آپ بڑے با ہمت اور قوی الحال بزرگ تھے کمالات ولایت بچپن سے ہی ظاہر اور ہویدا تھے اقتباس الانوار کے مولّف نے آپ کی بڑی کرامات لکھی ہیں اور بڑے مفصل حالات قلمبند کیے ہیں ہم اسی کتاب سے چند سطریں درج کررہے ہیں۔
حضرت شیخ جناب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے سالانہ عرس پر ایک پُر وقار مجلس ترتیب دیا کرتے تھے اس میں غربا اور مساکین کو بڑا عمدہ کھانا مہیا کرتے تھے ایک بار عرس قریب آگیا مگر آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اپنے خلیفہ شیخ سوندہا کو فرمایا کہ عرس غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے لیے کسی دوست سے قرض لے لو خود یہ کہہ کر سوگئے اٹھے تو دوبارہ شیخ سوندہا کر بلایا اور فرمایا عرس شریف کے لیے قرض نہ لینا حضرت غوث پاک امداد فرمائیں گے آپ نے تمام اخراجات کی ذمہ داری لے لی ہے میں سویا تھا کہ حضور کی روح پر فتوح تشریف لائی مجھے گیارہ روپے نقد اور ایک اشرفی عطا فرمائی ہے اور حکم دیا ہے یہ عرس کے اخراجات پورے کرو میں اُٹھا تو یہ رقم میرے ہاتھ میں تھی۔
آپ کا ایک مرید چلہ میں بیٹھا اس مکان میں کنار کا درخت تھا اس مرید کو جب بھوک ستاتی تو کنار کے درخت کے پتے کھالیتا چلہ پورا ہوا تو کہنے لگا میں نے چالیس دن کچھ نہیں کھایا آپ نے فرمایا تم کنار کے پتے کھاتے رہے ہو اس نے انکار کیا تو آپ نے درخت کو مخاطب کیا اس نے جھک کر اپنی خالی ٹہنیاں پیش کردیں تو حضور ان ٹہنیوں کے پتے کھاتے رہے ہیں۔
اورنگ زیب عالم گیر ۱۰۶۰ھ میں تخت نشین ہوا بعض معاندین اور حاسدین نے بادشاہ کے حضور شکایت کی شیخ داود رحمۃ اللہ علیہ تو سماع سنتا ہے اور کئی قسم کی بدعات میں غرق رہتا ہے شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے بادشاہ نے شیخ کی جواب طلبی کا فرمان جاری کردیا شیخ دہلی پہنچے بادشاہ نے قاضی ملا قوی کو بلایا یہ قاضی صوفیا کے خلاف بڑا متعصّب تھا اس نے شیخ کے پاس آکر آپ سے مختلف سوالات کیے خصوصاً سماع پر سخت اعتراضات کیے آپ نے فرمایا آپ نے حدیث میں پڑھا ہوگا السمّاع الاھلہ مباح (سماع کی اہلیت رکھنے والے کے لیے مباح ہے) میں سماع کے سننے کی اہلیت رکھتا ہوں اگر یہ مسئلہ قال کی بجائے حال کی کیفیت پر معلوم کرنا چاہتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ ان قوالوں کو کہو جو کچھ انہیں آتا ہے سنائیں قوالوں نے سنانا شروع کیا تو آپ نے ملا قوی کو کہا اے جاہل میں خود صاحب شریعت اور احکام الٰہیہ کے نافذ کرنے والا ہوں مجھ سے سماع کے جواز کی دلیلیں طلب کرتے ہو کہتے ہیں آپ نے جب ملا قوی کو جاہل کہا تو واقعی اس کے سینے سے تمام علوم سلب ہوگئے اور جاہل محض ہوگیا وہ کوئی بات کرنا چاہتا تھا مگر زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی اس نے رونا شروع کردیا اور حضرت کے قدموں پر گر پڑا آپ کو اس پر ترس آگیا فرمایا تم ان دنوں دربار شاہی میں ملک العلماء ہو۔ تم خواہ مخواہ درویشوں کو تنگ کرتے ہو اپنا معاملات درست کرلو تمہیں علوم سلسلہ لوٹا رہا ہوں۔ اس کے بعد ملا قومی آپ کا معتقد ہوگیا۔
حضرت شیخ کے وصال کا وقت قریب آیا اپنے چھوٹے بھائی شیخ محمد کو فرمایا میرے لیے تابوت تیار کرو کیونکہ آج تین راتیں ہوگئی ہیں مسلسل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کررہا ہوں فرماتے ہیں داود ہم تمہارے مشتاق ہیں ہمارے پاس جلد آؤ۔ چنانچہ شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ نے تابوت تیار کرایا پانچ ماہ رمضان المبارک ۱۰۹۵ھ کو افطاری کے بعد قوالوں کو بلایا مجلس سماع برپا کرائی ساری رات وجد میں رہے صبح ہوئی تو حالت سماع میں ہی فوت ہوگئے آپ کو قصبۂ گنگوہ میں دفن کردیا گیا۔
شیخ سوندہان بن عبدالمومن، شیخ بلاتی کتھیلی، سید غریب اللہ کیرانوی، شیخ ابو المعالی انبیٹھوی، سرور شیخ عبدالقدر سنوری آپ کے خلفاء میں سے تھے۔
چو داؤد شد ازقضائے الٰہیہ
ازیں دہر در خلد جنت نشین
بگو شیخ داؤد حق بیں بسال
۱۰۹۵ھ
دگر بار داؤد و شیخ یقین
۱۰۹۵ھ