حضرت خلیل آتا علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ بہاؤالدین فرماتے ہیں کہ ایک رات اس کام کے شروع میں مین نے خلیل آتا رحمتہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ جو ترک کے بڑے مشائخ سے تھے مجھ کو درویشی کی سفارش کر رہے ہیں۔جب میں جاگا تو اس درویش کی صورت میرے ذہن میں تھی اور میری ۔۔۔۔
حضرت خلیل آتا علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ بہاؤالدین فرماتے ہیں کہ ایک رات اس کام کے شروع میں مین نے خلیل آتا رحمتہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ جو ترک کے بڑے مشائخ سے تھے مجھ کو درویشی کی سفارش کر رہے ہیں۔جب میں جاگا تو اس درویش کی صورت میرے ذہن میں تھی اور میری دادی نیک بخت تھی۔میں نے ان سے یہ خواب بیان کی۔انہوں نے فرمایا کہ اے فرزند تجھ کو مشائخ ترک سے حصہ ملے گا۔میں ہمیشہ اس درویش کا طالب تھا۔یہاں تک کہ ایک دن بخارا کے بازار میں ان کی ملاقات ہوگئی۔میں نے ان کو پہچان لیا۔میں نے پوچھا تو ان کا نام خلیل تھا۔اس وقت تو ان سے زیادہ کلام اور مجلس حاصل نہ ہوئی لیکن جب میں مکان میں پہنچااور رات پڑی تو ان قاصد آیاکہ حضرت خلیل تم کو یاد کرتے ہیں۔وہ ساون کا مہینہ تھا۔میں نے کچھ میوہ لیااور ان کی خدمت میں گیا۔ترک زبان میں کہا کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہےوہ ہمارے سامنے ہے۔بیان کرنے کی حاجت نہیں۔میری حالت اور قسم کی ہوگئی اور ان کی صحبت کی محبت بہت بڑھ گئی۔ان کی محبت میں عجیب و غریب حالات مشاہدہ ہونے لگے۔ایک مدت کے بعد ان کو مادراء النہر کے ملک کی بادشاہی مل گئی۔مجھ کو ان کی ملازمت و خدمت میں رہنا ضروری تھا۔اس آپ کی ملازمت صحبت سے بڑی بڑی چیزیں مشاہدہ ہوتی تھیں۔مجھ پر بہت مہربانی کیا کرتے تھا۔کبھی تو مہربانی کے ساتھ اور کبھی سختی سے مجھ کو آداب خدمت سے سکھایا کرتے تھے۔اس وجہ سے مجھ کو بہت فائدہ ہوااور اس راہ قوی کے سیرو سلوک مین بہت کام آئے۔چھ سال تک اس طرح ان کی خدمت میں رہا۔باہر تو ان کے آدا ب سلطنت کی رعایت کرتا تھااور خلوت میں ان کی خاص صحبت کا محرم رہتا تھااور ملک ملنے سے پہلے اور چھ سال تک ان کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔بہت دفعہ اپنی خاص درگاہ میں کہا کرتے تھےجو شخص کہ خدا کی رضامندی کے لیے میری خدمت کرے وہ مخلوق میں بزرگ ہوگااور مجھ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا مقصود کیا ہے۔اس مدت کے بعد جب اس کا مجازی ملک جاتا رہا اور ایک لحظ میں وہ ملک لشکرجاہ و جلال غبار ہو کر اڑ گیااور دنیا کے تمام کام میرے دل میں سرد ہوگئے۔تب میں بخارا میں آگیا۔زیورتوں میں کہ بخارا کے گاؤں میں مقیم ہوا۔
(نفحاتُ الاُنس)