خاص کر سماع میں ایسی بہت رباعیاں قوال دی ہوں گی اور اس ذوق میں مدتوں رہا تھا ۔ان میں سے ایک یہ ہے۔
این من نہ منم اگر منی ہست توئی در در برمن پیرہنے ہستتوئی
درراہ غمت نہ تن بمن مان دونہ جان درزانکہ مراجان دتنے ہست توئی
اور اس مقام میں حلول کے معلوم ہوتا تھااور اتحاد توحید میں نے کہا تھا۔
انا من اھودی ومن اھودی انا لیس فی المراۃ شیی غیر نا
قدسھی المنشد اذا انشدہ نحن روحان حللنا یدنا
اثبتالشوکۃشرکا واصخا کل من فرق فرقا بیننا
لا اندیہ ولا اذکر ا ن ذکری وندائی یاانا
الیٰ آخرہ۔یعنی میں وہ ہوں کہ جس کو میں دوست کھتا ہوں اور جس کو میں دوست رکھتا ہوں،وہ میں ہوں۔آئینوں میں سوا ہمارے اور کوئی شئے نہیں۔پکارنے والا بھول گیا۔جب اس نے اس کو پکارا۔ہم دو روحیں ہیں،جو کہ ایک بدن میں داخل ہوئیں۔جس شخص نے ہم میں فرق کیاتو اس نے کھلا شرک کیا،میں نہ اس کو پکارتا ہوں،نہ یاد کرتا ہوں۔کیونکہ میرا ذکر اور پکارنا یہ ہےکہ اے میں۔اس کے بعد جب میں نے مقام توحید کے نہایت مین قدم رکھا تو یہ امر محض غلط نکلا ۔الرجوع الی الحق خیرمن التمادی فی الباطل یعنی خدا کی طرف رجوع کرنا،بے ہودہ پن میں بڑھتے جانے سے بہتر ہے پڑھا ے عزیز تو بھی اسکی پیروی کر اور جب خدائے تعالی کے اس قول پر نظر پڑی ولا نضر بو اللہ الامثال یعنی تم خدا کی مثالیں نہ دیا کرو تو میں نے پورے طور پر اس مثال کو مٹا دیا۔والسلام
(نفحاتُ الاُنس)